Islam Times:
2025-09-18@22:59:12 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(1)

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

پاکستان میں تشیع کی سیاسی جدوجہد اور قیادتیں(1)

اسلام ٹائمز: قیام پاکستان سے لیکر مفتی جعفر حسین قبلہ کے انتخاب تک ملت جعفریہ کسی مرکزیت یا اجتماعی نظم میں جڑی دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں مختلف مسائل اور ایشوز پر تحریکیں ضرور چلی ہیں اور کچھ اقدامات جنکا ہم نے ذکر بھی کیا، وہ سرانجام پاتے رہے ہیں۔ ان میں ختم نبوت موومنٹ میں بھرپور شرکت، جلسوں میں خطابات، علماء کے بائیس متفقہ نکات، شیعہ دینیات کے حوالے سے تحریک اور عزاداری کے مسائل میں موثر شخصیات کا کردار دکھائی دیتا ہے، جبکہ ملت کے اجتماعی دینی و سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل، نظم، توسیع یا ادارہ جاتی (مدارس، اسکولز، اسپتال) ترقی و پیشرفت نا ہونے کے برابر ہے۔ مدارس میں چند ایک نام ہیں، جو تاسیس ہوئے، مگر ان میں طالب علموں کی تعداد دیگر مکاتیب فکر کی بہ نسبت ویسی ہی ہے، جیسی آج کے دور میں ہے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان میں قومی و ملی سطح پر ملی و قومی اجتماعی پلیٹ فارمز کی اپنی تاریخ ہے، جو کسی بھی سطح پر مرتب شکل میں دستیاب نہیں۔ یہ تاریخ بہت سے لوگوں کیلئے دلچسپی سے خالی نہیں، جبکہ موجودہ نسل اور آیندہ نسلوں کیلئے اس تاریخ سے آشنائی بھی بے حد ضروری بلکہ لازم ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کیلئے جو قومی، ملی اور اجتماعی پلیٹ فارمز پر کسی بھی سطح پر جدوجہد سے منسلک ہوتے ہیں، انہیں اس تاریخ سے مکمل آگاہی و آشنائی ہونی چاہیئے۔ قومی و ملی اجتماعی پلیٹ فارمز کو دیکھا جائے تو ان میں کافی نام شامل کیے جا سکتے ہیں۔ کم از کم وہ پلیٹ فارمز جو کچھ نا کچھ حد تک قوم و ملت کے بڑے طبقہ کو متاثر کرتے آرہے ہیں اور ان سے منسلک افراد کی ایک بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم برصغیر یعنی مشترکہ ہندوستان کو دیکھیں تو اس وقت جب 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، جس کے پہلے سربراہ سر آغا خان سوئم تھے، جو کہ شش امامی شیعہ تھے۔

مسلم لیگ کے قیام سے قبل بھی اس خطے میں کچھ انجمنیں اور جماعتیں مسلمانوں کیلئے کام کر رہی تھیں، جسٹس امیر علی کا نام بھی ان برجستہ، چنیدہ افراد میں ہوتا ہے، جو مسلم لیگ کے قیام سے قبل کچھ فعالیت اور سوچ و فکر رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ مسلم لیگ کی اس مرکزی قیادت میں بھی شامل تھے، جو اول روز سے ہم آہنگ تھی، جبکہ جسٹس امیر علی نے 1870ء میں ہی نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن قائم کر دی تھی۔ جب اس کی شاخیں ملک کے دیگر حصوں میں قائم ہوگئیں تو اس کا نام سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن رکھ دیا۔ آپ اس کے پچیس سال سیکرٹری رہے جبکہ صدر نواب امیر علی تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے نو سال قبل یہ تنظیم تشکیل دی، اس سے آپ کی دوراندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس ایسوسی ایشن کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔ اس کی ملک بھر میں 36 سے زائد اضلاع میں شاخیں قائم ہوئی تھیں۔ جب 1906ء میں کل ہند مسلم لیگ قائم ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت اس میں ضم کر دی۔ آپ نے مسلم لیگ کی جماعت کی شاخ انگلستان میں قائم کی۔ سید امیر علی 1910-1911ء کے لیے کل ہند مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ لکھنئو میں 1907ء میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں آل انڈیا شیعہ کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی، اس کے تحت ایک مجلہ سرفراز بھی چھپتا تھا، جس میں پارٹی کی خبریں، موقف اور رپورٹس چھپتی تھیں، البتہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی آل پاکستان شیعہ کانفرنس کے نام سے پلیٹ فارم سامنے آیا، جس کی سربراہی راجہ غضنفر علی خان کر رہے تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آل پاکستان شیعہ کانفرنس پہلی شیعہ قومی جماعت یا پلیٹ فارم تھا، اس کے بعد ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کا نام آتا ہے، جس کی سربراہی علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ کے پاس تھی، جبکہ ان کے ساتھ نائب صدر کے طور معروف خطیب و عالم دین جناب حافظ کفایت حسین تھے۔ حافظ کفایت حسین کی ختم نبوت موومنٹ میں بھی بہت زیادہ خدمات ہیں، جو تسلیم شدہ حقیقت ہیں۔

ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان میں فعال علماء نے قیام پاکستان کے بعد دیگر مکاتیب فکر کے علماء کیساتھ مل کر تاریخی معروف بائیس نکات مرتب کرکے منظور کیے، جو پاکستان میں شیعہ سنی و دیگر مکاتیب فکر کے اتحاد کے حوالے سے تاریخ ساز دستاویز ہے۔ انہی بائیس نکات کی روشنی میں بعد ازاں دیگر کئی اتحاد و وحدت کے پلیٹ فارمز سامنے آئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کیساتھ بہت سی معروف شیعہ شخصیات فعال کردار ادا کرنے والوں میں تھیں، البتہ قائد اعظم محمد علی جناح چونکہ قیام پاکستان کے بعد بہت جلد دار فانی سے کوچ کر گئے تو ان کی بلند سوچ، فکر، کردار اور نظریات کو بھی دفن کر دیا گیا اور ملک پر ڈکٹیٹر شپ نے قبضہ کر لیا۔ اسی دوران 1963ء میں خیر پور سندھ کے علاقے ٹھیڑی میں ایک سانحہ رونما ہوا، جس میں بڑی تعداد میں اہل تشیع کو بے دردی سے شہیدکر دیا گیا۔

اس سانحہ کی بنیاد پر کراچی کے عالم دین سید محمد دہلوی نے ایک پلیٹ فارم بنایا، جس کا نام مجلس عمل علماء شیعہ پاکستان تھا۔ اس پلیٹ فارم کے تحت ہی کراچی میں ملک گیر علماء کا اجتماع منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع نے علامہ سید محمد دہلوی کو قائد کے طور پر قبول کیا اور انہیں پہلی بار قائد ملت کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ پہلے قائد علامہ سید محمد دہلوی نے ملک کے دیگر اہم شہروں کے دورہ جات شروع کیے، اس وقت تک شیعہ دینیات کا ایشو سامنے آچکا تھا۔ شیعہ دینیات کا ایشو ایک اہم مسئلہ تھا، جس پر قوم نے اس وقت کے حالات، امکانات اور صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ایک تحریک چلائی، اس مسئلہ پر بعد ازاں بھٹو دور میں دھرنا بھی دیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان میں دھرنوں کے سلسلہ کا آغاز بھی اہل تشیع قیادت کی طرف سے ہی ہوا ہے۔ اہل تشیع ہمیشہ حکومتوں کے ظلم و زیادتی اور تعصب کا شکار رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا نیچرل کردار مزاحمتی اور احتجاجی رہتا ہے۔

سید محمد دہلوی کی تحریک مطالبات شیعہ دینیات، جس کی سرپرست جماعت اور پلیٹ فارم مجلس عمل علماء شیعہ پاکستان تھا، مجلس عمل شیعہ علماء پاکستان کے تین مطالبات تھے۔1۔ شیعہ دینیات 2۔ شیعہ اوقاف اور تحفظ عزاداری۔ بعد ازاں اس کے بھی دو حصے ہوگئے تھے، جن میں سے ایک کی قیادت جسٹس جمیل رضوی اور دوسرے کی قیادت جناب مرزا یوسف حسین کر رہے تھے۔ مرزا یوسف حسین کیساتھ علامہ بشیر انصاری فاتح ٹیکسلا بھی تھے، یہ گروہ مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت کے وقت بھی امیدوار قیادت تھا۔ مفتی جعفر حسین قبلہ کا اعلان عظیم عوامی اجتماع بھکر میں ہوا تھا، اس سے قبل گوجرانوالہ میں ایک تنظیمی اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں بھکر اجتماع کے معاملات اور قیادت کے انتخاب کیلئے مشاورت رہی تھی۔ بھکر قومی کنونشن 12 اپریل 1979ء کو ہوا، جس میں ملت کے ہر طبقہ فکر اور علاقوں کی نمائندگی کیساتھ بھرپور عوامی شرکت بھی ہوئی تھی۔

قیام پاکستان سے لیکر مفتی جعفر حسین قبلہ کے انتخاب تک ملت جعفریہ کسی مرکزیت یا اجتماعی نظم میں جڑی دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں مختلف مسائل اور ایشوز پر تحریکیں ضرور چلی ہیں اور کچھ اقدامات جنکا ہم نے ذکر بھی کیا، وہ سرانجام پاتے رہے ہیں۔ ان میں ختم نبوت موومنٹ میں بھرپور شرکت، جلسوں میں خطابات، علماء کے بائیس متفقہ نکات، شیعہ دینیات کے حوالے سے تحریک اور عزاداری کے مسائل میں موثر شخصیات کا کردار دکھائی دیتا ہے، جبکہ ملت کے اجتماعی دینی و سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل، نظم، توسیع یا ادارہ جاتی (مدارس، اسکولز، اسپتال) ترقی و پیش رفت نا ہونے کے برابر ہے۔ مدارس میں چند ایک نام ہیں، جو تاسیس ہوئے، مگر ان میں طالب علموں کی تعداد دیگر مکاتیب فکر کی بہ نسبت ویسی ہی ہے، جیسی آج کے دور میں ہے۔

یہ تناسب ایسا ہے کہ ہمارے پاکستان بھر کے دینی طالبعلموں کی تعداد ان کے کسی بھی بڑے دینی مدرسہ کی تعداد کے برابر ہوسکتی ہے۔ یوں ہماری قوم پاکستان میں اس جانب اپنا سفر ہی شروع نہیں کرسکی، جس پر دیگر مکاتیب فکر پاکستان کے قیام سے قبل سے اپنے مدارس کے نیٹ ورک سے کرچکے تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ مقابل فریق اور دیگر مکاتیب فکر نے مدارس کے ذریعے خود کو مضبوط کیا، مدارس (بالخصوص دیوبندی و وہابی فکر کے حامل) کو جنرل ضیاء نے جتنا مضبوط و طاقتور بنایا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ اس کے اثرات سے کیسے پاکستان کی فضا امن و سلامتی اور عافیت سے زندگی گزارنے والے بھائیوں میں نفرت، تعصب اور شدت پسندی حتیٰ دہشت پسندی جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مفتی جعفر حسین قبلہ شیعہ پاکستان قیام پاکستان شیعہ دینیات پاکستان میں پاکستان کے پلیٹ فارمز کے قیام سے پلیٹ فارم مسلم لیگ امیر علی کی تعداد رہے ہیں کا نام ملت کے کے بعد

پڑھیں:

مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔

گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔

اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔

اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔

سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔

الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔

تنخواہوں کی حد

ڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔

بنیادی سطح پر تبدیلی

گلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔

‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیں

ڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘

خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتی

جسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔

خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازی

خواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔

یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔

ادارت: عدنان اسحاق

متعلقہ مضامین

  • بھارت کرکٹ فیلڈ کو دوبارہ سیاسی اکھاڑہ نہ بنائے، پاکستان کا مطالبہ
  • سندھ حکومت ہزاروں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ جاری نہ کرسکی، مدت میں مزید توسیع نہ کرنیکا فیصلہ، شہریوں کو تشویش
  • شیعہ تنظیموں کیجانب سے خیبر پختونخوا کے متاثرین سیلاب کیلئے امدادی سامان
  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان ٹی وی ڈیجیٹل اور انگریزی چینل کا افتتاح کر دیا
  • پاکستان ٹی وی کی لانچنگ، وزیراعظم شہباز شریف نے افتتاح کردیا
  • مشرق ڈیجیٹل بینک کا قیام پاکستان میں کیش لیس کاروبار اور مالیاتی شعبے کی ترقی و فروغ میں سنگ میل ثابت ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف کا مشرق ڈیجیٹل ریٹیل بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب
  • مشرق ڈیجیٹل بینک کا قیام پاکستان میں کیش لیس کاروبار اورمالیاتی شعبے کی ترقی و فروغ میں سنگ میل ثابت ہوگا، وزیراعظم شہبازشریف کا مشرق ڈیجیٹل ریٹیل بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب
  • قائد پاکستان مسلم لیگ نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ