ارشد ندیم کو انڈیا آنے کی دعوت دینے پر بھارتی انتہا پسند نیرج چوپڑا کے پیچھے پڑ گئے
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کو بھارت میں ہونے والے نیزہ بازی کے ایک ایونٹ میں شرکت کی دعوت دینا بھارتی انتہاپسندوں کو ہضم نہ ہوا اور اسی بنیاد پر اپنے ہی ہیرو نیرج چوپڑا کو نفرت اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نیرج چوپڑا نے 24 مئی کو بھارت کے شہر بنگلورو میں ہونے والے ’’نیراج چوپڑا کلاسک‘‘ میں ارشد ندیم سمیت دنیا بھر کے صف اول کے اتھلیٹس کو مدعو کیا تھا، لیکن بھارتی میڈیا اور انتہاپسند حلقوں نے اس فیصلے کو ’’حب الوطنی کے خلاف‘‘ قرار دے کر محاذ کھول دیا۔
سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، الزامات اور شدید تنقید کے بعد نیرج چوپڑا کو صفائی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ "میری محبت اپنے ملک سے کسی سے کم نہیں، لیکن جب میرے خلوص اور خاندان پر حملے کیے جائیں گے تو میں خاموش نہیں رہوں گا۔"
نیرج نے واضح کیا کہ ارشد کو دعوت دینا صرف ایک کھلاڑی کی جانب سے دوسرے کھلاڑی کے لیے کھیل کے جذبے کے تحت تھا، مگر اب کشیدہ صورتحال کے باعث "ارشد کی شرکت ممکن نہیں رہی"۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ارشد ندیم نے پہلے ہی نیرج چوپڑا کی دعوت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کرلی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا سال بھر کا ٹریننگ شیڈول اور ایونٹس پہلے سے طے شدہ ہیں، اور ان دنوں وہ کوریا میں 27 مئی سے شروع ہونے والی ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
ذرائع کے مطابق ارشد ندیم مئی کے تیسرے ہفتے میں جنوبی کوریا روانہ ہوں گے اور ان دنوں لاہور میں بھرپور ٹریننگ کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیرج چوپڑا
پڑھیں:
سیریزاسکوئڈ گیم کی بے انتہا مقبولیت کے پیچھے چھپے راز سے پردہ اٹھا دیا گیا
نیٹ فلکس کی تاریخ کا سب سے مقبول اور کامیاب شو ”اسکوئڈ گیم“ نے ناظرین کو اپنے منفرد انداز، سنسنی خیز کہانی اور جذباتی گہرائی سے نہ صرف مسحور کیا بلکہ اسٹریمنگ پلیٹ فارم کے لیے ریکارڈ توڑ کامیابی بھی سمیٹی۔
حالیہ ایک میڈیا ایونٹ میں نیٹ فلکس ایشیا کی نائب صدر منیونگ کم نے اس بلاک بسٹر شو کے پسِ پردہ حکمتِ عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس منصوبے کی کامیابی کا اصل راز ’مقامی کہانیوں پر توجہ‘ ہے۔منیونگ کم کا کہنا تھا، ”جب ہم نے اسکوئڈ گیم پر کام شروع کیا، ہمارا مقصد کوئی بین الاقوامی دھماکہ خیز ہٹ بنانا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی کہانی سنانا تھا جو کورین معاشرے، ثقافت اور جذبات سے جُڑی ہو۔“
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ نیٹ فلکس ہمیشہ ایسے مواد کی تلاش میں رہتا ہے جو ناظرین کو ان کے روزمرہ زندگی اور جذبات سے جوڑ دے۔ ایسی کہانیاں جو صرف دکھاوے کی بجائے حقیقت کے قریب ہوں۔منیونگ کم نے کہا کہ اسکوئڈ گیم کی مقامی سچائی، ثقافتی گہرائی اور جذباتی جڑت ہی وہ عناصر تھے جنہوں نے ناظرین کو ہر خطے میں متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مقامی کورین سیریز عالمی اسکرینوں پر چھا گئی۔
منیونگ کم نے اس موقع پر نیٹ فلکس کے وژن کو دہرایا کہ، ”ہم صرف ہٹ شوز بنانے کے لیے کام نہیں کرتے، بلکہ ہم وہ کہانیاں تلاش کرتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے دل کی آواز ہوں، چاہے وہ کوریا ہو، بھارت ہو یا پاکستان۔“اسکوئڈ گیم کی زبردست کامیابی نے نہ صرف نیٹ فلکس کے سبسکرائبرز کی تعداد میں بے مثال اضافہ کیا، بلکہ دنیا بھر کے مواد تخلیق کاروں کو یہ پیغام دیا کہ ”اصل طاقت اپنی شناخت اور کہانی میں چھپی ہوتی ہے۔“