ذات پر مبنی مردم شماری شفاف اور سیاسی مفاد پرستی سے پاک ہو، پروفیسر سلیم انجینئر
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
جماعت کے نائب امیر نے کہا کہ بھارت میں ذات پات کا نظام آج بھی ایک مضبوط سماجی ڈھانچے کی حیثیت رکھتا ہے جو تعلیم، روزگار اور سیاسی نمائندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے بھارت میں ہونے والی قومی مردم شماری میں ذات کے اندراج کو شامل کرنے کے مرکزی کابینہ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ میڈیا کو جاری ایک بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے کہا کہ ہم مرکزی کابینہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں آئندہ قومی مردم شماری میں ذات کی بنیاد پر اعداد و شمار کو شامل کیا جائے گا۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہندوستان میں ذات پات کا نظام آج بھی ایک مضبوط سماجی ڈھانچے کی حیثیت رکھتا ہے جو تعلیم، روزگار اور سیاسی نمائندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری ایک سماجی، قانونی، انتظامی اور اخلاقی ضرورت ہے تاکہ پسماندہ طبقات، دلتوں اور آدیواسیوں کو درپیش تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ مردم شماری درست اعداد و شمار فراہم کرے گی تاکہ مختلف طبقات کے لئے عدل پر مبنی بہتر فلاحی پالیسیز بنائی جاسکیں اور محروم طبقات کی سماجی و معاشی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ماضی میں پارلیمنٹ میں دیے گئے سرکاری بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت شیڈیول کاسٹ (ایس سی) اور شیڈیول ٹرائب (ایس ٹی) سے آگے ذات کی گنتی کے خلاف تھی، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ آخرکار اس نے اس کی افادیت اور ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2011ء کی سماجی، اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کی ناکامی، جو ناقص منصوبہ بندی اور بے عملی کا شکار تھی، اس بات پر متوجہ کرتی ہے کہ مردم شماری کے لئے ایک مؤثر اور مضبوط فریم ورک کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل کو شفاف، مکمل اور سیاسی مفاد پرستی سے پاک ہونا چاہیئے تاکہ پسماندہ طبقات کو صحیح معنوں میں بااختیار بنایا جا سکے اور آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 16 کے تحت دیے گئے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے مزید کہا کہ حکومت کو اس پورے عمل کے لئے ایک واضح اور مقررہ ٹائم لائن جاری کرنی چاہیئے۔ مردم شماری کے لئے مناسب بجٹ مختص کیا جانا چاہیئے، اس مردم شماری کا اصل مقصد سماجی انصاف ہونا چاہیئے نہ کہ سیاسی فائدوں کا حصول۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ذات پر مبنی مردم شماری سماجی تفریق کو بڑھاوا دیتی ہے۔ بھارت کی مردم شماری میں مذہب اور زبان کی بنیاد پر شمار کا کام پہلے سے کیا جا رہا ہے اور 1951ء سے ایس سی/ایس ٹی کی گنتی بھی ہو رہی ہے۔ اس سے کبھی کوئی سماجی ٹکراؤ پیدا نہیں ہوا۔ بہار اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں ذات پر مبنی مردم شماری کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری، ملک میں سماجی انصاف کی جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ ہے اور ہم تمام کو مل کر سب کے لیے عدل و انصاف کی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ذات پر مبنی مردم شماری پروفیسر سلیم انجینئر انہوں نے کہا کہ کے نائب امیر نے کہا کہ ہم اور سیاسی میں ذات جا سکے کے لئے کیا جا
پڑھیں:
فوجی آپریشن سے خیبر پختونخوا کے عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے، پروفیسر ابراہیم
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ آپریشن کے نتیجے میں سویلین آبادی کا نقصان ہو رہا ہے، بچے اور خواتین گولیوں اور مارٹر گولوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فریقین جنگ روک دیں، یا آبادی سے دور جنگ لڑیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے باجوڑ، بنوں اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان آپریشنوں کی مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں پروفیسر محمد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام میں بے چینی اور خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں سویلین آبادی کا نقصان ہو رہا ہے، بچے اور خواتین گولیوں اور مارٹر گولوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فریقین جنگ روک دیں، یا آبادی سے دور جنگ لڑیں تاکہ عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوگ نقل مکانی پر مجبور کیے جا رہے ہیں، بتایا جائے کہ اب تک جتنے فوجی آپریشن ہوئے اس کے کیا نتائج نکلے؟ بد امنی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اور جرنیل امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے قاتل امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا سفیر بنا کر نوبل پرائز کے لیے نامزد کرنا، امریکی فوج کے اعلیٰ افسر کو بڑا قومی اعزاز دینا اور تیل و دیگر معدنیات امریکہ کی جھولی میں ڈالنا بدترین امریکی غلامی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 7 مئی 2025ء کو عدالت عظمیٰ نے ملٹری کورٹس کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا فیصلہ سنایا اور حکومت کو حکم دیا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو اپیل کا حق دینے کے لیے 45 دن کے اندر اندر قانون بنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی ماہ سے زیادہ گزرنے کے باوجود بھی 9 مئی 2023ء کے ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا قانون پاس نا کرنا بددیانتی اور انصاف کا قتل ہے۔ پارلیمنٹ سے قانون پاس نا کر کے وزیر اعظم توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قانون بننے سے قبل ملٹری کورٹس کی طرف سے ملزمان کو سزائیں دینا بھی غیر قانونی ہے اور ان کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا نظرِ ثانی کی درخواست پر ملٹری کورٹس کو سزاؤں کا حق دینے کا فیصلہ بھی درست نہیں ہے۔ ملٹری کورٹس کی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا جائے اور ملزمان کو اپیل کا حق دیا جائے۔ پی ٹی آئی نے فوجی عدالتوں کے قیام کی غلطی کی، اب خود اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ سیاستدان طاقت میں ہوں تو دوسروں پر ہنستے ہیں لیکن اقتدار چھن جائے تو رونے لگ جاتے ہیں۔