کیا آپ جانتے ہیں، بجلی کی کڑک سورج سے 5 گُنا زیادہ گرم ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
جی ہاں، یہ حقیقت ہے کہ بجلی کی کڑک چند لمحوں کے لیے سورج کی سطح سے بھی 5 گنا زیادہ گرم ہو سکتی ہے!
بجلی کی کڑک یا آسمانی بجلی کا درجہ حرارت تقریباً 30,000° ڈگری تک پہنچ سکتی ہے جبکہ سورج کی سطح جسے photosphere کہا جاتا ہے، کا درجہ حرارت تقریباً 5,500 ڈگری ہوتا ہے۔ یعنی بجلی کی کڑک سورج کی سطح سے تقریباً 5 سے 6 گنا زیادہ گرم ہو سکتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اصل میں بجلی ایک طاقتور برقی مخروج ہے جو بادلوں اور زمین یا بادلوں کے درمیان ہوتا ہے۔
جب یہ خارج ہوتا ہے تو ہوا میں موجود گیسیں (خصوصاً نائٹروجن اور آکسیجن) تیزی سے ionize ہو جاتی ہیں جس سے شدید گرمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ گرمی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہوا لمحاتی طور پر پلازما میں تبدیل ہو جاتی ہے جو روشنی اور گرج پیدا کرتی ہے۔
دلچسپ بات:
یہ درجہ حرارت صرف چند مائیکرو سیکنڈز (ہزارویں سیکنڈ کے حصہ) کے لیے برقرار رہتا ہے۔ اس کا اثر آس پاس کی چیزوں کو پگھلا یا جلا بھی سکتا ہے، جیسے درخت، ریت یا عمارتیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی، روپے کو استحکام ملنے لگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں انٹربینک میں امریکی ڈالر معمولی کمی کے بعد مزید سستا ہوگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیر کے روز ڈالر ایک پیسہ کم ہوکر 281 روپے 45 پیسے پر بند ہوا، جبکہ ہفتے کے روز یہ 281 روپے 46 پیسے کی سطح پر تھا۔ بظاہر یہ تبدیلی بہت معمولی ہے، مگر ملکی معیشت کے تناظر میں زرِ مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی درآمدی اخراجات میں اضافہ کرتی ہے، کیونکہ مشینری، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی پڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور عام شہریوں کی زندگی کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیگر تمام شعبوں پر دباؤ ڈال دیتا ہے۔
دوسری جانب ڈالر کی قدر میں معمولی کمی برآمدی شعبے کے لیے مثبت ثابت ہو سکتی ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈی میں سستا کرتی ہے، جس سے ٹیکسٹائل، زراعت اور چمڑے کی صنعتوں کو زیادہ آرڈرز ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
تاہم، یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ڈالر میں لیے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ روپے درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں استحکام برقرار رکھنا حکومت اور اسٹیٹ بینک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔