ہم ہر جگہ ہیں، ہر وقت تیار ہیں!!
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
سٹی42: ہم ہر جگہ ہیں، ہر وقت تیار ہیں؛ ملٹری کارروائی ان کی چوائس ہو گی، آگے یہ کدھر جاتا ہے یہ بعد میں دیکھیں گے۔
پاکستان آرمی کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے یہ بات اسلام آباد میں وزیر خارجہ اور سکیرٹری خٓرجہ کے ساتھ نیوز بریفنگ کے دوران ایک اہم سوال کے جواب میں کہیں۔
ایک سینئیر صحافی نے سوال کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول، ریگولر بارڈر پر انڈین فوج کی مشقیں کرنے کی اطلاعات آئی ہیں۔ پاکستان کی کس علاقے میں کیا تیاری ہے۔
بس سٹاپس پر پنکھوں، الیکٹرک واٹر کولر کی چوری کو روکنے کا نیا حل
لیفٹیننٹ جنرل احد شریف چوہدری نے بتایا کہ پاک فوج ہر جگہ صورتحال کا ادراک رکھتی ہے، ہم ہر جگہ موجود ہیں اور ہر وقت تیار ہیں۔
کچھ لمحے بعد ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے دہرایا کہ جیسے جنرل احمد شریف نے کہا ہم ہر جگہ ہر وقت ایک بی فِٹنگ جواب دینے کے لئے مکمل تیار ہیں۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس، سوال جواب کا سیشن رکھنے کا فیصلہ
— فائل فوٹوسپریم کورٹ میں ججز تبادلہ و سینیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، کیس کے دوران سوالات و جوابات کا سیشن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے ٹرانسفر کے خلاف 5 ہائی کورٹ ججز کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کو عارضی ٹرانسفر پر کوئی اعتراض نہیں، بتائیں عارضی ٹرانسفر پر سینارٹی کا کیا ہوگا؟ عارضی تبادلے پر بھی جج کی سینارٹی برقرار رہتی ہے، عارضی تبادلے والے جج کی سینیارٹی ساتھ ٹریول نہیں کرتی تو جج اپنے جونیئر جج کا بھی جونیئر ہو جائے گا۔
اسلام آباد عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے اسلام...
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر عارضی تبادلے والے جج کی سینیارٹی ساتھ نہیں رہتی تو کوئی جج تبادلے پر راضی ہی نہیں ہوگا۔
جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ آپ کا اصل اعتراض تو سینیارٹی پر ہے، ٹرانسفر پر تو ہے ہی نہیں۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے منیر اے ملک سے کہا کہ عدلیہ میں مجھے دو دہائیوں سے زیادہ وقت ہوچکا، آپ کو بھی 4 دہائیوں سے زائد کا وقت ہوچکا ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ججز ٹرانسفر سے متعلق آرٹیکل 200 کی شق ایک کو الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا، آرٹیکل 200 کی شق 1 میں رنگ اسی وقت آئے گا جب آرٹیکل 2 اے اور آرٹیکل 175 اے کے تحت دیکھا جائے گا، آرٹیکل 200 کی تشریح آرٹیکل 2 اے اور 175 اے کو سامنے رکھ کر ہی کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی اسامیاں خالی تھیں، آرٹیکل 200 نے صدر کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز تعیناتیاں کرسکیں، طے شدہ ہے کہ جج کی اسامی یا خالی اسامی کےلیے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کےلیے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔
جسٹس محمد علی نے کہا کہ آپ کی دلیل یہ ہے صدرِ مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں، آپ نے کہا کہ مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے۔
جسٹس محمد علی نے کہا کہ آئینی بینچ میں موجود ججز نے مل کر طے کیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، ہم نے طے کیا ہے جب آپ کے دلائل مکمل ہوں گے تو سوالات و جوابات کا ایک سیشن ہوگا، عدالتی کارروائی کے اس سوال و جواب کے سیشن میں آپ جوابات دیجیے گا۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ جی ٹھیک ہے، بھارت میں بلاتفریق ججز کا ٹرانسفر ہونا روٹین ہے۔