JUI، PTIمیں دوریاں، اپوزیشن اتحادخارج ازامکان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستانی سیاست میں غیر متوقع اتحاد کوئی نئی بات نہیں مگر بعض خلیج تنی گہری ہوتی ہےکہ اسے پاٹنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ جے یو آئی (ف) اورپی ٹی آئی کے درمیان اتحاد بھی اسی زمرے میں آتا ہے، دونوں جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی، نظریاتی بنیادیں اور گزشتہ چند برسوں میں تلخ سیاسی بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ ان کے درمیان کسی قسم کا اتحاد مستقبل قریب میں ممکن نہیں، ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بعض حلقوں کی جانب سے جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے ممکنہ اتحاد کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں، تاہم جے یوآئی کوپی ٹی آئی کے بعض اقدامات پر شدیدتحفظات ہیں خاص طورپراسٹیبلشمنٹ کے معاملے پر تحفظات زیادہ ہیں دونوں جماعتوں میں طے ہواتھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں کئے جائیں گے لیکن پی ٹی آئی کے اندرایک گروپ اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا حامی ہے،چنانچہ جے یو آئی اس معاملے پر وضاحت چاہتی ہے لیکن پی ٹی آئی اس سے گریزاں ہیں یوں دونوں جماعتوں کے قریب آنے یاحکومت مخالف مضبوط اتحادکاکوئی امکان نظرنہیں آتا،ادھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کی جس کے بعدپریس کانفرنس میں کہاگیاکہ اتحاد امت کے نام سے ایک نیا پلیٹ فارم قائم کیا جا رہا ہے، دونوں رہنماؤں نے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کیلئے 27 اپریل کو مینارِ پاکستان پرجلسے کا اعلان کر دیا، ان کاکہناہیکہ اتحاد کے نام پر ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دیا جا رہا ہے، ملک بھرمیں فلسطین کی صورت حال پر بیداری کی مہم چلائیں گے، اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی یہودی لابی ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں،بلاشبہ اس ملاقات کوکوئی سیاست مقصدنہیں تھااہم فلسطین کے معاملے پر دونوں بڑی مذہبی جماعتوں کا ساتھ ملنابہت خوش آئندہے،علاوہ ازیں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پروفا ق اورسندھ کے درمیان پیداہونیوالے تنازع کے حوالے سے ایک اہم اورمثبت پیشرفت سامنے آئی ،فریقین نے اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے،یہ پیشرفت خاص طور پر ملک میں سیاسی استحکام برقراررکھنے کے حوالے خو ش آئندہے کیونکہ حکمراں اتحادمیں شامل اہم سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی طرف سے حکومت سے علیحدگی کاعندیہ بھی دیاجارہاتھااورایسی ممکنہ صورت حال سیاسی خلفشارکاباعث بن سکتی تھی جب کہ وفاق اورصوبہ سندھ کے درمیان دوریاںپیداہوتیں جو کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں، وزیراعظم کے مشیربرائے سیاسی اموررانا ثنا اللہ نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے دوبار ٹیلی فون پر رابطہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے معاملے پر ٹی ا ئی کے کے درمیان
پڑھیں:
ساحل کے سائے میں محرومیوں کی داستان
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، مگر سندھ جیسے صوبے میں، جہاں ناخواندگی کی شرح پہلے ہی تشویشناک حد تک بلند ہے، وہاں گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکولز کا ناسور تعلیمی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران متعدد رپورٹس نے یہ انکشاف کیا کہ محکمہ تعلیم سندھ میں ہزاروں اساتذہ ایسے ہیں جو نہ صرف ڈیوٹی سے مسلسل غیر حاضر ہیں بلکہ سرکاری خزانے سے باقاعدگی سے تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں۔
اکتوبر 2024 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 5,000 گھوسٹ اساتذہ کی شناخت کی گئی، جن میں سے بعض بیرون ملک مقیم تھے اور دو سال سے زائد عرصے سے اپنے اسکولز نہیں گئے، مگر ان کے اکاؤنٹس میں تنخواہیں باقاعدگی سے منتقل ہو رہی تھیں۔ یہ معاملہ صرف اساتذہ تک محدود نہیں۔ سندھ میں 1,459 گھوسٹ اسکولز کی بھی نشاندہی کی گئی، جو صرف کاغذی طور پر موجود تھے۔
نہ وہاں طلباء تھے، نہ اساتذہ، نہ تدریسی سرگرمیاں۔ اس کے باوجود ان کے لیے بجٹ مختص کیا جاتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں گیا؟ کن جیبوں میں پہنچا؟ اور اس کا حساب کون دے گا؟ تعلیم کو بہتر بنانے کے بجائے، اسے منافع کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی، جیسے کہ بیت الخلا، پینے کا پانی، بجلی اور چار دیواری نہ ہونے کی بناء پر مزید اس صورتحال کو بد ترین بنا رہی ہے۔ 49,000 سے زائد اسکولز میں سے ہزاروں اسکول ایسے ہیں جہاں ایک بھی سہولت دستیاب نہیں۔ تعلیم، ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن کراچی کے دیہی و ساحلی علاقوں میں یہ حق ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
ان علاقوں میں نہ صرف تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے بلکہ جو اسکولز موجود ہیں ان کی حالت ایسی ہے جیسے وہ تعلیم کے بجائے حادثات کی آماج گاہ بن چکے ہوں۔ کراچی کے ساحلی علاقے مبارک ولیج کے سیکنڈری اسکول کی عمارت اسی تلخ حقیقت کی ایک خوفناک مثال ہے۔ 14 اپریل 2025 کو صبح 7 بج کر 42 منٹ پر جب بچے اسکول پہنچنے ہی والے تھے، بلڈنگ کے روم نمبر 3 کی چھت اچانک زمین بوس ہو گئی۔ خوش قسمتی کہیے یا محض اتفاق کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس کے نیچے رکھی ہوئی میزیں،کرسیاں اور ڈیسک چکنا چور ہوگئیں۔
یہ حادثہ اگر صرف چند لمحے بعد پیش آتا، تو شاید کئی معصوم جانیں ملبے تلے آ جاتیں، یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی اسی اسکول کی دوسری عمارت سے چھت کا ملبہ گر چکا ہے۔ مگر افسوس کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی صرف آنکھیں بند کر کے ’’ شکر‘‘ ادا کیا گیا عملی اقدامات آج تک نہیں کیے گئے۔ مبارک ولیج کا اسکول صرف ایک عمارت نہیں، یہ ہزاروں ساحلی بچوں کے خوابوں کا مرکز ہے۔ مگر اب یہ خواب ایک خوف میں بدل چکے ہیں۔ بچے روز ملبے کے سائے تلے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ انھیں پڑھائی سے پہلے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگلا پتھر کب اور کہاں گرے گا۔
یہ صورتِ حال محض ایک اسکول کی نہیں، بلکہ کراچی کے بیش تر دیہی و ساحلی اسکولوں کی ہے، جہاں نہ بنیادی سہولیات موجود ہیں، نہ مرمت، نہ نگرانی اور نہ کوئی جواب دہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان بچوں کا قصور یہ ہے کہ وہ شہرکے مضافات میں پیدا ہوئے؟ کیا تعلیم صرف شہر کے پوش علاقوں میں بسنے والے بچوں کا حق ہے؟ یہ حالات نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ شرمناک بھی۔ اگر ہم نے فوری طور پر اسکولوں کی مرمت، بحالی اور سیکیورٹی پر توجہ نہ دی، تو وہ دن دور نہیں جب کسی بچے کا خواب صرف کتابوں میں دفن نہیں ہوگا، بلکہ وہ خود کسی چھت کے ملبے تلے دب جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ سندھ، محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس لیں، اسکول کی مرمت کروائیں، اور پورے کراچی میں تعلیمی اداروں کی عمارتوں کا ہنگامی آڈٹ کروایا جائے،کیونکہ تعلیم تب ہی ممکن ہے جب زندگی محفوظ ہو اور فی الحال، مبارک ولیج کے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ یہ بات حیران کن بھی ہے اور افسوسناک بھی کہ یہ کراچی کی ساحلی بستیاں پیپلز پارٹی کا گڑھ رہی ہیں، پیپلز پارٹی نے دہائیوں تک یہاں سے ووٹ لیے، مگر بدلے میں ان بستیوں کو محرومیوں کا ایندھن بنا دیا۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی، جو سندھ پر پچھلے کئی برسوں سے بلاشرکت غیرے حکومت کر رہی ہے، ان ساحلی بستیوں کی محرومی کی سب سے بڑی شریک ہے۔
یہ وہ علاقے ہیں جہاں اسکول کی عمارتیں کھنڈرات میں بدل چکی ہیں، اسپتال یا تو ہیں ہی نہیں یا محض نام کے ہیں۔ حاملہ خواتین کو شہرکے مرکزی اسپتال پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں، کئی بچے صرف اس لیے اسکول نہیں جا پاتے کہ ان کے علاقے میں کوئی معیاری اسکول ہی موجود نہیں۔ اکثر مقامی افراد اپنی کشتیوں، روزمرہ مزدوری یا ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں، مگر حکومت کی جانب سے نہ ان کے روزگار کے لیے کوئی پالیسی ہے، نہ سہارا۔ کیا صرف ووٹ لینے کے لیے ان بستیوں کا وجود یاد رکھا جائے گا؟ کیا یہ لوگ پاکستانی شہری نہیں؟ کیا ان کے بچوں کا خواب، ایک بہتر زندگی کا حق، صرف انتخابی منشور میں چند سطروں تک محدود رہے گا؟ پیپلز پارٹی کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے آبائی گاؤں دادو کی یہ خبر پورے سندھ میں شعبہ تعلیم میں عدم شفافیت کی نشاندہی کررہی ہے کہ دادو میں محکمہ تعلیم نے 2021میں ہونے والی جعلی بھرتیوں کے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اس خبر میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک کمیٹی ان جعلی اساتذہ کے بارے میں تحقیقات کر کے 15 دن میں سیکریٹری تعلیم کو رپورٹ پیش کرے گی۔ اگلے ہفتے سندھ کے نئے مالیاتی بجٹ کا اعلان ہوگا۔
ضروری ہے کہ نئے بجٹ میں کراچی کے ساحلی علاقوں کے اسکولوں کی تعمیر، مرمت اور ان اسکولوں میں سائنسی لیب کے قیام کے لیے رقم مختص کی جائے۔ اس طرح ساحلی علاقوں میں اسپتالوں کے قیام اور ایمبولینس سروس کے لیے بھی خاطرخواہ رقم مختص ہونی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ اس رقم کو شفاف طریقے سے استعمال کے طریقہ کارکی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔ کراچی کی ساحلی بستیاں آج بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔ شاید ایک امید کے سہارے۔ مگر اگر یہ امید بار بار ٹوٹتی رہی، تو یہ خاموش سمندر ایک دن طوفان بھی بن سکتا ہے،کیونکہ جب ریاست اپنے شہریوں کو مسلسل نظر انداز کرتی ہے، تو پھر وہ شہری سوال کرنا سیکھتے ہیں اورکبھی کبھی انقلاب بھی۔