بھارتی فلم انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ اور کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے سپر اسٹار شاہ رخ خان نے حال ہی میں ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پوری دنیا انہیں ”کنگ خان“ کے نام سے جانتی ہے، وہیں اپنے ہی گھر میں وہ صرف ایک ’مذاق‘ بن کر رہ گئے ہیں۔

شاہ رخ خان نے یہ گفتگو ممبئی میں منعقد ہونے والے پہلے ورلڈ آڈیو ویژول اینڈ انٹرٹینمنٹ سمٹ (WAVES 2025) کے ایک خصوصی سیشن میں کی.

اس نشست میں ان کے ہمراہ اداکارہ دیپیکا پڈوکون بھی موجود تھیں، جنہوں نے فلم اوم شانتی اوم سے شاہ رخ کے ساتھ اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

اس موقع پرشاہ رخ خان نے اس عام تصور کی نفی کی کہ بڑی کامیابی کے بعد انسان تنہا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا،

”اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کامیابی کے بعد انسان تنہا ہو جاتا ہے؟ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو ہنسا سکتے ہیں، تو آپ کبھی تنہا نہیں ہوں گے۔ اور جن کے بچے نہیں، اگر وہ اپنے والدین کو ہنسا سکتے ہیں تو بھی تنہائی محسوس نہیں کریں گے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے تینوں بچے آریان خان، سہانا خان، اور ابرام خان ان کی زندگی کی اصل خوشی ہیں اور ان کی موجودگی میں کبھی اکیلا پن محسوس نہیں ہوتا۔

شاہ رخ خان نے ہنستے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے گھر میں کوئی بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ جب وہ بچوں کو ڈانٹنے یا ڈسپلن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو الٹا ان کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا،”میں اپنے بچوں کے لیے اتنا فنی بن چکا ہوں کہ جب میں کہتا ہوں، ’دس بجے سونا ہے‘، تو ان کا ردعمل ہوتا ہے: ’اوہ مائی گاڈ، ایس آر کے!‘ میں اپنے ہی گھر میں ایک مذاق بن چکا ہوں۔“

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ فلم اوم شانتی اوم کی شوٹنگ کے دوران دیپیکا پڈوکون کو بھی ڈانٹ چکے ہیں، جس پر دیپیکا اس سیشن میں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئیں۔

مداحوں کی جانب سے شیئر کردہ ایک پرانی ویڈیو کا ذکر کرتے ہوئے شاہ رخ نے مزید بتایا کہ ان کا بڑا بیٹا آریان اکثر ان کی آمد پر طنزیہ انداز میں کہتا ہے:

”اوہ مائی گاڈ، دی اسٹار از ہیئر!“

اسی طرح ان کی بیٹی سہانا بھی مذاق اڑاتے ہوئے کہتی ہے:

”اوہ مائی گاڈ، ایس آر کے۔۔۔ بڑا اسٹار کچھ کہہ رہا ہے!“

شاہ رخ خان نے مزید کہا کہ جب وہ اپنے چھوٹے بیٹے ابرام کو ڈانٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف ہنسنے لگتا ہے، جس پر ان کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب وہ صرف گھر والوں کے لیے ایک دلچسپ اور پیار کرنے والے والد ہیں، نہ کہ کوئی سخت گیر شخصیت۔

شاہ رخ خان نے کہا کہ یہ مقام انہوں نے محض قسمت کے بل پر حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے تین دہائیوں کی مسلسل محنت، قربانیاں اور لگن ہے۔ لیکن گھر میں وہ کسی سپر اسٹار کے بجائے صرف ایک محبت کرنے والے باپ اور شوہر ہیں۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: شاہ رخ خان نے انہوں نے گھر میں کہا کہ

پڑھیں:

باتیں علی امین گنڈا پور کی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم ہتھیار لے کر آئیں گے، سینے پر گولی ماریں گے تو ان کی کمر پر گولی ماریں گے۔ علی امین گنڈا پور کا یہ تازہ فرمان سامنے آیا ہے بالکل ٹھیک کہا یہ ایسا کر سکتے ہیں، جس شخص کے پاس چند بوتلیں ہوں اور یہ پکڑی جائیں تو شہد کی بوتلیں بن جائیں، آخر کوئی تو طاقت اس شخص کے پاس ہوگی ناں کہ بوتلیں نہ پکڑی جائیں تو ان کا کوئی اور ہی رنگ اور نشہ ہوتا ہے، پکڑی جائیں تو شہد کی بن جائیں۔ یہ کام کسی جادو سے کم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے پاس جادو کی کوئی نئی قسم آئی ہوگی۔ علی امین ایک عوامی آدمی ہیں، اپنے علاقے میں یہ شیخ رشید کی مانند سیاست کرتے ہیں لہٰذا ان کے بیانات کو بھی بالکل اسی طرح لیا جائے جیسے شیخ رشید کے بیانات ہوتے تھے یا ہوتے ہیں۔ عمران خان کے ہامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اصولوں کی سیاست کی ہے۔ کرپشن نہیں کی، ایمان دار ہیں، جی دار ہیں، جرأت مند ہیں، جی ہوسکتا ہے کہ ایسے ہی ہوں جیسا کہ ان کے ہامی خیال کر رہے ہیں لیکن یہ دنیا ہے اور سیاست ہے یہاں دعوئوں کی نہیں عمل کی اہمیت ہے۔ دعوے تو ضیاء الحق نے بھی کیے تھے، پرویز مشرف نے کیا کم دعوے کیے تھے! نواز شریف ہوں یا دیگر سیاست دان کم دعویٰ کرتے ہیں؟ ہم ا ن کا عمل دیکھتے ہیں۔ ہم سے مراد عوام ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے عمران خان کبھی بھی اس بات کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔ ریفرنڈم میں انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت اس لیے کی تھی کہ انہیں یقین دلایا گیا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے وہی بہترین چوائس ہیں۔ پھر جب حالات نے پلٹا کھایا تو عمران خان صرف اپنی نشست میاں والی سے جیت سکے بلکہ ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ عمران خان کو جتوایا گیا ہے۔ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ہو۔
2002 کے عام انتخابات کی ’’بنیادی سائنس‘‘ یہ تھی جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اس کا کم از کم ایک امیدوار تو ضرور جیت جانا چاہیے اور اسے اسمبلی میں لایا جائے اسی لیے مولانا طارق اعظم، عبد الرئوف مینگل، علامہ طاہر القادری، عمران خان، شیخ رشید احمد جیسے راہنماء اسمبلی میں جیت کر آئے۔ راجا ظفر الحق ایک مدبر سیاست دان ہیں، جہاں دیدہ ہیں، انہیں بھی پرویز مشرف نے ملاقات میں کہا تھا، تیار ہوجائیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیے اسمبلی میں وہی آئے گا جس کے سر پر وہ ہاتھ رکھیں گے۔ راجا صاحب نے کہا کہ ابسلیوٹلی ناٹ۔ پھر کیا ہوا؟ انتخابات ہوئے تو راجا صاحب شکست کھا گئے۔ اس انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم انہیں اتنی نشستیں مل گئیں کہ وہ اسمبلی سے باہر رہنے کا رسک نہیں لے سکتی تھیں۔ بس یوں کہہ لیں یہ ایسے انتخابات تھے جن میں سب کچھ پہلے سے طے تھا کہ کون کیا بنے گا اور کون کن نشستوں پر بیٹھے گا۔ ملک کی سیاست آج بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے سب کچھ طے ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا؟ کون اندر ہوگا کون اندر نہیں ہوگا‘ باقی ہمارے سیاست دانوں کی مرضی ہے وہ جس طرح کے چاہیں بیان دے سکتے ہیں۔ بیان دینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں مگر پابندی ہے کہ جو کچھ طے ہے اسے نہیں چھیڑنا بس ایک خاص دائرے میں رہ، جو بھی بیان دینے ہیں دیتے چلے جائو۔
ایک بات اگر پلے باندھ لی جائے تو اس ملک کی سیاست بھی درست ہوسکتی ہے وہ بات یہ ہے کہ سیاست دان اپنی ذمے داری پہچانیں۔ عوام کی طاقت سے جمہوریت لائیں۔ پارلیمنٹ میں آنے اور پھر حکومت کرنے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں نہ رہیں۔ اگر عوام انہیں مسترد کردیں تو عوام کا فیصلہ قبول کریں۔ کسی کے کہنے پر دھرنے نہ دیں، احتجاج کے لیے کنٹینر نہ سجائیں، ملک کو آگے چلنے دیں۔ عوام میں جائیں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں تو اس ملک میں جمہوریت آسکتی ہے ورنہ نہیں آسکتی۔ الٹے بھی لٹک جائیں اس ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ یہ بات بھی سمجھ لیجیے جمہوریت ہوتی یا نہیں ہوتی، یہ نیم جمہوری نظام، کنٹرولڈ جمہوری نظام، ہائبرڈ جمہوری نظام، جمہوریت نہیں ہوتی، اسے بندوبست کہتے ہیں، ایک عارضی بندوبست، اسے جمہوریت کہنا ہی جمہوریت کی توہین ہے اور جو جو بھی اس طرح کے نظام کا حصہ ہے یا رہا ہے یا رہنے کا خواہش مند ہے وہ جمہوریت کا ہامی نہیں ہے وہ اپنے لیے کسی بندو بست کا منتظر ہے۔ سیاست دان اپنی سمت درست کرلیں تو سیاست دانوں کو سدھارنے والے اور انہیں چلانے، لانے اور نکالنے والے بھی اپنی سمت درست کرلیں گے۔
جب ملک کے سیاست دانوں کی ایک بڑی اکثریت یہ کہہ رہی ہو کہ ’’آجا تینوں اکھیاں اڈھیک دیاں دل واجاں مار دا‘‘ تو ان کا دل نہیں کرتا کہ سیاست دانوں کی آواز اور کوک سنیں لہٰذا کسی کو برا مت کہیں، سیاست دان خود درست ہوں، حقیقی معنوں میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور ان کے ووٹ سے پارلیمنٹ میں آئیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر بجٹ بھی عوام کے لیے ہی آئیں گے آئی ایم ایف کے لیے نہیں۔ پھر جمہوری حکومت کی مرضی ہوگی، کسی کو توسیع دے نہ دے اور کوئی چوں بھی نہیں کرسکے گا۔ جو سیاست دانوں کی اپنی کوئی رائے نہ ہوگی تو جو قوت میں ہوگا رائے تو پھر اسی کی ہوگی۔ پھر وہی فیصلہ کرے گا کہ جمہوریت کو کس ناکے پر روکنا ہے جب اسلحہ اٹھا کر اسلام آباد چڑھائی کی دھمکی دی جائے گی اور اسے ہی سیاست سمجھا جائے گا تو پھر جان لیجیے جس کے لیے اسلحہ اٹھانے کی بات ہورہی ہے وہ بے چارہ ملاقاتیوں کے انتظار میں ہی بیٹھا رہے گا۔ کوئی اسے اصول پسند کہے یا نیلسن مینڈیلا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

متعلقہ مضامین

  • یہ بھی میری ہی جنگ ہے
  • جنگ مذاق نہیں‘ ہمارا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام اپنی حفاظت کے لیے ہے‘ اسحاق ڈار
  • کوئی فرق نہیں
  • ایران کے ہاتھ باندھنے کی تیاریاں
  • باتیں علی امین گنڈا پور کی
  • اسرائیل اپنے اقدامات سے اپنا وجود خطرے میں ڈال رہا ہے، رجب طیب اردوان
  • امریکا امن پسند یا جنگ پسند
  • پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کیوں چھوڑی؟ گیری کرسٹن نے لب کشائی کردی
  • خارجی بیٹے سے لاتعلقی کا اعلان، فوج اسے مار دے مجھے کوئی اعتراض نہیں: والد
  • چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے