WE News:
2025-06-06@07:24:12 GMT

جنگ کیا مسائل کا حل دے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

یکم ستمبر 1939 کو جرمن فوج پولینڈ میں داخل ہوئی اور اسی دن اس جنگ کا آغاز ہوگیا جسے ہم دوسری جنگِ عظیم کے نام سے جانتے ہیں اور جس میں 61 ممالک نے حصّہ لیا (کل دُنیا کی %80) جبکہ یہ جنگ 40 ملکوں کی زمین پر لڑی گئی۔ جنگ کی تباہ کاری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف روس کے 70 ہزار گاؤں اور 32 ہزار کارخانے راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے۔ 6 سال بعد یہ جنگ اختتام کو پہنچی تو ہیروشیما سے برلن اور لندن سے سٹالن گراڈ تک موت ہی موت تھی۔

جنگ شروع کرنے والے اٹلی کےمسولینی کو اپنے ہی عوام نے 28 اپریل 1945 کو اٹلی میں مار دیا جبکہ 2 دن بعد یعنی 30 اپریل کو اس کے ساتھی جرمنی کے ہٹلر نے بھی خودکشی کر لی لیکن تب تک 5 کروڑ افراد مارے جا چکے تھے۔ دُنیا کے ایک بڑے حصّے خصوصًا یورپ سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور سوگواروں کی تعداد لاشوں سےبھی کم رہ گئی تھی۔

22ستمبر 1980 کو ایران عراق جنگ شروع ہوئی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ایک قرارداد (598) پاس کی اور جنگ بند کرائی تو ایران کے حصّے میں 5 لاکھ جبکہ عراق کو 3 لاکھ 75  ہزار لاشوں کا حصّہ ملا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران دُنیا میں تنہا ہوگیا جبکہ صدام حسین اور عراق کا انجام آپ کے سامنے ہے۔

24دسمبر 1979 کو روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی۔ جب 10 سال بعد اس کی شکست کھائی فوجیں اپنے ملک لوٹ رہی تھیں تو نہ صرف وسیع و عریض روس کئی حصّوں میں بٹ چکا تھا بلکہ 14 لاکھ افغانوں کی لاشوں کو گدھ نوچ چکے تھے جبکہ شدید خانہ جنگی اور طویل مہاجرت الگ سے اس جنگ کے میراث ہیں۔

1965 میں امریکا نے اپنے دستے ویتنام میں اُتارے تو 6 سال سے جاری جنگ میں مزید شدّت آگئی بالآخر 10 سال بعد 1975 میں جنگ اختتام کو پہنچی لیکن تب تک 15 لاکھ کے قریب ویتنامی مار دیے گئے تھے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بھی اس جنگ سے 3 لاکھ لاشیں وصول کر چکے تھے۔

اس طویل تمہید کو باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگ کسی قوم کی جھولی میں اگر کوئی تحفہ ڈالتی ہے تو وہ صرف لاشیں، بربادی، غربت، مسائل اور تنہائی ہی ہوتے ہیں جو بہت دور تک اور دیر تک پیچھا کرتے ہیں۔

اس لیے اگر ہم ملک کو درپیش خطرناک صورتحال (جنگ کے منڈلاتے بادل) کے پیش نظر بعض حقائق کے ادراک کی طرف مڑیں تو وہ یقیناً ہمیں تدّبر، بصیرت اور احتیاط کے راستے پر ڈال سکتی ہے جو اس ملک کی بقا اور استحکام کی ضامن ہوگی۔

اگر ہم شیخ رشید ٹائپ کی ‘چھوڑُو پریس کانفرنسز’ اور سوشل میڈیا کے نوزائیدہ مجاہدین کی حقائق سے ماورا باتوں کو پس پشت ڈال دیں تو کچھ تلخ حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں۔ مثلاً ہم اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ہیں، ساتھ ہی ساتھ دُنیا کے بیشتر ممالک کو ہمارے بعض معاملات پر تحفظات ہیں۔

اس کے علاوہ ہندوستان کے پاس سوا ارب آبادی کی وجہ سے دُنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے، جبکہ پاکستان اس سلسلے میں 11 ویں نمبر پر ہے۔ انڈیا کا دفاعی بجٹ 58 کھرب سے زائد ہے جو امریکا، روس، چین اور سعودی عرب کے بعد پانچواں بڑا دفاعی بجٹ ہے۔ جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10 کھرب سے بھی کم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ہمارا دشمن دُنیا کی 7ویں بڑی معیشت ہے اور اس کا جی ڈی پی 2200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری بعض نادانیوں کی وجہ سے ہمارا دشمن سفارتی محاذ پر اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔

لیکن ان تمام تر تحفظات کے باوجود بھی ایسا ہرگز نہیں کہ ہندوستان چڑھ دوڑے گا اور ہمیں (خدانخوستہ) ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ یہ ملک نیپال ہے نہ ہماری فوج جواب دینے کی طاقت سے محروم!

تاہم دانشمندی اور تدّبر سے کام لینا ہی بہتر ہے جو نہ صرف ہمارے حق میں اچھا ہے بلکہ ہندوستان کی بقا بھی اس سے وابستہ ہے اور ہاں! حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا بلکہ سنجیدگی اور تدبر کا دامن بھی تھامنا ہوگا تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں ہلکی سی دراڑ بھی دکھائی نہ دے۔ ساتھ ساتھ ان لفنگوں کو شٹ اپ کال دینی ہوگی جو حقائق سے بے خبر اپنی سیاست چمکانے میں مگن ہیں (بلکہ ہوسکے تو ان کے ہاتھ میں موجود مائیک ان کے منہ میں گھسیڑ دیا جائے) تا کہ قوم یکسوئی کے ساتھ جنگ ٹالنے اور دانشمندی اپنانے کے سفر میں تیزی لا سکے۔

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسائل کا حل دے گی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

حماد حسن

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے ساتھ اور اس

پڑھیں:

آئین کے تحت حاصل اختیارات احتجاج میں خم ٹھوک کر استعمال کروں گا، علی امین گنڈاپور

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدلیہ اب آزاد نہیں رہی، کہیں سے نہیں لگ رہا کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا ہم احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لیڈر کو جیل میں رکھا گیا ہے۔ اب ہم نے تحریک سڑکوں پر چلانی ہے اور اس کو ہم حاصل کر کے رہیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ آئین کے تحت حاصل اختیارات احتجاج میں خم ٹھوک کر استعمال کروں گا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب عدلیہ سے کوئی امید نہیں ہے۔ ہمارے پاس آئینی راستہ موجود ہے اور وہ احتجاج کا راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا حق حاصل کرنے کے لیے تحریک کی طرف جائیں گے اور آئین کے تحت حاصل اختیارات احتجاج میں خم ٹھوک کر استعمال کروں گا۔ بجٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میری بانی پی ٹی آئی عمران خان سے تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔ ہمارا بجٹ آنے والا ہے۔ اور اس حوالے سے معاشی ٹیم کی ملاقات بجٹ سے پہلے کرائیں گے۔ اور اگر ملاقات نہیں کرائی گئی تو پھر لائحہ عمل طے کریں گے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے فنڈز انسانی فلاح پر لگانے کا حکم دیا ہے. ہم نے ویلفئیر پر کام کرنا ہے۔ اور جو علاقے پیچھے رہ گئے ہیں ان کو اوپر لانا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہی ڈرامے بازی، پراسیکیوٹر کہہ رہا تھا کہ رات پتا چلا ہے کہ پیشی ہے۔ پراسیکیوشن تاخیر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اب آزاد نہیں رہی، کہیں سے نہیں لگ رہا کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا ہم احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے لیڈر کو جیل میں رکھا گیا ہے۔ اب ہم نے تحریک سڑکوں پر چلانی ہے اور اس کو ہم حاصل کر کے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آئین کے تحت حاصل اختیارات احتجاج میں خم ٹھوک کر استعمال کروں گا، علی امین گنڈاپور
  • اگلی جنگ ہوئی تو ٹرمپ کو رکوانے کا وقت نہیں مل پائے گا، بلاول 
  • عمران خان کی رہائی سے متعلق علی امین گنڈاپورکی جانب سے اہم خبر
  • پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کی صفِ اوّل میں کھڑا ہے: شیری رحمٰن
  • بھارتی ’’نیو  نارمل‘‘ بالادستی کا دعویٰ دفن، ہمیں ہر محاذ پر کامیابی ملی: اسحاق ڈار
  • اگر وہ خود کو پیٹرن انچیف کہہ رہے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض
  • وزیراعظم کی ایم کیو ایم وفد کو کے فور منصوبے، کراچی ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
  • اسلام آباد، دیامر ڈیم متاثرین کے مسائل کے حل کیلئے اعلیٰ سطح کا اجلاس
  • ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی نہیں، اسٹیبلشمنٹ کو ہماری ضرورت ،جیل سے خود احتجاجی تحریک کی سربراہی کروں گا، عمران خان
  • جیت کے بعدکامرحلہ