ماہِ ذی قعدہ اسلامی تقویم کے اعتبار سے گیارہواں مہینہ کہلاتا ہے۔ اس مہینے کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں عام طور پر دنیا بھر سے حج جیسی عظیم الشان عبادت ادا کرنے کے لیے حجاج کرام حرمین شریفین کی طرف رخت سفر باندھ کر حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے ماہِ ذی قعدہ کو خصوصی شرف و فضیلت بخشی ہے اور اس کو ان چار مہینوں میں شامل فرمایا ہے کہ جن کی عظمت و بزرگی اسلام سے پہلے بھی تھی اور اسلام کے بعد بھی ہے، اور وہ چار مہینے یہ ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔ ان مہینوں کی عظمت و بزرگی اسلام سمیت دوسرے آسمانی مذاہب میں بھی تسلیم کی گئی ہے، یہاں تک کہ مشرکین مکہ بھی ان چار مہینوں کی عظمت و فضیلت کے قائل تھے۔
اسلام کے آغاز تک ان چار مہینوں میں جہاں عبادت و طاعت کی خاص فضیلت تسلیم کی جاتی تھی تو وہیں ان میں جہاد و قتال بھی ممنوع تھا، اور اسلام میں تو اب بھی ان مہینوں میں عبادت و طاعت کی فضیلت برقرار ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم : ’’جب سے اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اس وقت سے مہینوں کی تعداد اﷲ تعالیٰ کے یہاں بارہ ہے۔ ان میں سے چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) عظمت و بزرگی والے ہیں۔ یہی ہے سیدھا دین۔ لہٰذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم مت کرو۔‘‘ (سورۃ توبہ )
حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جس دن سے اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اس دن سے لے کر آج تک زمانہ اسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آگیا ( یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے، بل کہ اب وہ ٹھیک ہوکر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصل صورت میں تھا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے۔ ان میں چار مہینے عزت و حرمت والے ہیں، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، اور ایک مہینہ ( جو اِن سے علاحدہ آتا ہے ) وہ رجب کا ہے جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔‘‘ (بخاری )
ایک مرتبہ رسولِ پاک ﷺ نے ایک صحابیؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’صبر (رمضان) کے مہینے کے روزے رکھو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو۔
صحابیؓ نے عرض کیا: ’’مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔‘‘
صحابیؓ نے عرض کیا: ’’میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے مزید اضافہ فرما دیجیے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔‘‘
صحابیؓ نے عرض کیا: ’’مزید اضافہ فرما دیجیے۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حرمت والے مہینوں ( ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزہ رکھو اور چھوڑو۔ اور آپ ﷺ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا۔ ( مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھا کرو، پھر تین دن ناغہ کیا کرو) اور اسی طرح کرتے رہا کرو۔‘‘ (ابوداؤد)
امام نوویؒ فرماتے ہیں : ’’ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہی چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) ہیں۔‘‘ (روضۃ الطالبین)
قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کے لیے کوہِ طور پر پہلے تیس راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید دس راتوں کا اضافہ فرما کر کل چالیس راتیں مکمل ہونے پر ان کو شریعت اور کتاب (تورات) عطا فرمائی۔ ان چالیس راتوں کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چالیس راتیں ذوقعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی تھیں۔ چناں چہ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف کی میعاد عیدالاضحی کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپؑ کو اﷲ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
بعض ناخواندہ ذی قعدہ کے مہینے کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں، وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس عیدالفطر و عیدالاضحی وغیرہ سے خالی ہوتا ہے، اور خالی کا مطلب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں، یہ خیال بالکل غلط، فاسد اور سراسر لاعلمی پر مبنی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔
اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ چوں کہ یہ خالی کا مہینہ ہوتا ہے اس لیے اس مہینے میں نکاح اور اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جاسکتی کہ کہیں وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے، چناں چہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماہ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کرکے فارغ ہوجاتے ہیں تاکہ کہیں ذی قعدہ کا مہینہ شروع نہ ہوجائے۔
حالاں کہ ماہِ ذی قعدہ سنہ 5 ہجری میں رسول اکرم ﷺ نے ام المومنین حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا تھا۔ (البدایہ و النہایہ) اسی طرح ماہِ ذی قعدہ سنہ 7 ہجری میں آپ ﷺ نے حضرت میمونہؓ سے نکاح فرمایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء) ال غرض ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و شادی وغیرہ عبادات کرنے کو خیر و برکت سے خالی سمجھنا زمانۂ جاہلیت کی باتیں اور توہمات پرستی ہے، جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محرم اور رجب اضافہ فرما مہینوں میں مہینے میں ان مہینوں چار مہینے کی عظمت اﷲ تعالی ذی الحجہ اور اس
پڑھیں:
عملی اصلاح کی بابت چند احادیث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-7
دہم
توازن واعتدال: اللہ تعالیٰ کو بندے کی طرف سے ہر معاملے میں اِفراط وتفریط اور حد سے تجاوز اور غْلْوّ پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو توسط واعتدال پسند ہے‘ حتیٰ کہ نمازِ باجماعت جو افضل العبادات ہے‘ اْس میں بھی توسّط کو پسند فرمایا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا جابرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: مْعاذؓ بن جبل نبیؐ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں نماز پڑھاتے اور اس میں سورۂ البقرہ کی تلاوت کرتے تو ایک شخص نے (جماعت کو چھوڑ کر) اختصار کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کی خبر سیدنا مْعاذؓ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے۔ ان کی یہ بات اس شخص تک پہنچی تو وہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم کام کاج والے لوگ ہیں‘ ہم اونٹوں پر پانی ڈھوتے ہیں اور مْعاذ نے گزشتہ شب نماز (عشاء) پڑھائی اور اس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی‘ اس پر میں نے (جماعت چھوڑ کر) مختصر تلاوت کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ انہوں نے گمان کیا کہ میں منافق ہو گیا ہوں‘ تو نبیؐ نے تین بار فرمایا: مْعاذ! کیا تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے والے ہو (باجماعت نمازِ عشاء میں) سورۂ الشمس‘ سورۂ الضحیٰ اور سورۂ الاعلیٰ وغیرہ کی تلاوت کیا کرو‘‘۔ (بخاری) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہؐ کی اقتدا کی سعادت حاصل کرنے کے لیے نفل کی نیت سے آپؐ کی اقتدا کرتے اور پھر اپنے قبیلے میں جاکر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے اور اس میں طویل قرآت کیا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ نے لوگوں کی آسانی کی خاطر اْن کے اس شِعار کو پسند نہیں فرمایا۔
سیدنا ابوقتادہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا جی چاہتا ہے: لمبی نماز پڑھوں کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ کہیں اس بچے کی ماں پر گراں نہ گزرے (اور اپنے بچے کے رونے کے سبب اس کی توجہ نماز سے بٹ نہ جائے)‘‘۔ (بخاری) (2) سیدنا ابومسعودؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی کریمؐ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہؐ! فلاں شخص کے لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں فجر کی جماعت سے رہ جاتا ہوں‘ تو میں نے رسول اللہؐ کو اپنے وعظ میں اْس دن سے زیادہ غضبناک (کبھی) نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کو دین سے متنفّر کرنے والے ہو‘ تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ اختصار سے کام لے‘ کیونکہ ان میں ضعیف‘ بڑی عمر والے اور کام کاج پر جانے والے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔ (بخاری) دوسری حدیث میں فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔ (بخاری) الغرض نماز میں بھی لوگوں کے احوال کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس جب عبادت میں لوگوں کے احوال کی رعایت اتنی اہم ہے تو عام حالات میں اْن کی اہمیت کا عالَم کیا ہوگا۔ مزدور کو اس کی مزدوری بروقت دینی چاہیے: نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین قسم کے اشخاص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود اْن سے جھگڑا کروں گا: ایک وہ جس نے میرے نام کی قسم کھائی اور پھر وہ قسم توڑ ڈالی (یعنی حانِث ہوگیا)‘ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر فروخت کر دیا اور پھر اس کی قیمت کھا گیا اور تیسرا وہ جس نے کسی کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا‘ مگر اس کو مزدوری نہ دی‘‘۔ (بخاری) نیز آپؐ نے فرمایا: ’’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو‘‘۔ (ابن ماجہ)
پانچ چیزوں کوغنیمت جانو: عَمروؓ بن میمون بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے ایک شخص سے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) موت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو فرصت ِ حیات عطا کر رکھی ہے‘ (اْسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) (2) مصروف ہونے سے پہلے جو فراغت کے لمحات ہیں‘ (انہیں خیر کے کاموں میں استعمال کرو) (3) خدا نخواستہ فَقر لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے نعمت ِ مال دے رکھی ہے‘ (اسے اللہ کی رضا کے کاموں میں استعمال کرو) (4) بڑھاپے سے پہلے عالَمِ شباب کو (خیر کے کاموں اور اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) اور (5) مرض لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ نے صحت عطا کر رکھی ہے‘ (اْسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو)‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ہر نیکی کو معمولی اور ہر گناہ کو بڑا سمجھو۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ابوبردہؓ بن ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں: مجھ سے سیدنا عبداللہؓ بن عمر نے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ میرے باپ نے تمہارے باپ سے کیا کہا تھا‘ ابوبردہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: ’’نہیں!‘‘ عبداللہؓ بن عمر نے کہا: میرے باپ (سیدنا عمرؓ بن خطاب) نے تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے کہا تھا: اے ابوموسیٰ! کیا تمہارے لیے یہ بات باعث ِ مسرّت ہے کہ ہمارا رسول اللہؐ کے ساتھ ایمان لانا اور آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد میں شریک ہونا اور دیگر سارے کے سارے نیک اعمال (جو ہم نے آپؐ کی معیت میں انجام دیے) ہمارے لیے (اْخروی) راحت کا سبب بن جائیں اور آپؐ کے بعد ہم نے جو سارے نیک کام کیے‘ اْن کے بارے میں ہم (اللہ کی عدالت میں) برابر سرابر چھوٹ جائیں اور نجات پا لیں تو تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) نے کہا: نہیں بخدا! ہم نے رسول اللہؐ کے بعد جہاد کیا‘ نمازیں پڑھیں‘ روزے رکھے اور بڑی تعداد میں نیک اعمال انجام دیے اور بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے ہمارے ہاتھ پر اسلام قبول کیا‘ پس ہم ان سب پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں تو میرے باپ (عمرؓ بن خطاب) نے کہا: ابوموسیٰ! اْس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ میں تو چاہتا ہوں: رسول اللہؐ کے ساتھ ہم نے جو نیک کام کیے‘ وہ ہمارے لیے اْخروی نجات کا باعث بن
جائیں اور وہ تمام اعمالِ خیر جو ہم نے آپؐ کے بعد انجام دیے‘ اْن میں برابر سرابر چھوٹ جائیں‘ تو ابوبردہؓ کہتے ہیں: اے عبداللہ! یقینا تمہارے والد (عمرؓ بن خطاب) میرے والد (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے بہتر تھے‘‘۔ (بخاری) اس سے اندازہ لگائیے کہ اس اْمت کو سیدنا عمر ِ فاروقؓ جیسا کوئی دوسرا حاکم یا خلیفہ اْن کے بعد نہیں ملا‘ انہیں اپنی عاقبت اور اْخروی محاسبے کی کتنی فکر تھی۔ ہر مومن کو آخرت کی جوابدہی کے بارے میں ایسی ہی فکر لاحق رہنی چاہیے۔
بدترین بندے: سیدہ اسماء بنتِ عْمیس خثعمیہ بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بدترین بندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور اترائے اور خداوند بزرگ وبرتر کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دوسروں پر ظلم ڈھائے اور حد سے تجاوز کرے اور خداوندِ بزرگ وبرتر اور قہّار کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو (حقوق اللہ اور حقوق العباد کو) بھول جائے اور ایسے مشاغل میں مصروف ہو جائے (جو اللہ سے غافل کر دیں) اور قبر (کی ظلمتوں) اور اپنے گل سڑ جانے کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو سرکشی کرے اور حد سے تجاوز کرے اور اپنی ابتدا اور انتہا کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین کے عوض دنیا کو حاصل کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین (کے قطعی امور) میں شبہات پیدا کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو لالچ کا اسیر ہو جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے کہ خواہشاتِ نفس اْسے گمراہ کر دیں اور بدترین بندہ وہ ہے کہ جو دنیا کی ایسی مرغوبات اور لذتوں میں مبتلا ہو جائے جو اس کی ذلت کا باعث بنیں‘‘۔ (ترمذی) ہر بندے کو جائزہ لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا بدترین خصلتوں میں سے وہ کن کن میں مبتلا ہے اور آیا وہ ان بدترین خصلتوں سے نکل کر خیر وہدایت کے راستے کو پانے کے لیے آمادہ ہے یا نہیں۔
خیرخواہی: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی‘ آپؐ نے فرمایا: اللہ‘ اْس کی کتاب‘ اْس کے رسول‘ مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین ہے)‘‘۔ (صحیح مسلم)