Express News:
2025-06-19@09:05:17 GMT

جھوٹے لوگ، جھوٹی محبت اورجھوٹی دعائیں

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

اب تو خیر ہم صرف اس ’’ سفر‘‘ کے ہوکر رہ گئے ہیں جو بقول رحمان بابا ، کہیں آئے جائے بغیر بیٹھے بیٹھے خود بخود طے ہورہا ہے ۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب آتش جوان تھا خلیل خان غلیل لے کر فاختہ اڑایا کرتا تھا اورحفیظ جالندھری ملکہ پکھراج کی آوازمیں گاتا تھا کہ ابھی تو میں ’’جوان‘‘ ہوں، ابھی تو میں ’’جوان ‘‘ ہوں۔ چنانچہ ہم بھی کبھی یہاں کبھی وہاں سفر میں مصروف رہتے تھے، مشاعروں کے لیے بیاہ شادیوں کے لیے تقریبات کے لیے اور بہت ساری فضولیات کے لیے خرافات اور واہیات کیلیے ۔ ان ہی دنوں ہمیں ایک دعوت ملی کسی عرب ملک میں پشتو مشاعرے کی ۔

ان دنوں یہ ہوا بہت زور سے چلی تھی ،شورسے چلی تھی، اور ٹنگ ٹکورسے چلی تھی کہ کچھ لوگ شاعروں، فنکاروں اورکلاکاروں یا مسخروں کے گروپ بنا کر ان ممالک میں جاتے تھے اور’’داد‘‘ پاتے تھے، یوں کہیے کہ خالی ہاتھ جاتے تھے اورجھولیوں، جیبوں اورنیفوں میں ریال، دینار اوردرہم بھر کر لاتے تھے ۔ لیکن ہم نے انکار کیا ، انھوں نے اصرار کیا اورتعجب کا اظہار کیا کہ لوگ تو ایسی دعوتیں خدا سے مانگتے ہیں ،ہماشما سے مانگتے ہیں اوراپنی رضا سے جاتے ہیں اورتم انکار کرتے ہو، نعمت احقار کرتے ہو ۔

تب ہم نے منہ کھولا، بات کو تولا اوران پر گولہ پھینک دیا۔ کہ ہمیں شرم آتی ہے ان لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے لجا آتی ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے بھگایا، دھتکارا ہے، وطن بدرکیا ہے، اپنے ملک میں ان پر سارے دروازے بند کیے ہیں جیسے کوئی کسی کو اپنے ہی گھر سے دھکے دے کر بھاگنے پر مجبور کرتا ہے ، رنجورکرتا ہے اورمفرورکرتا ہے کہ یہاں ہم نے ایک نہایت ہی ناہموار نظام بنایا ہے۔

 مصنوعی اسلام بنایا ہے اور کھلے عام بنایا ہے کہ پندرہ فی صد چنے ہوئے چور اس میں چر رہے ہیں اورپچاسی فی صد لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ، نہ ان کو روٹی ملتی ہے نہ کپڑا، نہ مکان، نہ روزگار ،نہ ہی جینے کا حقدار سمجھا جاتا ہے اورجہاں پچاسی فی صد وسائل پر پندرہ فی صد رذائل کا قبضہ ہوجاتا ہے تو ان کے گھائل بھاگ جاتے ہیں، کچھ لانچوں میں ڈوب جاتے ہیں، کچھ کنٹینروں میں دم گھٹنے سے مرجاتے ہیں، کچھ جیلوں میں سڑ جاتے ہیں یا کانوں میں زندہ درگور ہوجاتے ہیں ،جو باقی بچ جاتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح ہزار ذلتیں اٹھا کر حقارتیں سہہ کر بہہ کر آتے ہیں توائیرپورٹ پر ہی اپنے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں اورتب تک نوچتے ہیں، کھسوٹتے ہیں، لوٹتے ہیں جب تک ان کے لباس تارتار، بدن فگار اورذہن و دل غار غار نہیں ہوجاتے ۔

اوراب میں وہاں جاؤں ان کو جھوٹ بہلاؤں جھوٹی محبت سے پھسلاؤں کہ … ہمیں بھی دو کچھ ٹکڑے۔ کیا وہ نہیں سوچیں گے کہ کتنے ڈھیٹ ہیں، بے شرم ہیں کہ ہم بھاگے ہوؤں کے آگے ہاتھ پھیلائے یہاں بھی آگئے ۔

 اس ملک نے ہم کو دیا کیا؟

 اس ملک سے ہم نے لیا کیا

 کچھ عرصہ پہلے ایک بابا جی ڈیموں والی سرکار نہ جانے کہاں سے آئے تھے، کہیں سے ٹپکے تھے یا ٹپکائے گئے تھے اور اس نے نہایت حاکم اعلیٰ بن کر پورے عوام کے مینڈیٹ پر، انتخاب پر اورمنہ پرتھپڑ رسید کر کے ایک جائز منتخب وزیراعظم کو پرائمری استاد کی طرح کان سے پکڑ کر کلاس سے باہر کیا تھا اوراپنی خیالی ریاست مدینہ کے امیرالمومنین کا راستہ ہموار کیاتھا ۔ پھر اس کے دماغ میں خود پورا ہیرو بننے کاخیال آیا تو ڈیم ڈیم فل کانعرہ لگایا اوران ہی راندہ درگاہ اوربھگائے ہوئے سوتیلے پاکستانیوں سے چندے مانگے جیسے ہم نے ان کو سفیر بنا کر ان کو وہاں بھیجا ہو اور وہاں ان کو خزانوں پر بٹھایا ہو ۔اور اب چند روزپہلے ریاست مدینہ کے بانی نے بھی ان سے کوئی اپیل کی تھی۔

 کل ملا کر بات یہ بنتی ہے کہ ہم ان مفروروں، مجبوروں، مقہوروں، وطن سے دوروں بلکہ نکالے ہوؤں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی خون پسینے کی مرنے جینے کی کمائیوں سے ہمیں کچھ بھیجو تاکہ ہم یہاں ان موٹے پیٹوں ، سیڑھی دار گردنوں اورفربہ انداموں کو اورفربہ کریں اور خونخوار کریں اور بے رحم دل آزار بنائیں تاکہ وہ کچھ اورکالانعاموں کو لوٹ کر بے در، بے گھر اور بے زر کرکے بھگانے پر مجبور کریں، کرتے رہیں، وہ بیچارے بہت ہی سادہ ہی بھولے ہیں، معصوم ہیں، اگر مظلوم ہیں پھر بھی چپ ہیں کہ وہ سدا سدا کے بھولے تھے، بھولے ہیں اوربھولے رہیں گے ورنہ صاف صاف کہہ دیتے کہ ؎

تو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا

اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا

وہ جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں وہ بھی بہت ہے جو حکومتی ادارے ان کو نوچ نوچ کر لوٹتے ہیں، وہ بھی بس ہے۔ ارے ہاں یاد آیا۔ اس ملک کی حکومتوں نے ان کو توڑنے نچوڑنے اورککھوڑنے کے لیے ایک محکمہ بھی بنایا ۔اوورسیز بدبخت ،اس کے وزیر افسر، نمائندے الگ سے وہاں کے ’’دورے‘‘ کرتے ہیں ان کو جھوٹے دلاسے دیتے ہیں اور’’بھرے بھرائے ‘‘ آتے ہیں ۔

ٹھیک ہے وہ بھولے ہیں سادہ ہیں بلکہ احمق ہیں کہ محبت کرنے والے مخلص لوگ اس دنیا میں احمق ہی کہلاتے ہیں لیکن ان کو اس ظالم، جفاکار، ستم گار اور بے انصا ف وطن سے محبت کی کتنی سزائیں کب تک دوگے ۔ ٹھیک ہے اگر ان کا ایمان ہے کہ ؎

 دل دیا ہے جان بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے

 تو اس کی اتنی زیادہ اورمسلسل سزائیں تو نہ دو کہ آرام کی ایک سانس بھی لینے نہ دو

شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو

 میں دورجاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو

 جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیاہے

 اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں ہیں اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

مسجدِ نبویؐ کے منقش دروازے، مہارت اور محبت کا شاہکار

مسجدِ نبویؐ کے 100 دروازے اس عظیم مسجد کی صدیوں پر محیط دیکھ بھال، محبت اور فنی محنت کی روشن علامت ہیں۔ یہ دروازے اپنے دلکش ڈیزائن، باریک نقش و نگار، اور اعلیٰ کاریگری کے باعث منفرد مقام رکھتے ہیں۔

ان کا جاہ و جلال اور آسان استعمال ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ یہ دروازے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں، چاہے اس کا لباس کچھ ہو یا زبان، یہ اسلامی اقدار جیسے وسعت قلبی اور امن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

یہ دروازے اسلامی فنِ تعمیر کی اعلیٰ مثال ہیں، جن پر نفیس نقش و نگار اور خاص طرز کے کندہ کاری نظر آتی ہے، جو مسجدِ نبویؐ کی مخصوص معماری کی شناخت بن چکے ہیں۔

سب سے نمایاں وہ دروازے ہیں جو سابق خادمِ حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کے دوران بنائے گئے تھے۔ ان دروازوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا گیا۔ توسیع میں 7 مرکزی داخلی راستے شامل کیے گئے، 3 شمالی جانب، اور مشرقی و مغربی جانب 2-2۔

ہر مرکزی داخلی راستے سے 7 بڑے دروازے کھلتے ہیں، 2 علیحدہ فاصلے پر، اور 5 درمیانی حصے میں ایک ساتھ نصب کیے گئے ہیں۔

ہر دروازہ 3 میٹر چوڑا، 6 میٹر اونچا اور 13 سینٹی میٹر سے زیادہ موٹا ہے، جبکہ وزن تقریباً 1.25 ٹن ہے۔ اس کے باوجود، خاص میکینزم کی بدولت یہ دروازے ایک ہاتھ سے بھی آسانی سے کھولے اور بند کیے جا سکتے ہیں۔

یہ دروازے اعلیٰ معیار کی ٹیک لکڑی سے تیار کیے گئے، جن کی مقدار 1,600 مکعب میٹر سے زائد تھی۔ ہر دروازے میں 1,500 سے زیادہ سونے کی ملمع کاری والی تانبے کی پلیٹیں استعمال کی گئیں، جن پر دائرہ طرز میں ’محمد، رسول اللہ ﷺ‘ کندہ ہے۔

ان دروازوں کی تیاری کئی ملکوں میں ہوئی۔ تانبے کی چمک فرانس میں دی گئی، لکڑی امریکا سے منگوائی اور وہیں تیار کی گئی، 5 ماہ تک بارسلونا (اسپین) میں خاص اوونز میں خشک کی گئی، بعد ازاں اسے لیزر سے تراشا گیا، چمکایا گیا، سونے سے ملمع کیا گیا، اور روایتی طریقوں سے بغیر کیل کے جوڑا گیا۔

یہ دروازے نہ صرف فنِ اسلامی کا ایک شاندار نمونہ ہیں بلکہ ماضی کی خوشبو اور حال کی شان کو ایک ساتھ جوڑتے ہوئے اسلامی تہذیب اور شناخت کی مضبوط علامت بھی ہیں۔

بشکریہ: سعودی پریس ایجنسی

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلامی تہذیب شاہ فہد مسجد نبوی مسجد نبویؐ کے دروازے

متعلقہ مضامین

  • ‘رانجھنا’ کے 12 سال مکمل، جشن میں کون کون شریک؟
  • مسجدِ نبویؐ کے منقش دروازے، مہارت اور محبت کا شاہکار
  • فضل الرحمان کے بیٹے اسجد کو لکی مروت جاتے ہوئے 40، 50 افراد کی اغواء کرنے کی کوشش