بدلتے ڈیجیٹل منظرنامے میں آزادی صحافت کی اہمیت میں اضافہ، وولکر ترک
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ تنازعات، موسمیاتی ابتری، بڑھتی ہوئی تقسیم اور تیزی سے تبدیل ہوتے ڈیجیٹل منظرنامے کے باعث آزادی صحافت کی اہمیت کہیں بڑھ گئی ہے جسے تحفظ دینے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔
آزادی صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ لوگوں کو اپنے اردگرد کے حالات سے آگاہ رہنے اور انہیں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور تنقیدی سوچ و مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تاہم، دور حاضر میں صحافت کو سنسرشپ سمیت کئی طرح کے خطرات درپیش ہیں جن میں مصنوعی ذہانت نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ Tweet URLہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ یہ دن سبھی کے لیے آزادی صحافت کے حوالے سے نئی راہ متعین کرنے کے عزم کا موقع ہے اور اس کا آغاز حکومتوں سے ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
انہیں یقینی بنانا ہو گا کہ صحافی حملوں، نفرت پر مبنی مہمات اور نگرانی سے محفوظ رہیں اور انہیں کوئی جسمانی و قانونی گزند نہ پہنچے۔صحافیوں پر بڑھتا جبروولکر ترک نے اپنے پیغام میں کہا ہےکہ آزاد اور غیرجانبدار صحافت غلط اور گمراہ کن اطلاعات کے خلاف بہترین تریاق ہے لیکن آج دنیا کے ہر خطے میں صحافتی آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔
ریاستیں صحافیوں کو ان کے کام کی بنا پر ہراساں اور گرفتار کرتی ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات کے شکار بعض علاقوں میں متحارب فریقین اطلاعات تک صحافیوں کی رسائی کو محدود یا سرے سے ہی ختم کر دیتے ہیں۔
رواں سال جنوری سے اب تک صحافت سے تعلق رکھنے والے کم از کم 20 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ ایسے واقعات کے ذمہ دار عموماً قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
دنیا میں صحافیوں کی ہلاکتوں کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔مصنوعی ذہانت: فوائد اور خطراتہائی کمشنر نے کہا ہے کہ رواں سال یہ دن اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ صحافت پر جبر بڑھ رہا ہے جبکہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اطلاعات کی تیاری، تقسیم اور ان سے کام لینے کے عمل کو پوری طرح تبدیل کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی صحافیوں کے لیے ایک مفید ذریعہ ہو سکتی ہے لیکن اس سے آزادی صحافت کو سنگین خطرات بھی لاحق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عموماً ہمارے سامنے آنے والی اطلاعات کے پیچھے مصنوعی ذہانت کے الگورتھم ہوتے ہیں جو ہماری آراء اور حقائق کے حوالے سے ہمارے تصورات کو متشکل کرتے ہیں۔ سیاست دان مصنوعی ذہانت کو غلط اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے اور اس طرح اپنے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ریاستیں بھی مصنوعی ذہانت کے آلات کو صحافیوں اور ان کے خبری ذرائع کی نگرانی کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اس طرح ان کے نجی اخفا کے حق کو پامال کیا جاتا ہے۔
اس سے دنیا بھر میں صحافتی کارکنوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو رہی ہیں جبکہ خواتین صحافیوں کے لیے یہ مسائل اور بھی زیادہ ہیں۔ٹیکنالوجی کی طاقت کا ارتکازہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ چند کاروباری اداروں اور افراد کا مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تقریباً مکمل کنٹرول ہے اور اس طرح وہ عالمگیر صحافتی منظرنامے پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
اس دن پر اپنے پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی مصنوعی ذہانت کے پیش کردہ مواقع اور اس سے لاحق خدشات کو واضح کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ متعصبانہ الگورتھم، کھلے جھوٹ اور نفرت پر مبنی اظہار اطلاعاتی شاہراہ پر بارودی سرنگوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ درست، قابل تصدیق اور حقائق پر مبنی اطلاعات ہی انہیں ناکارہ بنانے کا بہترین ذرائع ہیں۔انہوں نے اس معاملے میں گزشتہ برس رکن ممالک کے منظور کردہ عالمی ڈیجیٹل معاہدے کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس میں ڈیجیٹل دنیا میں اطلاعاتی دیانت، رواداری اور احترام کو فروغ دینے کی خاطر بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنے کے ٹھوس اقدامات کا وعدہ بھی شامل ہے۔
شفافیت اور قانون سازی کی ضرورتہائی کمشنر کا کہنا ہے کہ اطلاعات کے استعمال، انہیں منظم اور پیش کرنے اور الگورتھم کی تیاری کے حوالے سے مزید بڑے پیمانے پر شفافیت بہت ضروری ہے۔ اطلاعاتی اداروں کی ملکیت کے حوالے سے قانون سازی کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ یہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے بڑے پلیٹ فارمز کا احاطہ بھی کریں اور ان کے ذریعے ذرائع ابلاغ کے متنوع منظرنامے کو فروغ ملے اور اس طرح آزاد صحافت کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
وولکر ترک نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اہم کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کا دفتر اور اقوام متحدہ کا تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارہ (یونیسکو) ان کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی سے صحافیوں اور سول سوسائٹی کو لاحق خطرات کا درست اندازہ لگانے کے لیے رہنمائی پیش کر رہے ہیں۔
انہوں ںے کہا ہے کہ آزاد، غیرجانبدار اور متنوع صحافت معاشروں میں پائی جانے والی تقسیم کو پاٹنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اسی لیے سبھی کو صحافت کے تحفظ اور ترقی کے لیے ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت کا کہنا ہے کہ آزادی صحافت کے حوالے سے اور اس طرح کہا ہے کہ اور ان کے لیے
پڑھیں:
آزاد کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟
افتخار گیلانی
آزاد کشمیر کے پہلے ناظم اطلاعات کی کہانی، جن کے بارے میں وقتا فوقتا خبریں چھپتی ہیں کہ انہوں نے ‘آزاد کشمیر ‘ کا پرچم ڈیزائن کیا۔گنوپتی کیشوا ریڈی، جو آزاد کشمیر کے ناظم اطلاعات یعنی ڈائریکٹر انفارمیشن اور پبلک ریلیشن تھے اور جنہیں پاکستان میں ہندوستان کا پہلا انڈر کور جاسوس بھی سمجھا جاتا ہے ۔
ہندوستان کے اقتصادی مرکز بمبئی میں مئی 1948کی ایک حبس زدہ دوپہر ہفتہ وار انگریزی اخبار بلٹز کے دفتر میں اس کے ایڈیٹر رستم خورشیدجی کرانجیا اسٹوریز کی نوک پلک درست کررہے تھے کہ ان کی میز پر رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دوسری طرف نئی دہلی سے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پرائیوٹ سکریٹری ایم او متھائی لائن پر تھے ۔انہوں نے کرانجیا سے پوچھا کہ کیا ان کے اخبار کے ایڈیشن میں کسی اسکوپ کی گنجائش ہے ؟ نیکی اور پوچھ پوچھ، اسکوپ وہ بھی وزیر اعظم کے دفتر سے ۔ٹیبولائڈ فارمٹ کا بلٹز اخبار برطانیہ کے ڈیلی میل کی کاپی تھا ۔ بڑے فونٹ میں چیختی ، چنگھاڑتی موٹی سرخیوں کے ساتھ یہ اخبار تفتیشی اور ہیجان انگیز خبروں کے لیے جانا جاتا تھا۔متھائی نے کہاکل ایک نوجوان ان سے ملنے بمبئی پہنچ رہا ہے ۔ اس کے پاس ایسی خبر ہے ، جو تہلکہ مچا سکتی ہے ۔ متھائی نے کہا کہ خود وزیر اعظم نے ہی بلٹز کا نام تجویز کرکے اس اسٹوری کو پہلے صفحہ پر شائع کروانے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ یہ قومی مفاد میں ہوگا ۔ اگلے روز کرانجیا جب دفتر پہنچے تو بریف کیس ہاتھ میں لیے سفید سفاری سوٹ میں ملبوس، دبلی پتلی قامت کا ایک نوجوان ان کے کمرے کے باہر ہی انتظار کر رہا تھا ۔ نووارد نے اپنا تعارف بطور گنوپتی کیشوا ریڈی کے کروایا اور بتایا کہ وہ ابھی چند روز قبل تک آزادکشمیر کا ناظم اطلاعات یعنی ڈائریکٹر انفارمیشن اور پبلک ریلیشن تھا۔اس لیے ریڈی کو ہندوستان کا پاکستان میں پہلا انڈر کور جاسوس بھی سمجھا جاتا ہے ۔
جس نے پاکستانی کی اعلیٰ لیڈرشپ تک رسائی حاصل کرکے نہایت ہی اہم معلومات حاصل کرکے ان کو ہندوستان تک پہنچایا ۔ کانگریس حکومت میں وزیر اور صنعتکار سبھی رام ریڈی نے جب برسو ں قبل جی کے ریڈی کے مضامین پرمشتمل ایک کتاب کا اجرا کیا، تو اس میں کرانجیا کے تاثرات بھی تھے ۔انہوں نے لکھا تھاکہ بلٹز اخبار پنڈت جواہر لال نہرو کا کئی بیش بہا تحفوں کے لیے شکر گزار ہے ، لیکن ان سب میں سب سے قیمتی عطیہ جی کے ریڈی کی صورت میں ان کو ملا ۔ اسکوپ 1947-48کی کشمیر جنگ سے متعلق تھا ۔ چونکہ اعلیٰ عہدہ پر رہتے ہوئے وہ اس جنگ کے پاکستانی سائڈ سے عینی شاہد تھے ، اس لیے ان کی انفارمیشن تہلکہ خیز تھی ۔چند سال قبل آزاد کشمیر سے کسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے دعویٰ کیا تھا کہ ‘آزاد کشمیر’ کا پرچم ایک کشمیری پنڈت جی کے ریڈی نے ڈیزائن کیا ہے ۔ چونکہ ریڈی کشمیر ی پنڈت ہو ہی نہیں سکتا ہے ، لہٰذا میں نے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور اس کو کسی روایتی خود ساختہ قوم پرست کے ذہن کی بہکی ہوئی رو سمجھا۔مگر حال ہی میں اسی خطے سے تعلق رکھنے والے معتبر صحافی خالد گردیزی نے جب اسی طرح کی ایک پوسٹ شائع کی اور اس انفارمیشن کو کسی سینئر بیوروکریٹ سے منسوب کیا، تو مجھے تجسس ہوا۔
معلوم ہوا کہ جی کے ریڈی آندھرا پردیش کے نلور ضلع میں 1923کو پیدا ہوئے ۔ وہ تیلگو نسل کے تھے ۔ ان کا انتقال 1987میں ہوا اور کافی عرصے تک وہ اخبار دی ہندو کے ساتھ وابستہ رہے ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ میرے کئی سینئرز پریم شنکر جھا، شاستری راما چندر ن وغیرہ نے ان کے ساتھ کام کیا ہے اور ان کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ان کی وساطت سے اور دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ ریڈی جموں و کشمیر میں انگریزی کے پہلے اخبار ہفت روزہ کشمیر ٹائمز کے مدیر رہ چکے ہیں ۔ (موجود ہ کشمیر ٹائمز کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ) ۔ یہ اخبار سرینگر سے 26 نومبر 1934سے شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔گو کہ اس کی بنیاد بلدیو پرشاد شرما اور پنڈت گوشہ لال کول نے رکھی تھی، بعض دستاویزات کے مطابق بمبئی کے ایک کانگریسی لیڈر سردار عبدالرحمن مٹھا نے اس کو بعد میں خریدا ۔ کشمیر میں قیام کے دوران انہوں نے جی کے ریڈی کو اپنا پرائیویٹ سکریٹری مقرر کیا تھا۔ریڈ ی اس وقت سرینگر میں ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا یعنی اے پی آئی کے نمائندے بھی تھے ۔ دونوں 1945سے اگست1947تک کشمیر کے وزیر اعظم رہے رام چندر کاک کے قریبی تھے ، جس کی وجہ سے ان کی نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے ساتھ ناچاقی ہوگئی تھی ۔وہ شیخ عبداللہ کی طرف سے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف شروع کی گئی کشمیر چھوڑو تحریک کے مخالفین میں سے تھے ۔ جب کاک کو برطرف کرکے مہر چند مہاجن کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا، تو ریڈی اور مٹھا کو 15 اکتوبر 1947کوکشمیر سے نکال دیا گیا۔ دومیل پوسٹ کے قریب اُن کی تلاشی لی گئی، اور الزام لگایا گیا کہ ریڈی کے سامان سے سازش سے متعلق کچھ قابلِ اعتراض کاغذات برآمد ہوئے ۔دونوں افراد کو واپس لا کر فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعے سے پہلے ، پریس کی دنیا میں دو اور معروف نام پریم ناتھ بزاز اور پریم ناتھ کانہ کو بھی سازش میں ملوث قرار دے کر گرفتار کیا گیا تھا۔ان پر الزام تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم کاک کی ایماء پر سازش میں شریک تھے ۔ اخبارات کی دنیا اس دور میں بھی دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی ۔ مقامی اخباروں نے بھی مٹھا اور ریڈی کے خلاف مہم چلائی اور ان کی ملک بدری کا مطالبہ کردیا۔
بلٹز میں جو ان کی رپورٹ شائع ہوئی، اس میں بتایا گیا کہ سرحد پار سے آنے والے قبائلی حملہ آوروں کی قیادت ایک فرضی ‘جنرل طارق’ کر رہا تھا، جو دراصل ‘بریگیڈیئر رسل ہیٹ’ تھا ۔ امریکی ادارہ ‘آفس آف اسٹریٹجک سروسز(او ایس ایس)’ کا اعلیٰ افسر، جو آج کی سی آئی اے کا پیش رو ادارہ تھا، نے ایک قبائلی سردار کا بھیس اپنایا ہوا تھا۔بعد ازاں یہی مواد اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں ہندوستان کی جانب سے پاکستان اور امریکہ کی خفیہ شراکت داری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔لیکن اس سے بھی بڑی خبر جی کے ریڈی کی پاکستان سے فرار کی تھی، جہاں وہ’ آزاد کشمیر’ حکومت کے تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔
ہندوستان واپس آنے کے بعد ریڈی نے وزیر اعظم نہرو سے نئی دہلی میں ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی براہ راست مداخلت اور امریکی معاونت پر مبنی دستاویزات پیش کیے ۔کرانجیا کے بقول بلٹز میں انہوں نے ریڈی کی تحریر کردہ سلسلہ وار رپورٹس ، نقشوں اور تصاویر کے ساتھ شائع کیں ، جنہیں بعد میں وینو گوپال کرشن مینن نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے خلاف اپنے مقدمہ میں پیش کیا ۔ریڈی رقمطراز ہیں کہ کشمیر چھوڑو تحریک کی مخالفت کی وجہ سے وہ شیخ عبداللہ کا نشانہ بن گئے تھے ۔ سری نگر میں اے پی آئی کا نمائندہ لاہور دفتر سے منسلک ہوتا تھا، جہاں ان کے نام سے ریاستی حکومت کے خلاف کئی اسٹوریز ریلیز کی گئیں ، جس کی وجہ سے وزیر اعظم ہری چند مہاجن بھی ان کے دشمن ہو گئے تھے ۔انہوں نے کئی بار وزیر اعظم سے استدعا کی کہ انہوں نے ایسی کوئی رپورٹ فائل نہیں کی ہے اور اس کے لیے سرینگر کے ٹیلی گراف دفتر سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ مگر وہ کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھے اور پولیس نے ان کو ریاست بد ر کر دیا۔اکتوبر کے وسط میں انہوں نے امرتسر میں اے پی آئی کے منیجر رائے بہادر رتن لال سیٹھی سے جب اپنی اجرت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ان کو لاہور جاکر وہاں رابطہ افسر زاہد عمر سے ملنے کی ہدایت دی ۔ وہاں جانے کے لیے ایک جیپ کا بھی انتظام کیا۔لاہور میں میاں افتخار الدین نے ان کا استقبال کیا اور ان کو گورنر فرانسس مودے سے ملاقات کرنے لے گئے ۔ ان کو پاکستان میں بطور شہر ی رہنے کی دعوت دی گئی ۔ ان ملاقاتوں کے دوران ان کو معلوم ہوگیا کہ 22اکتوبر کو کشمیر پر کوہلہ اور رام کوٹ کی طرف سے حملہ ہونے والا ہے اور ڈوگرہ فوج کے مسلم سپاہی بغاوت کر رہے ہیں۔ان کو بتایا گیا کہ ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آرہا ہے اور ان کو اس حکومت میں اقلیتی امور کی وزارت سنبھالنے کے لیے کہا گیا ۔ ایک غیر کشمیری کیسے وزارت میں شامل ہو سکتا تھا، یہ سمجھ سے باہر ہے ۔ ریڈی کہتے ہیں کہ لاہور کے اے پی آئی کے دفتر نے ان کو عملاً پاکستانی حکومت کے حوالے کر دیا تھا ۔اُسی رات میری اپنے میزبان، ملک تاج الدین، منیجر اے پی آئی سے طویل گفتگو ہوئی، جنہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ اگلے دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ راولپنڈی سے ایک ٹرنک کال آئی ۔ چونکہ دفتر میں مجھ سے سینئر کوئی موجود نہ تھا، میں نے کال سنبھالی ۔ دوسری جانب لیفٹیننٹ کرنل علوی، پبلک ریلیشنز آفیسر، جنرل ہیڈکوارٹرز، پاکستان آرمی تھے ۔ انہوں نے اطلاع دی کہ رامکوٹ کی جانب سے اس رات حملہ ہونا ہے ، لیکن خبردار کیا کہ یہ خبر پاکستان سے جاری نہ کی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ خبر سری نگر سے دہلی پہنچے اور وہاں سے پاکستان کو موصول ہو، تو پھر آزاد کشمیرکی عبوری حکومت کے نام سے ، پلندری کی ڈیٹ لائن کے ساتھ، روزانہ اعلامیے جاری کیے جائیں گے ۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ یہ اعلامیے وہ راولپنڈی سے ہر رات نو بجے ریڈیو نیوز سے قبل فون کے ذریعے بھیجیں گے ۔ اگلے دن دہلی سے قبائلی حملے کی فلیش آئی، اور اس کے بعد بیانات اور اعلانات آناشروع ہوگئے ۔ریڈی لکھتے ہیں کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعظم خان عبدالقیوم خان ان کے پرانے شناسائی تھے ۔ ان کی استدعا پر انہوں نے آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کے لیے لاہور میں کام کرنا شروع کردیا ۔مگر چند روز بعد ان کو خواجہ عبدالرحیم کی معیت میں راولپنڈی لے جایا گیا، جہاں سردار ابراہیم خا ن سے متعارف کروایا گیا۔ ان کو ‘آزاد کشمیر’ کا پہلا ناظم اطلاعات مقرر کیا گیا ۔ تین ما ہ بعد پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کو ان کے ہندوستان فرار ہونے کی تیاری کی سن گن مل گئی۔بقول ا ن کے کسی غیر ملکی نامہ نگار نے اس کی اطلاع پاکستانی انٹیلی جنس کو فراہم کی تھی ۔ اس کے بعد خواجہ عبد الرحیم نے نہ صرف ان کو برطرف کر دیا ، بلکہ چند قبائلیوں کو بتایا کہ یہ شخص ہندو اور نہرو کا ایجنٹ ہے ۔ یعنی ان کو ریڈی کے قتل کی ترغیب دی گئی ۔’ میں کسی طرح پشاور بھاگ گیا اور خان عبد القیوم سے احتجاج کیا کہ یہ پاکستان حکام کی انتہا درجے کی ناشکری ہے کہ اتنے مہینے میرا استحصال کرنے کے بعد اب وہ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں ۔ خان نے ان کو تسلی دی اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سرلے لی۔ خان نے ان سے کہا کہ اگر وہ پشاور میں پولیس کی نگرانی میں رہیں ، تو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ پاکستانی حکومت کو اندیشہ ہے کہ وہ ہندوستان جا کر سارے راز فاش نہ کردیں ، جن کو ہندوستان اقوام متحدہ میں بطور ہتھیار استعمال کرسکے ۔تب تک ان کی جگہ پر’آزاد کشمیر ‘ میں ڈاکٹرتاثیر اور حفیظ جالندھری کو محکمہ تعلقات عامہ میں تعینات کیا گیا تھا مگر ایک ماہ بعد ہی ان کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے برخاست کر دیا گیا ۔اسی دوران سردار ابراہیم ایبٹ آبا کے د ورے پر آگئے تھے اور خان عبدالقیوم خان کو آمادہ کروایا کہ وہ ریڈی کو دوبارہ محکمہ تعلقات عامہ کو سنبھالنے کے لیے تیار کریں ۔انہوں نے مجھ سے سابقہ حالات پر معذرت کی اور التجا کی کہ میں دوبارہ یہ کام سنبھال لوں۔ میں نے سوچا کہ یہ میرے لیے فرار کا سنہری موقع ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ میں یہ کام دوبارہ سنبھالنے کو تیار ہوں ، البتہ میری درخواست ہے کہ مجھے کراچی بھیجا جائے تاکہ وہاں الطاف حسین اور جواد سے بیرونی تشہیر کے معاملات پر تفصیل سے بات کر سکوں ۔مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ دونوں آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کی کارکرگی سے مایوس ہیں ۔
سردار ابراہیم نے اتفاق کیا، اور 18 مئی کو ریڈی کو ا یئر فورس کے طیارے میں ایئر کموڈور جنجوعہ کے ساتھ پشاور سے کراچی بھیج دیا گیا ۔ کراچی پہنچتے ہی وہ فوراً مکلاؤڈ روڈ پر ‘ایئر سروسز آف انڈیا’ کے دفتر گئے ، جہاں معلوم ہوا کہ دو گھنٹے بعد ہی جام نگر کے لیے پرواز روانہ ہونے والی ہے ۔انہوں نے ٹکٹ کسی اور نام سے بک کر لیا، تاکہ کراچی ائیر پورٹ پر پولیس کو چکمہ دے سکیں ۔ اسی طرح وہ جام نگر کے راستے 20 مئی کو بمبئی پہنچ کر پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر دہلی روانہ ہوکر وہاں وزیر اعظم نہرو سے ملاقات کی درخواست دی ، جو فوراً ہی منظور ہو گئی۔
یہ کہانی تھی، آزاد کشمیر کے پہلے ناظم اطلاعات کی، جن کے بارے میں وقتا فوقتا خبریں چھپتی ہیں کہ انہوں نے ‘آزاد کشمیر ‘کا پرچم ڈیزائن کیا ۔ اس کالم میں اتنا ہی سمیٹا جاسکتا ہے ۔ باقی آئندہ پھر کبھی ۔
٭٭٭