نیٹ ورک مسائل سے کاروبار کے تسلسل اور صارفین کے اعتماد کو خطرہ: کاسپرسکی
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اوصاف نیوز) نیٹ ورک کی بندش کاروباروں کے لیے اہم چیلنجز کا باعث بنتی ہے، مالیاتی نقصان، صارفین کے اعتماد کو ٹھیس اور پیداواری صلاحیت میں خلل ڈالتی ہے ۔ کیسپرسکی کی حالیہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 71فیصد تر کمپنیوں کو نیٹ ورک کی بندش کے بعد کام بحال کرنے کے لیے ایک سے پانچ گھنٹے درکار ہوتے ہیں، جب کہ دس میں سے ایک کمپنی کو کام کا پورا دن یا اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
نیٹ ورک کی بندش ایسا مسئلہ ہے جب نیٹ ورک دستیاب نہ ہو یا اکثر ہارڈ ویئر کی ناکامی، سافٹ ویئر کی خرابیوں، انسانی غلطیوں، یا قدرتی آفات کی وجہ سے خرابی کا شکار ہو جائے۔ ۔ پرانا سامان، خراب دیکھ بھال، یا غیر متوقع طور پر بجلی کے اضافے عام مسائل ہیں۔نیٹ ورک کی بندش میں انسانی غلطی بھی ایک اہم عنصر ہے۔
غلط کنفیگریشنز، سازوسامان کی غلط ہینڈلنگ، یا اہم ڈیٹا کا حادثاتی طور پر حذف ہونا۔ مزید برآں، سائبر حملے جیسے ڈی ڈاس حملے یا میلویئر انفیکشن نیٹ ورک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔
کیسپرسکی تجویز کرتا ہے کہ کمپنیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بندش کے بعد اپنے نیٹ ورک کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے بحال کرنے کے لیے ایک منصوبہ منصوبہ بنائیں۔ نیٹ ورک کی بندش سے بحالی کا پہلا قدم مسئلہ کی بنیادی وجہ کا تعین کرنا اور تمام متعلقہ فریقوں کو ملازمین، صارفین، سپلائرز اور دیگر شراکت داروں کو بندش کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ واضح اور بروقت کمیونیکیشن کا انتظام بندش کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر سکتاہے۔
مستقبل میں نیٹ ورک کی بندش کو روکنے کے لیے، کاروباروں کے پاس سسٹم اور بیک اپ ہونے چاہئیں جن میں بیک اپ سرورز، نیٹ ورک کا سامان، اور ڈیٹا سٹوریج کے حل شامل ہو سکتے ہیں جنہیں بندش کی صورت میں فعال کیا جا سکتا ہے۔ کمپنیوں کو نیٹ ورک کی کارکردگی کی نگرانی، باقاعدہ ٹیسٹ کرنے اور سائبر خطرات سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے پروٹوکول قائم کرنا چاہیے۔
تقریباً ایک تہائی کمپنیوں کے پاس روٹرز اور کسٹمر پریمیسس ایکوئپمنٹ (سی پی ای) کے لیے کم فریکوئنسی یا کوئی باقاعدہ متبادل شیڈول نہیں ہے جو نیٹ ورکس تک محفوظ رسائی فراہم کرنے اور متعدد مقامات کے درمیان رابطے کو فعال کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
قابل اعتماد نیٹ ورکس بنانے اور جغرافیائی تقسیم شدہ کاروبار کو برقرار رکھنے کے لیے، یہ تجویز کی جاتی ہے کہ خصوصی حل جیسے کہ کیسپرسکی وین ایس ڈی استعمال کریں۔
یہ حل ایک ہی کنسول سے پورے کارپوریٹ نیٹ ورک کا انتظام کرتا ہے، کمپنیوں کی ایپلیکیشن کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے اور الگ الگ کمیونیکیشن چینلز اور نیٹ ورک کے افعال کو یکجا کرتا ہے۔ ان سفارشات پر عمل کر کے، کاروبار نیٹ ورک کی بندش کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں اور اپنے کاموں کے تسلسل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نیٹ ورک کی بندش سکتے ہیں بندش کے کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
 انصار عباسی