چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ ون نے مسلسل آپریشنل رہنے کا ریکارڈ بنادیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلا م آباد(آئی این پی ) چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ ون نے 400 دن تک مسلسل آپریشنل رہنے کا ریکارڈ بنادیا۔
میڈیارپورٹ کے مطابق پاکستان کے توانائی کے شعبے میں ایک اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ-1 (C-1) نے مسلسل 400 دن آپریشنل رہنے کا نیا قومی ریکارڈ قائم کر دیا ۔
پی اے ای سی حکام کے مطابق اس سے قبل چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ 2 اور 4 نے 365 دن کا ریکارڈ بنایا تھا اور اس کامیابی کا سہرا سائنسدانوں، انجینئروں اور ٹیکنیشنز کی ٹیموں کی ذہانت ومحنت کے سر ہے۔یاد رہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 6 ایٹمی بجلی گھر 3530 میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کیخلاف ٹی20 سیریز، کس کس کھلاڑی کوڈراپ کیے جانے کا امکان ہے؟ ممکنہ نام سامنے آگئے
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ (کینوپ) کے 1972 میں قومی گرڈ سے منسلک ہونے کے بعد سے ایک قابل رشک آپریشنل تجربہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
برق گرتی ہے بجٹ کی بیچارے غریبوں پر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں کے الیکٹرک سمیت صارفین تک بجلی سپلائی کرنے والے جتنے ادارے ہیں وہ سب عوام کے اوپر آئے دن بجلی گراتے رہتے ہیں لوڈشیڈنگ کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ شرح بڑھتی رہتی ہے، بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ دسیوں قسم کے ٹیکس اس میں پہلے ہی شامل ہیں اب سننے میں آرہا ہے کہ اس بجٹ میں تیرہ سو ارب روپے کے گردشی قرضے ان سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو ادا کیے جائیں گے جن کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں جبکہ یہ وہ رقم ہے جو یہ ظالم ساہوکار ایک یونٹ بجلی پیدا کیے بغیر حکومت سے وصول کریں گے اور یہ کون لوگ ہیں یہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ ہی ہیں جن کو حکومت نجی بینکوں سے قرض لے کر ان فاقہ زدہ سرمایہ داروں کو ادا کرے گی اور بینک کی یہ رقم سود سمیت پاکستان کے عوام سے ان کے بجلی کے بلوں میں (3.23) تین روپے تیئس پیسے فی یونٹ بڑھا کر وصول کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نجی بینک بھی زیادہ تر ان ہی سرمایہ داروں کے ہیں جن کی آئی پی پیز ہیں بس ایک انٹری پاس کرنا ہوگی جس سے بینک سے رقم ان کے آئی پی پی اکائونٹ میں چلی جائے گی پھر بینک یہ رقم حکومت سے سود سمیت وصول کرے گا اور حکومت یہ رقم بجلی کے بل کے ذریعے ہم سے وصول کرے گی اسی کو کہتے ہیں چت بھی میری پٹ بھی میری ٹئیاں میرے باپ کی۔ یہ غریبوں کا بجٹ کہاں سے ہوگیا یہ تو امیروں کو فائدہ پہنچانے والا بجٹ ہے۔
تنخواہ دار طبقہ تو اور ظلم کی چکی میں پس کر رہ گیا دس فی صد اضافہ کیا گیا جبکہ بیس فی صد مہنگائی پہلے ہی بڑھ چکی ہے اور اب سے دو ماہ بعد اگست کے مہینے میں جب یہ اضافی رقم سرکاری ملازمین کے ہاتھ میں آئے گی تو مہنگائی اور بڑھ چکی ہوگی۔ انکم ٹیکس میں جو ریلیف دیا گیا ہے وہ ریلیف کے نام پر دھوکا ہے آج کی دنیا میں سفارتی زبان کچھ اور ہوتی ہے، سیاسی زبان یا بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے اور حکومت کے وزیر خزانہ کی معاشی زبان کچھ اور ہوتی ہے۔ بجٹ کے حوالے سے ہم اور بات کریں گے لیکن بجلی کے سلسلے کی ایک بات اور مسلم لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا بجلی کے حوالے سے ایک بیان نظر سے گزرا وہ کہہ رہے تھے 201 یونٹ استعمال کرنے والوں کا بل محض ایک یونٹ کے اضافے سے چار گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے یہ صارفین پر بہت بڑا ظلم ہے۔ چلیے دیر آئد درست آید کے مصداق پندرہ بیس برس سے وقفے وقفے سے اقتدار میں رہنے والی ن لیگ کے اہم رہنما کو اب پتا چلا ہے کہ بجلی کمپنیاں عوام پر یہ ظلم کررہی ہے یہ آپ کے دور سے ہورہا ہے۔ فرض کیجیے کسی کا دوسو یونٹ کا بل ہے تو وہ پروٹیکٹڈ صارف ہے اس کا بل 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے 2600 روپے کا ہوگا (جس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں) اسی صارف کا بل دوسرے مہینے 201 یونٹ کا بل آتا ہے تو تو وہ پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹڈ میں آجائے گا اس کا بل 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے 8040 روپے کا آئے گا۔ جبکہ اس میں دیگر ٹیکس شامل نہیں ہیں پھر یہی ظلم نہیں کہ صرف ایک مہینے زیادہ رقم کا بل آگیا مزید ظلم یہ کہ اب اس کو چھے ماہ تک سزا کے طور پر اسی بڑھی ہوئی شرح سے یعنی 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا ہوگا چاہے وہ کسی مہینے سو یونٹ استعمال کرے یا دوسو سے زیادہ وہ صرف تشویش کا اظہار کرکے رہ گئے اس سلسلے میں اپنا آئندہ کا پروگرام نہیں بتایا۔
بجٹ کے حوالے کچھ چیزیں ہم شروع سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جو برسر اقتدار گروپ یا اتحاد اسمبلی میں بجٹ پیش کرتا ہے تو اس کی اپوزیشن ایوان میں شور شرابا اور ہنگامہ کرتی ہے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دی جاتی ہیں۔ جیسے کہ اس دفعہ تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے تو اس نے ایوان میں یہ کام کیا ہے کل جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی تو اور اس کے وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتے تو یہی فریضہ ن لیگ اور پی پی پی والے انجام دیتے تھے۔ سرکاری ایوانوں سے وابستہ ارکان اسمبلی ٹاک شوز میںایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے کہ اس سے اچھا بجٹ پہلے کبھی آیا ہے نہ آئندہ کبھی آئے گا، اور اپوزیشن سے وابستہ ارکان اس کے بالکل الٹ بات کرتے کہ اس سے زیادہ خراب اور عوام دشمن بجٹ پہلے کبھی نہیں آیا اور آئندہ بھی اگر یہی رہے اس سے خراب ہی بجٹ کے آنے کی امید ہے۔ جب ملک میں پری بجٹ اور پوسٹ بجٹ بحث چلتی ہے تو مجھے پتا نہیں کیوں معروف دانشور اور مزاح نگار مشتاق یوسفی کا وہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ’’جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں پہلا جھوٹ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد شمار‘‘ بجٹ تو اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں کا ہی نام ہے۔ اس میں زیادہ تر فی صد میں بات کی جاتی ہے پھر ملین بلین اور ٹریلین کی بات ہوتی جو عام آدمی تو سمجھ ہی نہیں پاتا۔
اس دفعہ مجھے پتا نہیں کیوں ایسا لگا کہ بجٹ کے حوالے سے ہمارے وزیر خزانہ اور دیگر ارکان اسمبلی کے بیانات، تقاریر، پریس کانفرنس اور اخباری مضامین بھارت کے اس گودی میڈیا جیسا ہے کہ بس اب جو جنگ ہوگی وہ پاکستان مٹائو جنگ ہوگی ایک ہی ہلے میں POK بھارت کی گود میں ہوگا اسی طرح ہمارے یہاں قبل از بجٹ ایسی شاندار تصویر کشی کی جارہی تھی جیسے آنے والا بجٹ غربت مٹائو بجٹ ہے اس میں ہم نے سرمایہ داروں کے حلق سے پیسے نکال کر غریبوں کی غربت دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب پاک بھارت جنگ بھارت کی امریکا سے التجا پر رک گئی اور سیز فائر ہوا تو گودی میڈیا کو سکتہ ہوگیا انہیں ایسا لگا کہ جیسے وہ کوئی سہانا خواب دیکھ رہے تھے اور اچانک ان کی آنکھ کھل گئی اب پھٹی پھٹی آنکھوں سے چھتوں کو تک رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح بجٹ آنے کے بعد ایسا لگا کہ حکومت بجٹ کے حوالے سے جو سہانے خواب دیکھ رہی تھی یا عوام کو دکھا رہی تھی آنکھ کھلی تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
بچپن میں مجھے کچھ کچھ یاد ہے بجٹ آنے والا تھا ہمارے بڑے آپس میں بات کرتے ہیں دیکھو بجٹ آنے والا ہے شاید آٹے کی قیمت میں دو یا ایک پیسہ فی سیر کم ہوجائے یہ اس وقت کی بات ہے جب آٹا پونے سات آنے سیر تھا پھر بجٹ کے بعد سوا چھے آنے اور کچھ دن بعد ساڑھ چھے آنے پھر واپس پونے سات آنے فی سیر پر آگیا کہنے کا مطلب یہ کہ پہلے بجٹ میں عوام کچھ چیزیں سستی ہونے کی آس لگائے بیٹھے ہوتے اور اب حال یہ کہ عام آدمی بجٹ آنے سے پہلے خوف کا شکار ہوجاتا کہ کہتا ہے کہ دیکھو مہنگائی کا طوفان آنے والاہے موجودہ بجٹ بھی ایسا ہی کچھ آیا ہے۔ دس سال ہم بھی سرکاری ملازم رہے ہیں ہر سال بجٹ کے موقع پر آپس میں یہی گفتگو ہوتی تھی کہ اس دفعہ تنخواہوں میں 35 فی صد اضافہ ہونے والا ہے لیکن بجٹ آنے پر پتا چلتا کہ صرف دس فی صد اضافہ ہوا دل بجھ کر رہ جاتا۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ بجٹ موجودہ ن لیگی حکمران اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے اور اپنی حکومت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ایک ٹول کے طور استعمال ہوگا۔ اس میں پیپلز پارٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احسن اقبال رنجیدہ ہیں کہ صحت اور تعلیم کی مدات میں بہت زیادہ کٹوتی کی گئی لیکن ایم این ایز کے ترقیاتی فنڈزکی رقم برقرار رکھی گئی ہے کہ ان ہی سے تو بجٹ منظور کروانا ہے اس کے بعد یہ گٹر کے ڈھکن لگانے اور سڑکوں کی تعمیر کا کام کریں گے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشدلانہ اطاعت میں ایسا بجٹ جس میں عوام کے لیے دکھوں اور تکالیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے بھی پیش کیا ہے کہ اسے عوام کے ردعمل کا کوئی خوف نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اسے ووٹ دیں یا نہ دیں ان کا اقتدار کہیں نہیں جاتا اس لیے کہ ملک میں جو قوتیں اقتدار پر اپنی پسند کے لوگوں کی لاتی ہیں موجودہ وزیر اعظم اپنے آپ کو ان کی گڈ بک میں سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ اس بک میں آ نے کی انتھک کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل پارہی۔ ملکی کے سیاسی مستقبل کے لیے یہ بہت خوفناک صورتحال ہوگی کہ لوگ انتخابات سے مایوس ہو جائیں۔