پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) پاکستان سے غیر ملکی باشندوں کی ملک بدری کی مہم کے دوران ستمبر 2024ء سے لے کر اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیجا جا چکا ہے۔ ان افغان شہریوں میں تقریباﹰ نصف تعداد خواتین اور مختلف عمر کی لڑکیوں کی تھی۔
اہم بات تاہم یہ ہے کہ انہی افغان باشندوں میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسی کم عمر طالبات بھی شامل تھیں، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں، مگر اب ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد واپس اپنے وطن میں ان کے لیے طالبان حکومت کی سخت پالیسیوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
ان ہزارہا افغان لڑکیوں کو ان کی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان سے ملک بدری کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ایک ایسے وقت پر روکنا پڑا، جب ان کے امتحانات بھی شروع ہونے والے تھے۔
(جاری ہے)
خاص طور پر یکم اپریل سے شروع کی گئی بے دخلی مہم کے دوران ایسے زیادہ تر افغان شہریوں کو پاکستانی صوبوں پنجاب اور سندھ سےلا کر صوبے خیبر پختونخوا میں طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کے راستے واپس افغانستان بھیجا گیا۔
پنجاب اور سندھ سے افغان باشندوں کی بے دخلیپنجاب اور سندھ میں رہائش پذیر افغان مہاجر خاندانوں کی زیادہ تر بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم تھیں۔ صوبے خیبر پختونخوا میں بے دخلی مہم کی سست روی کی وجہ سے تاحال صرف رضاکارانہ طور پر ہی کچھ افغان کنبے واپس گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کے مطابق پشاور سے واپس افغانستان جانے والی طالبات کی تعداد تقریباﹰ دو فیصد بنتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف افغان بچیاں مختلف سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں، وہیں پر بعض افغان ماہرین نے اپنے تعلیمی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔عالمی برادری افغان باشندوں کی دوبارہ آبادکاری کے عمل کو تیز رفتار بنائے، اسلام آباد کا مطالبہ
پشاور میں اسی نوعیت کے ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر نور افغان سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ''خیبر پختونخوا میں 50 فیصد افغان بچیاں نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔
لیکن اب چونکہ نیا تعلیمی سیشن شروع ہو رہا ہے، تو ان طالبات کے والدین غیر یقینی صورتحال کے باعث اگلے تعلیمی سال کے لیے ان کے داخلے نہیں کروا رہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ان بچیوں کی تعلیم کے لیے والدین بھاری فیسیں تو ادا کر دیں مگر پھر انہیں مجبوراﹰ پاکستان سے رخصت ہونا پڑ جائے۔‘‘ پاکستان میں ’پچاس فیصد افغان طالبات کے نئے تعلیمی داخلے نہ ہو سکے‘ڈاکٹر نور افغان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے افغان باشندے اپنے اہل خانہ کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے سبب پاکستان میں رہتے ہیں، وہ سہولیات جو افغانستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ڈاکٹر نور افغان، جو خود بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اسکولوں میں داخلہ مہم کے دوران 50 فیصد افغان طالبات کے داخلے نہ ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ملک بدری کی موجودہ مہم سے افغان طالبات 100 فیصد متاثر ہوئی ہیں۔ ہزارہا لڑکیاں واپس افغانستان جا چکی ہیں، جبکہ جو ابھی تک پاکستان میں ہیں، وہ موجودہ غیر یقینی صورت حال کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتیں۔
مزید یہ کہ پاکستان میں مثلاﹰ نجی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم افغان لڑکیاں اگر اپنی مائیگریشن بھی کرا لیں، تو یہ امکان بہت کم ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز
ڈاکٹڑ نور افغان کے بقول، '' پاکستانی پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم افغان طالبات بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔
ایسی لڑکیوں کے والدین یا کچھ اہل خانہ زیادہ تر یورپی ممالک یا امریکہ میں رہتے ہیں اور وہیں سے وہ انہیں ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقوم بھیجتے ہیں۔ ایسے بعض والدین تو بیرون پاکستان سے براہ راست ہی متعلقہ میڈیکل، انجینئرنگ یا آئی ٹی کالجوں میں ان بچیوں کی فیسیں جمع کرا دیتے ہیں۔‘‘ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں افغان مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیںپشاور میں صوبائی حکومت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم کے اعداد و شمارکےمطابق صوبے کے پرائمری اور ہائی اسکولوں میں مجموعی طور پر تین لاکھ افغان طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
پاکستان: ملک بدری کے لیے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن
صوبائی حکومت نے صوبے کے تمام کالجوں میں بھی افغان طلبا و طالبات کے لیے دو دو نشستیں مختص کی تھیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کےمطابق اس وقت سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 760 نوجوان افغان شہری بطور طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ وفاقی حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے روانگی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل ہی پشاور حکومت سے صوبے میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا وطالبات کی مکمل تفصیلات طلب کر لی تھیں۔
خیبر پختونخوا کے تعلیمی محکمے کی پالیسیپاکستان سے اب تک زیادہ تر افغان باشندوں کو پنجاب اور سندھ سے بے دخل کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاحال حکومتی پالیسی غیر واضح ہے۔ اس پس منظر میں صوبائی محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پورے صوبے میں داخلہ مہم جاری ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے بچوں کو داخلے دینے کے حوالے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی کی مہم کے دوران صرف پشاور سے تقریباﹰ 200 طالبات واپس جا چکی ہیں، تاہم پورے صوبے کی سطح پر یہ ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں۔‘‘ افغان طالبات کی پریشانی میں اضافہپاکستان سے افغان شہریوں کی ملک بدری سے خواتین بالخصوص طالبات شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایسی لڑکیاں ہیں، جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئیں اور یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ایسی طالبات کے میل ملاپ والے سماجی حلقے بھی مقامی ہی ہیں۔پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی افغان طالبہ مسکا احمدزئی (نام دانستہ طور پر فرضی لکھا جا رہا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پیدائش پشاور ہی کی ہے۔ میں یہیں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی افغانستان نہیں گئی۔ نہ ہی جانے کا ارادہ تھا یا ہے۔ لیکن اب دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑ سکتی ہے۔
‘‘پاکستان سے افغان باشندوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن میں توسیع
اس افغان طالبہ نے کہا، ''مجھے اپنے والدین کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے میں اپنی تعلیم کی قربانی دوں گی۔ اس لیے کہ جو کچھ میں خیبر پختونخوا میں پڑھ رہی ہوں، اس کا سلسلہ افغانستان میں جاری رکھنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔‘‘
مسکا احمدزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ایک بہن میڈیکل کی طالبہ ہے، جو ابھی تھرڈ ایئر میں ہے۔
جب وہ افغانستان جائے گی، تو اپنی ڈگری وہاں بھلا کیسے مکمل کر سکے گی۔ ہم سب کو یہ پریشانی اس وقت سے لگی ہے، جب سے پاکستان نے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی عجیب اور بے یقینی کی صورت حال ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ چند ایک کا نہیں بلکہ لاکھوں افغان لڑکیوں اور بچیوں کا مسئلہ ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہانسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی حکومت سے ملک میں زیر تعلیم افغان طالبات کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے اور ان طالبات کو ان کے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔پاکستان میں افغان خواتین کارکنوں کو ملک بدری کا خوف
دوسری جانب افغان حکومت کے بعض حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایسے بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کی پالیسی کے مطابق افغانستان میں بچیاں صرف چھٹی کلاس تک ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اس سے آگے ان کی تعلیم پر پابندی ہے۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم خیبر پختونخوا میں خیبر پختونخوا کے افغان مہاجرین کے پنجاب اور سندھ محکمہ تعلیم کے افغانستان میں افغان باشندوں میں زیر تعلیم تعلیمی ادارے افغان طالبات مہم کے دوران پاکستان میں پاکستان سے اپنی تعلیم طالبات کے ان طالبات نور افغان زیادہ تر ملک بدری ڈی ڈبلیو سے افغان کے لیے کے ایک
پڑھیں:
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر صدارت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) لاہور اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی (اے ایس یو) امریکہ کے نمائندگان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے عالمی تعلیمی معیار کو اپنانے اور ڈیجیٹل و علم پر مبنی معیشت کے قیام کے عزم کو اجاگر کیا گیا۔ جمعرات کو ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ این آئی ٹی اور اے ایس یو کے درمیان اشتراک پاکستان کی تعلیمی تبدیلی کی جانب ایک نمایاں قدم ہے جس کے تحت پاکستانی طلبہ کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ اعلیٰ تعلیم، دوہری ڈگریوں، بین الاقوامی نصاب اور جدید تحقیقاتی مواقع تک رسائی حاصل ہو گی۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 15 کروڑ سے زائد نوجوان موجود ہیں، ہمیں اس توانائی کو ایک موثر قومی سرمایہ میں تبدیل کرنا ہے، یہ شراکت داری ہمارے نوجوانوں کو مستقبل کی مہارتوں سے لیس کرنے کے عزم کی عکاس ہے۔
انہوں نے اے ایس یو کے ساتھ اشتراک کو سراہا جو گزشتہ دس سال سے مسلسل امریکہ کی سب سے جدید یونیورسٹی قرار دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اشتراک پاکستان کو عالمی جدت اور مقامی اہمیت کے سنگم پر لے آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ این آئی ٹی پاکستان میں آئی ٹی، مصنوعی ذہانت ، فن ٹیک اور ای-کامرس جیسے شعبوں کے لیے ایک قومی ٹیلنٹ پائپ لائن کے طور پر کام کرے گا جو ڈیجیٹل پاکستان وژن سے ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے حکومت کی جانب سے ایسے مستقبل بین تعلیمی ماڈلز کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اور قومی قیادت اور بین الاقوامی علمی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اشتراک اصلاحات پر مبنی وژن کا عملی نمونہ ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب قومی صلاحیت کو عالمی مہارت کے ساتھ جوڑا جائے تو بڑی تبدیلیاں ممکن ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا مستقبل ایسی یونیورسٹیز کے قیام میں ہے جو عالمی سطح پر مسابقت رکھتی ہوں اور مقامی ضروریات کو پورا کرتی ہوں، اے ایس یو کے ساتھ اشتراک یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک جدید اور جامع تعلیمی نظام کس طرح قوموں کو بدل سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرز کے اشتراک کے امکانات ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ بھی زیر غور ہیں تاکہ فاصلاتی اور ڈیجیٹل تعلیم کے میدان میں اے ایس یو کی علمی برتری کو مزید وسعت دی جا سکے۔