(گزشتہ سے پیوستہ)
ایسی صورتحال میں بھی ایٹمی جنگ کاخطرہ عالمی دباکوبڑھاسکتاہے۔اگرچہ موجودہ صورتحال تشویشناک ہے،لیکن تاریخی تجربات اورایٹمی طاقت ہونے کے ناطے دونوں ممالک مکمل جنگ سے گریزکریں گے۔ممکنہ طورپریہ تنائو محدودفوجی جھڑپوں، سفارتی دبائو یاپانی کے معاہدے پرمذاکرات تک ہی محدود رہے گا۔بین الاقوامی برادری کافوری مداخلت کرنا اور دونوں طرف کے لئے بات چیت کا راستہ ہموار کرناہی اس بحران کوسلجھانے کا واحد ذریعہ نظر آ تا ہے ۔
آج جب زمین پرایک نیاسنگین بحران سراٹھا رہا ہے،یہ سوال ازحداہمیت اختیارکرگیاہے کہ کیاامریکا اس آتش فشاں کے دھانے کوبند کرسکتا ہے؟ امریکا، چین،یاسعودی عرب جیسے ممالک ثالثی کی کوشش کرسکتے ہیں۔امریکاپہلے ہی اس بحران کو ’’انتہائی تشویش ناک‘‘ قراردے چکا ہے ۔ عالمی بینک بھی سندھ طاس معاہدے کی بحالی کے لئے اقدامات کرسکتا ہے۔
دونوں ممالک معاشی بحران(مہنگائی،بیرونی قرضے)کاشکارہیں۔طویل جنگ دونوں کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے،جس کی وجہ سے حکومتیں ممکنہ طورپرتصادم سے گریزکریں گی۔
دونوں ایٹمی طاقتیں ہونے کے ناطے کسی بھی بڑے تصادم کوباہمی طورپرایٹمی جنگ،یقینی تباہی (ایم اے ڈی)کی نظریے کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ جنگ کی صورت میں’’جیتنے والاکوئی نہیں ہوگا‘‘۔
مودی کی حکومت کشمیراورقومی سلامتی کے بیانیے کوجہاں اپنی آئندہ انتخابی مہم کاحصہ بناتی چلی آرہی ہے،اسی طرح بی جے پی کی اکھنڈ بھارت کی سوچ پاکستان کے خلاف سخت مؤقف کوہوادے رہی ہے۔انڈیایہ سمجھتاہے کہ اس وقت پاکستان24 مہنگائی،کرنسی کی کمی اوردوماہ بعدایک مرتبہ پھرآئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی صورت میں پاکستانی معیشت مکمل طورپر دباؤمیں آجائے گی اورپاکستان کودیوالیہ کی طرف لیجانے کے بعد امریکی،اسرائیلی اوران کے تمام مغربی اتحادیوں کی طرف سے شدیددباؤکے بعداس کی ایٹمی طاقت کومعزول کیاجاسکے گا۔
ایسی صورتحال میں پاکستانی فوج کی جانب سے قومی سلامتی کے بیانیے پرسختی سے عملدرآمدکااعلان ہوجائے گااوریقیناجہاں امریکااس خطے میں انڈیا کو اپنااسٹریٹیجک پارٹنرسمجھتاہے وہاں چین پاکستان کاایک ایسااہم اتحادی ہے جس نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ اسے پاکستان کی سلامتی اسی طرح عزیزہے جس طرح امریکاکو اسرائیل کی کی سلامتی عزیز ہے۔اس کے ساتھ ہی یواے ای،سعودی عرب، ترکی کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک بھی پاکستان کی جہاں مالی مددکرسکتے ہیں وہاں ان حالات کوقابومیں رکھنے کے لئے مذاکرات کے لئے پلیٹ فارم مہیاکرسکتے ہیں۔
تاریخ شاہدہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ میں توچابک دستی سے کام لیتی ہیں،مگرانصاف کی ترازوکوتھامنے میں ان کی انگلیاں اکثرلرزنے لگتی ہیں۔امریکاچاہے تواپنی سفارتی طاقت کے بل پراس بھڑکتے تنورمیں کچھ ٹھنڈک بھرسکتاہے،مگراس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مساویانہ اورغیرجانبدارانہ کردار ادا کرے،وگرنہ ایک جانب دبامزیدخطرات کوجنم دے سکتا ہے۔کیادونوںممالک ماضی کی جنگوں اوربحران سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ایسی تاریخ کودہرانے کی حماقت کریں گے جب کارگل جنگ 1999ء میں محدود جنگ کے باوجوددونوں ممالک کوبھاری جانی ومالی نقصان اٹھاناپڑاتھا۔
2019ء پلوامہ کے فالس فلیگ آپریشن کے بعدانڈیاکے فضائی حملے کے بعدپاکستان کی طرف سے طیارہ گرانے اورقیدی واپس کرنے کے عمل نے جہاں یہ ثابت کیاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کس قدرحساس اورچوکس ہے وہی اس نے واضح پیغام دیاتھاکہ خطے میں تصادم کو’’کنٹرول‘‘کرنابھی اس کے لئے اسی صورت ممکن ہے اگراس کی سرحدوں کی مکمل حفاظت ہو۔ علاوہ ازیں2001-2002ء میں انڈیا نے10ماہ تک لاکھوں فوجیوں کی سرحدپرتعیناتی کرکے پاکستان کے اعصاب کواچھی طرح آزما لیا تھا جبکہ اس وقت بھی ایٹمی جنگ کے خطرات پیداہوگئے تھے۔
1965،1971،اور1999ء کی جنگیں دونوں ممالک کے لئے تباہ کن رہی ہیں۔ان تجربات نے ثابت کیاہے کہ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں۔تاہم انڈیاکاسندھ طاس معاہدہ توڑنا پاکستان کی زراعت اورپینے کے پانی کے لئے خطرہ ہے۔اگرانڈیایہ قدم اٹھاتاہے توپاکستان کی جانب سے فوجی ردعمل کاامکان بڑھ جاتاہے۔خطرہ کی بات یہ ہے کہ گودی میڈیا مودی کی حکومت کوتقویت دینے کے لئے قوم پرست بیانیہ عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئیاستعمال ہورہاہے، جو تناؤ کومزیدہوادے سکتاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مستقبل میں جنگی تباہی کے امکانات کے پیشِ نظرماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کیاجائے۔
سندھ طاس معاہدے کوبحال کرنے کے لئے عالمی بینک یااقوام متحدہ کوفوری حرکت میں آکرانڈیاکواس حماقت پرتنبیہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہی کشمیرپر’’سیاسی حل ‘‘کی بات چیت(مثلاً2003ء کی جنگ بندی لائن کااحترام)کی ضمانت دیتے ہوئے کشمیر جیسے سب سے پرانے ایجنڈے پرسرگرمی کے ساتھ قراردادوں پرعملدرآمدکاحکم دیناچاہئے۔ اقتصادی اور سفارتی جنگ (اجارت بندکرنا،سفارت کاروں کو نکالنا) کے تناؤکوجلدازجلدختم ہونا چاہئے۔ سائبر جنگ کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کونشانہ بنانے کے عمل کافوری خاتمہ ہوناچاہئے۔۔
دونوں ممالک’’سرحدپار‘‘کارروائی کر کے اپنی عوامی حمایت بڑھانے کی کوششوں کوترک کریں گے،کیونکہ یہی عوامل بعدازاں ایٹمی جنگ کے خطرات کاسبب بنتے ہیں۔
تاریخ کااٹل سبق ہے کہ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔برصغیرکی تاریخ ہمیں بارباریہی پیغام دیتی ہے کہ جنگوں نے صرف شکستیں دی ہیں،نہ کہ عزتیں۔ کارگل ہویاممبئی حملے، لاہور معاہدہ ہویا آگرہ سمٹ ہر تجربہ یہ چیخ چیخ کرکہہ رہاہے کہ تصادم، خواہ جتنابھی محدود ہو، بالآخربربادی کوجنم دیتا ہے ۔
علامہ اقبالؒ کی گہربارصداآج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے:
جنگ اپنے اصولوں پہ اگرچہ ہے قتال
ہے مگر عشقِ وطن کارِدرویشاں بھی
اورمیرکی دردبھری شاعری ہمیں یہ نصیحت دیتی ہے:
جنگ وجدل سے شہرا جڑے،بستی ویران ہوئی
اے میر!اب کے ہم بھی چپ رہے،دل خون ہوا
پاکستان اوربھارت کے بیچ بڑھتاہواتنامحض سیاسی چپقلش نہیں،بلکہ ایک ایسانازک موڑہے جہاں ایک غلط قدم،نسلوں کی بربادی کاپیش خیمہ بن سکتا ہے۔ جنگ کی راہ میں نہ کوئی فاتح ہوتاہے نہ مغلوب،فقط مائیں اپنی گودیں اجاڑتی ہیں اورتہذیبیں اپنے خواب دفن کرتی ہیں۔یہ خطہ،جس کی مٹی محبتوں کی خوشبوسے معطرہونی چاہیے تھی،آج نفرت کی بارود سے سلگ رہی ہے۔اگراب بھی ہوش کے دامن کونہ تھاماگیا،توتاریخ ایک اورنوحہ لکھنے پرمجبورہوجائے گی۔وقت کاتقاضاہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت اپنے غرورکو تھام کرحکمت کا چراغ روشن کرے کہ جنگ کے میدانوں میں اگر کوئی چیزہمیشہ ہارتی آئی ہے،تووہ انسانیت ہے۔ یہ وقت اشتعال اورغرورکی منڈی میں تلواریں چمکانے کانہیں بلکہ تدبراورحکمت کی راہوں پرچراغ جلانے کاہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
آج اگرعقل تنقیدکے تیربرسانے میں مصروف رہی اورعشقِ وطن محض نعروں کاایندھن بن کررہ گیا،تودونوں ملکوں کامقدرتباہی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔تاریخ کے اوراق ہم سے یہ سوال کررہے ہیں کیاہم تہذیب کے وارث بنیں گے یابربادی کے سوداگر ؟
چندسنجیدہ تجزیہ کاروں کایہ خیال کہ ماضی کی تلخ یادیں دونوں ملکوں کومکمل تصادم سے بازرکھیں گی،ایک امید کی کرن ضرورہے۔1947ء سے لے کرکارگل اورممبئی حملوں تک،دونوں ممالک نے بارہاتلخیاں جھیلیں اوربارہاپچھتاوے کازہرچکھا ہے ۔ شایداسی تجربے نے دونوں قوموں کے فیصلہ سازوں کویہ شعوردیاہوکہ مکمل جنگ کی راہ ہلاکت کی شاہراہ ہے،اور کوئی بھی ذی شعورقوم اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادی کاپروانہ جاری نہیں کرتی۔ماضی کا یہی بہترین سبق ہے جوآج کی کشیدگی میں بھی یہی پیغام دے رہاہے۔ جب نفرت کی آندھیاں سرحدوں کے دونوں طرف چراغ گل کرنے لگیں، تو دانشمندی کا تقاضاہے کہ تلواریں نیام میں رہیں اور زبانیں مرہم کی صورت اختیارکریں۔
پاکستان اوربھارت کے بیچ بڑھتاہواتنامحض سیاسی چپقلش نہیں،بلکہ ایک ایسانازک موڑہے جہاں ایک غلط قدم،نسلوں کی بربادی کاپیش خیمہ بن سکتا ہے۔ جنگ کی راہ میں نہ کوئی فاتح ہوتاہے نہ مغلوب،فقط مائیں اپنی گودیں اجاڑتی ہیں اور تہذیبیں اپنے خواب دفن کرتی ہیں۔یہ خطہ،جس کی مٹی محبتوں کی خوشبوسے معطرہونی چاہیے تھی،آج نفرت کی بارود سے سلگ رہی ہے۔اگراب بھی ہوش کے دامن کونہ تھاماگیا،توتاریخ ایک اورنوحہ لکھنے پرمجبورہوجائے گی۔
ایسے میں ایک حکایت رہنمائی کرتی ہے کہا جاتا ہے کہ دوشہزادے تخت کی جنگ میں الجھ گئے۔ دونوں کے درمیان ایک ندی بہتی تھی۔برسوں کی لڑائی سے ندی سوکھ گئی،مٹی پھٹ گئی ، زرخیززمین بنجر ہوگئی۔جب ہوش آیاتونہ تخت بچاتھانہ تخت نشیںفقط ایک بیجان ملبہ اورصحرائی ہواان کااستقبال کرتی تھی۔تب ایک بزرگ نے کہاجوزمین خون سے سیراب ہو، وہاں کبھی محبت کے پھول نہیں کھلاکرتے۔
یہ دنیاکاواحدایساخطہ ہے جہاں چارباضابطہ تسلیم شدہ نیوکلئیرممالک ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اورایران پانچواں ملک ہے جو اس صلاحیت کے بالکل قریب ہے۔ان حالات میں توعالم انسانیت اورساری دنیا کے لئے دیرپااور مستقل امن اس لئے ضروری ہے کہ کوئی معمولی چنگاری اس بارودی خطے کوساری دنیا سمیت صفحہ ہستی سے مٹاسکتی ہے۔
جب نفرت کی ہوائیں چراغوں کوبجھانے پرتلی ہوں،جب سیاسی جوش وخروش،عقل وفہم کے تاج کو زمین پرپھینک دے،تووہ لمحہ آجاتاہے جب ایک پوری نسل کے خواب،میدانِ جنگ کی گردمیں گم ہوجاتے ہیں۔ایسے وقت میں قیادت کی اصل عظمت اسی میں ہے کہ وہ انتقام کی تپتی ہوئی راہوں کوچھوڑکر مفاہمت کے باغات کی طرف لوٹے۔وقت کاتقاضا ہے کہ غرورکی زنجیریں توڑی جائیں اورحکمت کاپرچم بلندکیا جائے۔ تباہی سے پہلے ہوش کی اس صداپرکان دھرنے کی ضرورت ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوندِوقت اس خطے کے مقتدررہنمائوں کے دلوں میں وہ نورِبصیرت پیداکرے جس سے وہ عداوت کی دھند کوچیرکرمحبت کے افق تک پہنچ سکیں اوراس دھرتی پرنفرت کی تیزہواں کی جگہ امن کے بادِنسیم کاگزرہو۔ برصغیرپرتباہی کی آندھی اورجنگی بادلوں کی بجائے ہوش کے چراغ روشن کردے تاکہ انسانیت ہارنے اورآنے والی قیامت سے محفوظ رہ سکے۔ آمین۔
حتمی پیغام یہ ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں مسائل حل نہیں کرتیں۔دونوں ممالک کواپنی عوام کی بھلائی کیلئے تنازعات کے پرامن حل پرتوجہ دینی چاہیے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک پاکستان کی ایٹمی جنگ ہے کہ جنگ ہیں اور نفرت کی رہی ہے کی طرف کے لئے جنگ کے جنگ کی کی جنگ
پڑھیں:
ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔
آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔
یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔
انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔
یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔
گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔
بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔
ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔
گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔
یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔
اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔
آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔