امریکی حکومت کو اعتماد کے عالمی بحران کا سامنا ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
امریکی حکومت کو اعتماد کے عالمی بحران کا سامنا ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 29 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :رواں سال فروری اور اپریل میں چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این نے دنیا بھر کے 38 ممالک کے 15 ہزار 947 جواب دہندگان کےلئے دو سروے جاری کیے، جن کے مطابق نئی امریکی حکومت کو اعتماد کے سنگین عالمی بحران کا سامنا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 48.
ان میں سے 60.4 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکا کی اندرونی معاشی پالیسیاں نہ صرف افراط زر پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں بلکہ ان کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 47.5 فیصد جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ امریکہ “غلط سمت” میں جا رہا ہے۔ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، آسٹریلیا اور بہت سے دیگر ممالک میں جواب دہندگان امریکہ سے تعلقات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں. 65.5 فیصد آسٹریلوی جواب دہندگان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے مستقبل کے بارے میں ناامید ہیں۔ فرانس، جرمنی، کینیڈا، جاپان اور جنوبی کوریا میں 70 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ترقی کے بارے میں ناامید ہیں۔
جواب دہندگان کا عام خیال ہے کہ “امریکہ فرسٹ” فلسفہ امریکہ کو اپنے روایتی اتحادیوں سے زیادہ نظر انداز کر دے گا۔سروے میں شامل گلوبل ساؤتھ کے 23 ممالک میں سے 19 ممالک امریکہ سے متعلق تعلقات کے بارے میں مایوس تھے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم کا ڈیجیٹل انقلاب کا اعلان: 70 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری، نوجوانوں کیلئے آئی ٹی اور اے آئی کی نئی راہیں کھل گئیں چینی صدر کا برکس ممالک کے نیو ڈیولپمنٹ بینک کا دورہ ٹیرف اور تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارت خارجہ چینی صدر کی شمالی چین کے لیاؤیانگ شہر میں آتشزدگی کے حادثے پر اہم ہدایات عالمی اثر و رسوخ کے حامل سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی نئی ہائی لینڈ کی تعمیر کو تیز تر کیا جائے، چینی صدر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا چین کے اقتصادی “انجن” کے کردار پر بھرپور اعتماد چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد میں تبدیلی نہیں آئی، چینی وزیر خارجہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
سرکاری جامعات کا تعلیمی،انتظامی اور مالیاتی بحران
سرکاری یونیورسٹیاں تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ سابق حکومت کے دور سے شروع ہونے والا بحران تاحال ختم جاری ہے۔ جب سے موجودہ وفاقی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، وہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔حکومت نے مختلف وزارتوں کی تنظیمِ نو کر کے کئی ہزار آسامیاں ختم کی ہیں مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ اور افسران کے اخراجات میں کمی نظر نہیں آرہی ۔ روزنامہ ایکسپریس کی 27 مئی کی رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ ای سی نے سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ز اور رکیٹرزکو جون کے آخری ہفتے میں رباط (مراکش) میں ہونے والی کانفرنس میں بھجوانے کے لیے خطوط جاری کیے ہیں۔
سرکلر میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلرز اپنی یونیورسٹی کے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے کانفرنس میں شرکت کریں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت وفاق کے زیرِ انتظام یونیورسٹیوں کو فنڈز دیتی ہے۔ حکومت سندھ ہر سال کئی بلین کی گرانٹ سندھ کی یونیورسٹیز کو دیتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب سندھ کی کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کسی غیر ملکی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہو تو وہ حکومت سندھ کو اطلاع دیتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے بورڈز اور یونیورسٹیز کے محکمہ کے سیکریٹری ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وائس چانسلرکو کسی غیر ملک میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے این او سی جاری کرتے ہیں۔ این او سی میں یہ بات واضح طور پر تحریرکی جاتی ہے کہ دورہ کے اخراجات کے لیے حکومت سندھ یا متعلقہ یونیورسٹی کے فنڈز استعمال نہیں ہوںگے۔
حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقائق سامنے آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور سے وفاقی بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے مختص رقوم میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی جاری رہا اور اب موجودہ حکومت کے دور میں فنڈز میں 40 فیصد تک کمی کردی گئی ہے۔ اس وقت ملک کی بیشتر یونیورسٹیاں شدید انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ وفاق کے زیرِ نگرانی قائم یونیورسٹیوں کے حالات کار بہت زیادہ خراب ہیں۔
صرف ایک وفاقی اردو یونیورسٹی کے بحران کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی ایک خصوصی قانون کے ذریعے قائم ہوئی۔ یہ قانون ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن امریکا سے لائے تھے۔ اس نئے قانون کی بناء پر یونیورسٹی مسلسل مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ اس قانون میں ایسی شقیں بھی شامل ہیں جن پر پاکستان کے مخصوص حالات کے مدنظر عملدرآمد ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب تک 2 درجن کے قریب وائس چانسلر یونیورسٹی میں آئے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی رخصت کردیے گئے۔
ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو یونیورسٹی کے پاس 67 کروڑ روپے سے زیادہ رقم پنشن ڈپازٹ میں موجود ہے جس کے سالانہ منافع کا اندازہ لگایا جائے تو یہ کروڑوں میں ہوگا مگر 2017سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور عمال جن کی مکمل تعداد سو سے زیادہ ہے کو واجبات نہیں ملے۔
اساتذہ اور عمال کے کل واجبات 20 کروڑ کے قریب ہیں۔ اساتذہ نے یونیورسٹی کے مختلف بینکوں میں موجود ڈپازٹ کے بارے میں معلوم کیا تو انتظامیہ نے اس رقم کی موجودگی سے انکارکیا مگر جب اساتذہ نے وفاقی محتسب کی عدالت میں یہ مدعا رکھا اور وفاق کے انفارمیشن کمیشن کی مدد حاصل کی تو انکشاف ہوا کہ 67 کروڑ روپے سے زائد مختلف بینکوں میں موجود ہیں مگر اس رقم کو پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
ریٹائرڈ اساتذہ کو پانچ ماہ سے پنشن نہیں ملی۔ یونیورسٹی کے اساتذہ و عمال کی 3ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی ، گزشتہ 11 ماہ سے رینٹل سیلنگ ادا نہیں کی جاسکی۔ طبی سہولتیں مکمل طور پر بند ہیں۔ اس پورے سال میں 9 ریٹائرڈ اساتذہ انتقال کرچکے ہیں اور غیر تدریسی عملہ کے 5افراد کا انتقال ہوچکا ہے۔ معاملہ صرف تنخواہوں اور پنشن کی عدم ادائیگی کا نہیں ہے بلکہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی کئی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کی نہیں ہے بلکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی بھی مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔
یہ معاملہ وفاق کی یونیورسٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ سال میں کئی دفعہ اساتذہ اور عمال کو تنخواہوں اور ریٹائرڈ اساتذہ اور عمال کو پنشن ادا نہیں کر پاتی۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں کا مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر ریاض شیخ نے لکھا ہے کہ ایچ ای سی ہر کچھ عرصے بعد نئی ہدایات جاری کرتا رہتا ہے اور تازہ ترین ہدایت یہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کسی کانفرنس کے انعقاد سے قبل اس کے موضوع کے لیے انتظامیہ سے منظور کرائیں گے اور صرف منظور شدہ موضوعات پر ہی کانفرنس و سیمینارکرانے کی اجازت ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایچ ای سی نے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے سوشل سائنسزکے پروگرامز میں مزید مذہبی مضامین شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے کی نتیجے میں سماجی علوم میں تحقیق کا دائرہ مزید محدود ہوجائے گا ۔
منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر ڈاکٹر احسن اقبال نے گزشتہ سال ایچ ای سی کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا بڑا ادارہ ایچ ای سی کی قیادت جدید تقاضوں کے وژن سے محروم ہے اور ایچ ای سی کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد ضایع ہوگئی ہے۔
حالیہ دنوں میں ایچ ای سی کے اعلیٰ افسران کے آپس جھگڑوں اور ایک افسرکو برطرف کرنے کی خبریں ذرایع ابلاغ پر نشر ہوئیں۔ بہرحال سرکاری یونیورسٹیوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا جائے جو ایچ ای سی کے معاملات کی تحقیقات کرے۔ اسی طرح بے جا اخراجات کے ذمے دار افسروں کا احتساب بھی ضروری ہے۔