نیویارک میں پاکستانی امریکی کمیونٹی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ سے دوستانہ ماحول میں ملاقات ہوئی،
دو طرفہ، علاقائی اور عالمی موضوعات تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ سے مضبوط تعلقات چاہتے ہیں، ان تعلقات کو پاک چین دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے ،ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان9 سال بعد پہلی ملاقات میں دو طرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک امریکہ تعلقات اور مختلف شعبہ جات میں ممکنہ تعاون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات اور بات چیت کے بعد پاکستان اور امریکہ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ان کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں اور یہ تعلقات گہرے اقتصادی اور سیکورٹی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی پہلی ملاقات ایک طرح سے پیش رفت تھی، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے متعدد اقدامات (CBMs) کے بعد ہوئی۔ بھارت کے ساتھ چار روزہ فوجی تنازعے نے پاکستان کو اپنا مؤقف بہتر انداز میں پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، جسے وائٹ ہاؤس کی جانب سے سراہا اور تسلیم کیا گیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور کاروبار کے شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینا باہمی ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے اسی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں دو طرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی و معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تفصیلی گفتگو ہوئی ،
دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ خطے میں امن و امان کے لیے جامع انسدادِ دہشتگردی نظام پر کام کیا جائے، اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے عفریت کو مؤثر طریقے سے روکا جائے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں دیرینہ تجارتی پارٹنر ہیں اوردونوں ممالک کے درمیان تعاون کے بے شمار مواقع اور میدان موجود ہیں، اطلاعات کے مطابق وزرائے خارجہ ملاقات میں دونوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کی نشاندہی کرتے ہوئے طویل مدتی استحکام اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان زراعت، ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور مصنوعی ذہانت (AI) میں امریکی سرمایہ کاری کا مشتاق ہے۔پاکستان اس وقت معدنیات کی تلاش کے لیے ایک نیا اور پسندیدہ مرکز بن چکا ہے، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس میں دلچسپی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے روڈ میپ کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم، صحت، توانائی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبے بھی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں، اور پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ ان شعبوں میں بھی اپنی مہارت کے ذریعے اس شعبے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو فروغ دے۔
اس ملاقات کے دوران ہونے والی بات چیت سے اندازہ ہوتاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جنہیں حالیہ برسوں میں کم ترین سطح پر قرار دیا گیا تھا، اب دوبارہ بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان اکثر تناؤ کا شکار رہنے والے تعلقات میں شاید اب ایک نیا موڑ آ رہا ہے۔
دونوں فریق برسوں کی سفارتی سرد مہری اور لاتعلقی کے بعد اپنے معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارتکاروں کی یہ ملاقات دوطرفہ تعلقات میں بتدریج بہتری کے ایک باضابطہ مرحلے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جس کا آغاز اُس ظہرانے سے ہوا جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اعزاز میں دیا تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کے اس اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی روابط کی بحالی کی بنیاد رکھی۔گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں دونوں فریقوں کے درمیان متعدد امور پر بات چیت ہوئی جن میں تجارت، سرمایہ کاری، انسدادِ دہشت گردی میں تعاون، قیمتی معدنیات اور کان کنی، اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی شامل ہیں، اسحاق ڈار کے روبیو سے ملاقات کے بعد دیے گئے بیانات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد اب واشنگٹن کے ساتھ ایک پائیدار معاشی شراکت داری کو ترجیح دے رہا ہے۔انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھاکہ ہم نے طویل مدتی پاک امریکہ شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا، جس میں اقتصادیات، تجارت، سرمایہ کاری، آئی ٹی/اے آئی، اور انسداد دہشت گردی کے تعاون پر نئی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ کے لبریشن ڈے ٹیرف کے تحت پاکستان پر عائد 29 فیصد جوابی محصولات کے معاملے پر ایک تجارتی معاہدہ انتہائی قریب ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ مہینوں کی بات نہیں، یہاں تک کہ ہفتوں کی بھی نہیں میں کہوں گا کہ بس[ دنوں کی بات ہے۔دوسری جانب مارکو روبیو نے کہا کہ بات چیت میں دوطرفہ تجارت کو بڑھانے اور قیمتی معدنیات کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی گئی جو کہ دونوں ممالک کے لیے ایک تیزی سے اہم ہوتا ہوا اسٹریٹجک شعبہ ہے۔
امریکہ تاحال پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے، اور امریکی کمپنیاں ملک کی معیشت کے کلیدی شعبوں میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو رکھتی ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کی طویل مدتی اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔یہ حقیقت کہ دونوں فریق اب سیکورٹی کے بجائے معاشی تعاون کے گرد اپنے تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں، ایک خوش آئند پیشرفت ہے، اس سے دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار شراکت داری کی بنیاد پڑے گی ۔ موجودہ محصولات کے حوالے سے جاری بات چیت سے پالیسی سازوں کو دوطرفہ تعلقات کی مستقبل کی سمت کو وسیع تر اقتصادی تعاون کی بنیاد پر استوار کرنے کا موقع ملے گا ۔ ایسی شراکت داری، جو دونوں ممالک کے طویل المدتی معاشی مفادات پر مبنی ہو، انسدادِ دہشت گردی جیسے دیگر اہم شعبوں میں بھی دوطرفہ تعاون کو گہرا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستا ن اور امریکہ کے وزراء خارجہ کی ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان9 سال بعد یہ پہلی بالمشافہ ملا قات ہے۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک روابط تو ہو چکے ہیں لیکن بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور مختلف شعبہ جات میں ممکنہ تعاون پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ دوطرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی امن کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے میں امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے کردار اور کاوشوں کو لائق تحسین قرار دیا جب کہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف کیا اورکہا کہ عالمی و علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔مارکو روبیو نے یہ بھی تسلیم کیاکہ ہم پاک، امریکہ دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت اور استحکام کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری ٹریڈ ڈائیلاگ میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے بھی پر امید ہیں۔ پاکستان امریکی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش منزل ہے۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ علاقائی امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے نقطہ نظر اورمفادات میں ہم آہنگی ہے۔ امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا پاکستان، واشنگٹن سے امداد نہیں تجارت چاہتا ہے، امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی دینے جا رہے ہیں، امریکہ کے ساتھ بہت جلد تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔پاکستان امریکی منڈیوں تک موثر رسائی چاہتا ہے۔پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات امریکہ جاتی ہیں، باہمی تجارت کے نئے معاہدے سے امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی مل سکے گی۔اسحاق ڈار نے بجاطورپر یہ واضح کیا کہ ہمارا خطہ تنازعات کے ہوتے ہوئے ترقی نہیں کر سکتا،مسئلہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع ہے، بھارت دنیا کو گمراہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کا راگ الاپتا ہے اور یہی اقدام رواں برس 22 اپریل کو،پہلگام واقعے پر پاکستان پر الزامات عائد کیے۔ ہم نے کبھی بھی کشیدگی میں پہل نہیں کی بلکہ فضا اور زمین دونوں میدانوں میں جواب اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت اپنے دفاع کے طور پر دیا لیکن ہم قسمت اور آخری وقت میں مداخلت پر انحصار نہیں کرسکتے۔ پاکستان اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، ہم حریف کے طور پر نہیں بلکہ رابطہ کاری کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں جس کی تازہ مثال 17 جولائی کے دورہ کابل کی ہے جہاں ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے کے معاہدے ٹرانس افغان ریلوے پر دستخط ہوئے۔ انھوں نے کہا مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے، بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوناچاہیے۔ امریکہ اور چین دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دونوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 76 سال سے بھی زیادہ عرصے سے قائم چلے آ رہے ہیں۔ سرد جنگ کا دور ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محاذ، پاکستان اور امریکہ نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔اسی طرح چین کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ان دونوں
ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا بنیادی اصول ہے۔
آج کا دور تجارت کا دور ہے چین کی خارجہ پالیسی میں بھی معیشت کو اولیت حاصل ہے۔ ان حالات میں پاکستان نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آگاہی انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت اپنی معیشت کو بھی بہتر رکھنا ہے اور اپنی دفاعی صلاحیت پر بھی کوئی کمپرومائز نہیں کرنا ہے۔تجارتی حوالے سے بھی امریکہ اور چین پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں جب کہ دفاعی حوالے سے بھی دونوں ملک پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو اس انداز میں لے کر آگے بڑھیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا توازن پاکستان کے حق میں رہے۔ فی الوقت یہ کہاجا سکتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی حد تک درست سمت میں چل رہی ہے،لیکن اس پالیسی کے تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ وزارت خارجہ کا قلمدان کسی ایسی شخصیت کو دیاجائے جو امور خارجہ کا ماہر ہو،اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا موقف دوٹوک انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،اس اہم قلمدان کو سیاسی بنیادوں پر کسی نوسکھ فرد یا خاندان کے کسی فرد کے سپرد کرکے اسے سیر سپاٹے کا موقع دینے اور بیرون ملک اس کی مدد کیلئے بھاری بھرکم وفود بھیجنے کی ضرورت نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر دونوں ممالک کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان پاکستان اور امریکہ امریکی وزیر خارجہ خارجہ پالیسی اسحاق ڈار نے حوالے سے بھی سرمایہ کاری مارکو روبیو میں پاکستان کے حوالے سے ملاقات میں پاکستان کے شراکت داری پاکستان کی تعلقات میں پاک امریکہ کے تعلقات دونوں ملک تعلقات کو امریکہ کے کرتے ہوئے کے طور پر انہوں نے خارجہ کے کہ دونوں کیا گیا میں پاک بات چیت کے ساتھ گردی کے کے بعد کی گئی نے کہا کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی، ٹرمپ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر میں نہیں ہوتا دنیا میں 6 جنگیں ہوتیں جن میں سب سے بڑی جنگ پاک بھارت کی ہوتی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے ساتھ بہت زیادہ تجارت کرتا ہے۔ پھر میں پڑھ رہا ہوں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔
امریکی صدر کے مطابق جس پر میں نے سوچا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرانا میرے لیے آسان ہوگا کیونکہ اس قبل، میں بھارت اور پاکستان تنازع کو بھی تجارتی دباؤ کے ذریعے سلجھا چکا ہوں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ میں نے دونوں (تھائی لینڈ اور کمبوڈیا) کے وزرائے اعظم کو فون کیا اور کہا کہ ‘جب تک آپس میں جنگ ختم نہیں کرتے، کوئی تجارتی معاہدہ نہیں ہوگا۔
امریکی صدر نے کہا کہ جب میں نے فون بند کیا، تو میرے خیال میں وہ ( تھائی لینڈ اور کمبوڈیا) مسئلہ سلجھانے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ چند دنوں سے کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا جو بڑھ کر شہروں تک پھیل گیا تھا اور جس میں مجموعی ہلاکتیں دو درجن سے زائد ہوچکی تھیں۔