پاکستان میں رواں ہفتے گرمی کا عالمی ریکارڈ بن سکتا ہے: امریکی اخبار نے خبردار کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکی اخبار نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں رواں ہفتے گرمی کا عالمی ریکارڈ بن سکتا ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے جنوبی ایشیا میں گرمی 50 ڈگری کے عالمی ریکارڈ کو چھو سکتی ہے۔
امریکی اخبار نے خبر دار کیا کہ پاکستان کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری تک جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے پاکستان کے شہر نواب شاہ میں 2018 کے اپریل میں پارہ 50 ڈگری تک گیا تھا جو ایشیا بھر میں گرمی کا ریکارڈ تھا۔
دوسری جانب پنجاب میں آج سے آندھی اور بارشوں کا الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں بھارتی ویب سائٹس بلاک کردی گئی ہیں: فیصل واوڈا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
امریکی معیشت کے گلے کا پھندا
اسلام ٹائمز: امریکی معیشت ایک سنگین بحران کے دہانے پر ہے، آبنائے ہرمز میں کوئی بھی کشیدگی امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے، امریکہ کے بین الاقوامی حریف پہلے ہی اس صورتحال انتظار کر رہے ہیں۔ ایران تیل کی قیمت میں 10 سے 15 ڈالر تک اضافے کا جھٹکا لگا کر تیل کی سپلائی مارکیٹ میں خلل ڈال سکتا ہے۔ یوں امریکیوں کے لیے ایران آسان ہدف نہیں ہے اور ایران کے مقابلے پر آنیوالوں کو کئی ایشوز کو مدنظر رکھنا پڑیگا۔ محمود کریمی کی خصوصی رپورٹ:
ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سائے میں آبنائے ہرمز میں جنگ کے خدشات اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ بحران امریکہ میں پٹرول کی قیمت کو 5 ڈالر فی گیلن تک پہنچا سکتا ہے اور یہ بحران امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز تیل کی عالمی تجارت تقریباً 30 فیصد کے لیے تزویراتی راستہ ہے، یہاں ہونیوالے فوجی تصادم سے امریکہ میں تیل اور پٹرول کی قیمتیں شدید متاثر ہوں گی۔ اب بھی کچھ امریکی ریاستوں میں پٹرول تقریباً 5 ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کا مطلب امریکی گھرانوں پر براہ راست مالی دباؤ ہے۔ یہ دباؤ جو عوامی بے چینی اور حکومت کے لیے سنگین سیاسی چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ افراط زر اس بحران کے براہ راست نتائج میں سے ایک ہے۔ نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ قدرتی طور پر سازوسامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ فیڈرل ریزرو کے مطابق خوراک کی قیمت میں 15 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ صرتحال لوگوں کی قوت خرید میں کمی کے ساتھ، نجی کھپت کو متاثر کرے گی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ امریکی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.5 فیصد تک گر سکتی ہے جو معاشی کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کم آمدنی والے گھرانوں پر اضافی دباؤ ڈالیں گے۔ مثال کے طور پر اگر ایندھن کی لاگت میں 30% اضافہ ہوتا ہے تو ماہانہ 3000 ڈالر کمانے والا خاندان ایندھن کے لیے 450 ڈالر مزید ادا کر یگا۔ یہ صورتحال لوگوں طرز زندگی میں تبدیلی اور غیر ضروری سفر کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ الیکٹرک کاروں کی فروخت میں بھی 25 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ کاروباری اداروں پر بھی نمایاں طور پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ مقامی ریستورانوں اور اسٹورز کو گاہکوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان میں سے بہت سے دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں سماجی عدم استحکام اور عوامی عدم اطمینان کا امکان زیادہ ہو جائیگا۔
اس جنگ کے بین الاقوامی اثرات عالمی سپلائی چین میں خلل اور اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت جب امریکی سرکاری قرض 36 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، امریکی حکومت اپنی معیشت پر مزید دباؤ ڈالے بغیر جنگ کی مالی اعانت کرنے سے قاصر ہے۔ اسرائیل کی مالی معاونت کی صورت میں زیادہ اخراجات، ٹیکسوں میں اضافے، عوامی خدمات جیسے تعلیم اور صحت میں کٹوتیوں کا امکان عوامی بے چینی کو بڑھا سکتا ہے۔ اس بحران کیوجہ سے امریکہ کو مزید سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں اور معاشی نمو میں کمی "جمود" کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ صورتحال امریکی معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے پر مزید دباؤ ڈالے گی اور شرح سود میں اضافے کا باعث بنے گی، کیونکہ عام آدمی کے لئے یہ ایک غیر اعلانیہ ٹیکس ہوگا۔ اس کے علاوہ، حالیہ چین امریکہ تجارتی جنگ کا تجربہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معاشی دباؤ امریکی حکام کے اس جنگ میں نہ آنے کے فیصلوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ریپبلکن پارٹی کے اندر بھی جنگ میں اترنے کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مذکورہ اقتصادی حقائق اور داخلی دباؤ امریکی فیصلہ سازوں کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے اور مغربی ایشیا میں ایک اور جنگ میں داخل ہونے سے روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
پہلے ہی امریکی معیشت ایک سنگین بحران کے دہانے پر ہے، آبنائے ہرمز میں کوئی بھی کشیدگی امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے، امریکہ کے بین الاقوامی حریف پہلے ہی اس صورتحال انتظار کر رہے ہیں۔ ایران تیل کی قیمت میں 10 سے 15 ڈالر تک اضافے کا جھٹکا لگا کر تیل کی سپلائی مارکیٹ میں خلل ڈال سکتا ہے۔ یوں امریکیوں کے لیے ایران آسان ہدف نہیں ہے اور ایران کے مقابلے پر آنیوالوں کو کئی ایشوز کو مدنظر رکھنا پڑیگا۔