سندھ بلڈنگ، گلشن اقبال اسکیم 24میں ناجائزتعمیرات، ڈی جی خاموش
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
ڈائریکٹر آصف رضوی، ڈپٹی ریاض جاکھرو ،بلڈنگ انسپکٹر عابد شاہ تعمیرات میں ملوث
گلشن اقبال 13D 2پلاٹ نمبر A 30اور B 96پر دکانیں تعمیر ،انفراسٹرکچر تباہ
ڈی جی اسحاق کھوڑو سے موقف لینے کے لیے رابطے کی کوشش ، وہ دستیاب نہ ہو سکے
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو نے بدعنوان افسران کو شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔ اخبارات اور شہریوں کی جانب سے جاری غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کی جانے والی شکایات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے جاری تعمیرات پر مکمل چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بدعنوان ڈائریکٹر آصف رضوی نے ڈپٹی ریاض جاکھرو بلڈنگ انسپکٹر عابد شاہ کو غیر قانونی دھندوں سے لین دین اور بنا نقشے اور منظوری اور غیر قانونی تعمیرات کو بلا روک ٹوک تکمیل تک پہنچانے کا ذمہ سونپ رکھا ہے جنہوں نے ملکی محصولات کو بھاری نقصان پہنچا کر بغیر نقشے اور منظوری اسکیم 24 میں تعمیرات شروع کروا رکھی ہیں۔ شہر کے دیگر علاقوں کی طرح غیر قانونی تعمیرات سے گلشن اقبال میں بھی بنیادی مسائل پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں۔جس پر علاقہ مکین سراپا احتجاج ہیں ۔جرأت سروے کے مطابق اس وقت بھی گلشن اقبال کے علاقے 13 D 2میں پلاٹ نمبر A30اور B 96 رہائشی پلاٹوں پر تجارتی مقاصد کے لئے دکانیں تعمیر کرنے کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔شہر میں جاری ان جائز تعمیرات پر موقف لینے کے لئے ڈی جی اسحاق کھوڑو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ دستیاب نہ ہو سکے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: گلشن اقبال
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔