صحافت کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے، سینیٹر روبینہ خالد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آباد (ویب ڈیسک) بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر صحافی برادری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافت کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے، اور آزادی اظہار ہر مہذب و جمہوری معاشرے کی بنیاد اور انسان کا بنیادی حق ہے۔
اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اور اس موقع پر ہم ان بے شمار صحافیوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے قلم کی حرمت کے لیے جانیں تک قربان کر دیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا صحافتی پس منظر سنسرشپ، پابندیوں اور تشدد جیسے ناخوشگوار واقعات سے بھرا ہوا ہے، لیکن ہمیں اظہار رائے کے بنیادی آئینی و قانونی حق پر کامل یقین ہے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ آزاد اور ذمہ دار صحافت کے فروغ کے لیے ریاست کو تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ صحافی آزاد ماحول میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کی فکری و قلمی آزادی کسی بھی زندہ قوم کی پہچان ہوتی ہے، اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ان کے حقوق اور دفاع میں ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: صحافت کے
پڑھیں:
بدلتے ڈیجیٹل منظرنامے میں آزادی صحافت کی اہمیت میں اضافہ، وولکر ترک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ تنازعات، موسمیاتی ابتری، بڑھتی ہوئی تقسیم اور تیزی سے تبدیل ہوتے ڈیجیٹل منظرنامے کے باعث آزادی صحافت کی اہمیت کہیں بڑھ گئی ہے جسے تحفظ دینے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔
آزادی صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ لوگوں کو اپنے اردگرد کے حالات سے آگاہ رہنے اور انہیں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور تنقیدی سوچ و مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تاہم، دور حاضر میں صحافت کو سنسرشپ سمیت کئی طرح کے خطرات درپیش ہیں جن میں مصنوعی ذہانت نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ Tweet URLہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ یہ دن سبھی کے لیے آزادی صحافت کے حوالے سے نئی راہ متعین کرنے کے عزم کا موقع ہے اور اس کا آغاز حکومتوں سے ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
انہیں یقینی بنانا ہو گا کہ صحافی حملوں، نفرت پر مبنی مہمات اور نگرانی سے محفوظ رہیں اور انہیں کوئی جسمانی و قانونی گزند نہ پہنچے۔صحافیوں پر بڑھتا جبروولکر ترک نے اپنے پیغام میں کہا ہےکہ آزاد اور غیرجانبدار صحافت غلط اور گمراہ کن اطلاعات کے خلاف بہترین تریاق ہے لیکن آج دنیا کے ہر خطے میں صحافتی آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔
ریاستیں صحافیوں کو ان کے کام کی بنا پر ہراساں اور گرفتار کرتی ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات کے شکار بعض علاقوں میں متحارب فریقین اطلاعات تک صحافیوں کی رسائی کو محدود یا سرے سے ہی ختم کر دیتے ہیں۔
رواں سال جنوری سے اب تک صحافت سے تعلق رکھنے والے کم از کم 20 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ ایسے واقعات کے ذمہ دار عموماً قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
دنیا میں صحافیوں کی ہلاکتوں کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔مصنوعی ذہانت: فوائد اور خطراتہائی کمشنر نے کہا ہے کہ رواں سال یہ دن اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ صحافت پر جبر بڑھ رہا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اطلاعات کی تیاری، تقسیم اور ان سے کام لینے کے عمل کو پوری طرح تبدیل کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی صحافیوں کے لیے ایک مفید ذریعہ ہو سکتی ہے لیکن اس سے آزادی صحافت کو سنگین خطرات بھی لاحق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عموماً ہمارے سامنے آنے والی اطلاعات کے پیچھے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم ہوتے ہیں جو ہماری آراء اور حقائق کے حوالے سے ہمارے تصورات کو متشکل کرتے ہیں۔ سیاست دان مصنوعی ذہانت کو غلط اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے اور اس طرح اپنے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ریاستیں بھی مصنوعی ذہانت کے آلات کو صحافیوں اور ان کے خبری ذرائع کی نگرانی کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اس طرح ان کے نجی اخفا کے حق کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس سے دنیا بھر میں صحافتی کارکنوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو رہی ہیں جبکہ خواتین صحافیوں کے لیے یہ مسائل اور بھی زیادہ ہیں۔ٹیکنالوجی کی طاقت کا ارتکازہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ چند کاروباری اداروں اور افراد کا مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تقریباً مکمل کنٹرول ہے اور اس طرح وہ عالمگیر صحافتی منظرنامے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
اس دن پر اپنے پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی مصنوعی ذہانت کے پیش کردہ مواقع اور اس سے لاحق خدشات کو واضح کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ متعصبانہ الگورتھم، کھلے جھوٹ اور نفرت پر مبنی اظہار اطلاعاتی شاہراہ پر بارودی سرنگوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ درست، قابل تصدیق اور حقائق پر مبنی اطلاعات ہی انہیں ناکارہ بنانے کا بہترین ذرائع ہیں۔انہوں نے اس معاملے میں گزشتہ برس رکن ممالک کے منظور کردہ عالمی ڈیجیٹل معاہدے کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس میں ڈیجیٹل دنیا میں اطلاعاتی دیانت، رواداری اور احترام کو فروغ دینے کی خاطر بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنے کے ٹھوس اقدامات کا وعدہ بھی شامل ہے۔
شفافیت اور قانون سازی کی ضرورتہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے استعمال، انہیں منظم اور پیش کرنے اور الگورتھم کی تیاری کے حوالے سے مزید بڑے پیمانے پر شفافیت بہت ضروری ہے۔ اطلاعاتی اداروں کی ملکیت کے حوالے سے قانون سازی کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ یہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے بڑے پلیٹ فارمز کا احاطہ بھی کریں اور ان کے ذریعے ذرائع ابلاغ کے متنوع منظرنامے کو فروغ ملے اور اس طرح آزاد صحافت کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
وولکر ترک نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اہم کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کا دفتر اور اقوام متحدہ کا تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارہ (یونیسکو) ان کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی سے صحافیوں اور سول سوسائٹی کو لاحق خطرات کا درست اندازہ لگانے کے لیے رہنمائی پیش کر رہے ہیں۔
انہوں ںے کہا ہے کہ آزاد، غیرجانبدار اور متنوع صحافت معاشروں میں پائی جانے والی تقسیم کو پاٹنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اسی لیے سبھی کو صحافت کے تحفظ اور ترقی کے لیے ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔