WE News:
2025-09-18@21:32:15 GMT

جنگ کیا مسائل کا حل دے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

یکم ستمبر 1939 کو جرمن فوج پولینڈ میں داخل ہوئی اور اسی دن اس جنگ کا آغاز ہوگیا جسے ہم دوسری جنگِ عظیم کے نام سے جانتے ہیں اور جس میں 61 ممالک نے حصّہ لیا (کل دُنیا کی %80) جبکہ یہ جنگ 40 ملکوں کی زمین پر لڑی گئی۔ جنگ کی تباہ کاری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف روس کے 70 ہزار گاؤں اور 32 ہزار کارخانے راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے۔ 6 سال بعد یہ جنگ اختتام کو پہنچی تو ہیروشیما سے برلن اور لندن سے سٹالن گراڈ تک موت ہی موت تھی۔

جنگ شروع کرنے والے اٹلی کےمسولینی کو اپنے ہی عوام نے 28 اپریل 1945 کو اٹلی میں مار دیا جبکہ 2 دن بعد یعنی 30 اپریل کو اس کے ساتھی جرمنی کے ہٹلر نے بھی خودکشی کر لی لیکن تب تک 5 کروڑ افراد مارے جا چکے تھے۔ دُنیا کے ایک بڑے حصّے خصوصًا یورپ سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور سوگواروں کی تعداد لاشوں سےبھی کم رہ گئی تھی۔

22ستمبر 1980 کو ایران عراق جنگ شروع ہوئی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ایک قرارداد (598) پاس کی اور جنگ بند کرائی تو ایران کے حصّے میں 5 لاکھ جبکہ عراق کو 3 لاکھ 75  ہزار لاشوں کا حصّہ ملا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران دُنیا میں تنہا ہوگیا جبکہ صدام حسین اور عراق کا انجام آپ کے سامنے ہے۔

24دسمبر 1979 کو روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی۔ جب 10 سال بعد اس کی شکست کھائی فوجیں اپنے ملک لوٹ رہی تھیں تو نہ صرف وسیع و عریض روس کئی حصّوں میں بٹ چکا تھا بلکہ 14 لاکھ افغانوں کی لاشوں کو گدھ نوچ چکے تھے جبکہ شدید خانہ جنگی اور طویل مہاجرت الگ سے اس جنگ کے میراث ہیں۔

1965 میں امریکا نے اپنے دستے ویتنام میں اُتارے تو 6 سال سے جاری جنگ میں مزید شدّت آگئی بالآخر 10 سال بعد 1975 میں جنگ اختتام کو پہنچی لیکن تب تک 15 لاکھ کے قریب ویتنامی مار دیے گئے تھے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بھی اس جنگ سے 3 لاکھ لاشیں وصول کر چکے تھے۔

اس طویل تمہید کو باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگ کسی قوم کی جھولی میں اگر کوئی تحفہ ڈالتی ہے تو وہ صرف لاشیں، بربادی، غربت، مسائل اور تنہائی ہی ہوتے ہیں جو بہت دور تک اور دیر تک پیچھا کرتے ہیں۔

اس لیے اگر ہم ملک کو درپیش خطرناک صورتحال (جنگ کے منڈلاتے بادل) کے پیش نظر بعض حقائق کے ادراک کی طرف مڑیں تو وہ یقیناً ہمیں تدّبر، بصیرت اور احتیاط کے راستے پر ڈال سکتی ہے جو اس ملک کی بقا اور استحکام کی ضامن ہوگی۔

اگر ہم شیخ رشید ٹائپ کی ‘چھوڑُو پریس کانفرنسز’ اور سوشل میڈیا کے نوزائیدہ مجاہدین کی حقائق سے ماورا باتوں کو پس پشت ڈال دیں تو کچھ تلخ حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں۔ مثلاً ہم اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ہیں، ساتھ ہی ساتھ دُنیا کے بیشتر ممالک کو ہمارے بعض معاملات پر تحفظات ہیں۔

اس کے علاوہ ہندوستان کے پاس سوا ارب آبادی کی وجہ سے دُنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے، جبکہ پاکستان اس سلسلے میں 11 ویں نمبر پر ہے۔ انڈیا کا دفاعی بجٹ 58 کھرب سے زائد ہے جو امریکا، روس، چین اور سعودی عرب کے بعد پانچواں بڑا دفاعی بجٹ ہے۔ جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10 کھرب سے بھی کم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ہمارا دشمن دُنیا کی 7ویں بڑی معیشت ہے اور اس کا جی ڈی پی 2200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری بعض نادانیوں کی وجہ سے ہمارا دشمن سفارتی محاذ پر اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔

لیکن ان تمام تر تحفظات کے باوجود بھی ایسا ہرگز نہیں کہ ہندوستان چڑھ دوڑے گا اور ہمیں (خدانخوستہ) ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ یہ ملک نیپال ہے نہ ہماری فوج جواب دینے کی طاقت سے محروم!

تاہم دانشمندی اور تدّبر سے کام لینا ہی بہتر ہے جو نہ صرف ہمارے حق میں اچھا ہے بلکہ ہندوستان کی بقا بھی اس سے وابستہ ہے اور ہاں! حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا بلکہ سنجیدگی اور تدبر کا دامن بھی تھامنا ہوگا تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں ہلکی سی دراڑ بھی دکھائی نہ دے۔ ساتھ ساتھ ان لفنگوں کو شٹ اپ کال دینی ہوگی جو حقائق سے بے خبر اپنی سیاست چمکانے میں مگن ہیں (بلکہ ہوسکے تو ان کے ہاتھ میں موجود مائیک ان کے منہ میں گھسیڑ دیا جائے) تا کہ قوم یکسوئی کے ساتھ جنگ ٹالنے اور دانشمندی اپنانے کے سفر میں تیزی لا سکے۔

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسائل کا حل دے گی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

حماد حسن

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے ساتھ اور اس

پڑھیں:

میئر کراچی کی گھن گرج!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-2

 

کراچی آج جس صورتحال سے دوچار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ملک کے اقتصادی پہیے کو رواں دواں رکھنے والے اس شہر کے مسائل و مشکلات کو مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجے میں روشنیوں کا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹرانسپورٹ کے نظام کی زبوں حالی و بربادی، سڑکوں کی خستہ حالی، واٹر ٹینکرز اور ڈمپرز سے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، سیوریج کے نظام کی خرابی، کچرا کنڈیوں سے اٹھتے ہوئے تعفن کے بھبکے، بے ہنگم ٹریفک، پانی کا مصنوعی بحران، جابجا کھلے مین ہول، اربن فلڈنگ، سیوریج لائن کا پانی کی لائنوں سے ملاپ، برساتی نالوں کی عدم صفائی، تجاوزات کی بھرمار، فٹ پاتھوں پر پتھارے داروں کا قبضہ اور صفائی ستھرائی کی مخدوش صورتحال شہر کے اختیارات پر قابض میئر کراچی کی اعلیٰ کارکردگی کا مظہر ہیں، یہ اعلیٰ کارکردگی اس وقت اور مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب شہر میں بارش کی چند بوندیں برس جائیں۔ قومی خزانے سے شہر میں جہاں جہاں تعمیر و ترقی کے کام ہورہے ہیں اس کا حال بھی یہ ہے وہ بارش کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے ہیں جس کی واضح مثال شاہراہ بھٹو اور نئی حب کینال ہے۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود آج بھی شہر کی مختلف سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہے۔ شہر کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر جماعت ِ اسلامی طویل عرصے سے آواز اٹھا رہی ہے، حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی جماعت اسلامی نے بھر پور آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت کراچی کو ہنگامی طور 500 ارب روپے اور صوبائی حکومت ہر ٹائون کو 2 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دے۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور سالڈ ویسٹ کے اختیارات ٹائون کو منتقل کیے جائیں۔ جماعت ِ اسلامی کے ان مطالبات اور تنقید پر غور کرنے کے بجائے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سیخ پا ہیں کہتے ہیں کہ شہر میں سیوریج کے نظام کی خرابی کی ذمے دار جماعت اسلامی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 2003 میں شہر کا ماسٹر پلان ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، شہر کی پوری سڑکوں کو کمرشل کرنے کی اجازت جماعت اسلامی نے دی تھی، اب اس شہر میں منافقت نہیں چلنے دوں گا اور ان کو سخت الفاظ میں جواب دوں گا۔ لیجیے بات ہی ختم۔ کسی بھی سطح پر اقتدار کے منصب پر فائز افراد کا یہی وہ طرز عمل ہے جس نے تعمیر و ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے، خیر سگالی پر مبنی تنقید پر مثبت طرز عمل کو بالائے طاق رکھ کر جب اسے انا کا مسئلہ بنادیا جائے تو اسی طرح منافقت کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں اور ترکی بہ ترکی جواب دینے جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بارشوں سے اتنی تباہی نہیں ہوئی جتنی بدانتظامی، نااہلی اور بدعنوانی سے ہوئی ہے، کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا میڈیٹ جماعت ِ اسلامی کے حوالے کیا تھا مگر اس میڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس ڈاکے کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔ میئر کراچی کو آپے سے باہر ہونے اور الزامات عاید کرنے کے بجائے شہر کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانیاں صرف کرنی چاہییں۔ کراچی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کراچی کے شہری روز جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور شہر عملاً جس صورتحال سے دوچار ہے اس پر لفظوں کی گھن گرج اور منافقت کے الزامات سے پردہ نہیں ڈلا جا سکتا۔ شہر کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے محض بلند و بانگ دعوؤں سے کراچی کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں عمل کے میزان میں دعوؤں کا کوئی وزن نہیں ہوتا، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے اور بحیثیت میئر انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
  • اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں حرمین شریفین کے دفاع کی سعادت دی ہے: طاہر اشرفی
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • ملالہ یوسف زئی کا ادارہ تعلیم و آگاہی کیلئے 2 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • مغربی یورپ سے ہمیں چیلنج درپیش ہے، قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہاء کر دیا ہے، نیتن یاہو