پی ٹی آئی کا عارف علوی کو شوکاز نوٹس؟ علی محمد خان نے بڑا دعویٰ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ سابق صدر عارف علوی نے اپنی صدارتی مدت کے کے دوران متنازع کنالز کی منظوری دی تھی تو ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔
تفصیلا ت کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دو روز قبل یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ متنازع نہریں بنانے کا فیصلہ نگران حکومت کے دوران لیا گیا تھا اور اس دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی صدر کے عہدے پر فائز تھے۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ اگر بلاول کے الزامات درست ثابت ہوئے تو پارٹی سابق صدر علوی سے اس بارے میں سوال کرے گی۔
ان کا کہنا تھا ’اگر بلاول بھٹو زرداری کے پاس اپنے دعوے کی کوئی شہادت ہے تو انہیں وہ فراہم کرنی چاہیے، جس کے بعد پارٹی عارف علوی کو شو کاز نوٹس جاری کرے گی اور ان سے وضاحت طلب کرے گی‘۔
علی محمد خان نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ منصوبہ صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں منظور ہوا تو زرداری نے اسے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے معاملات میں ہم سب ایک ہیں، جب بات پاکستان کے دفاع کی ہو، تو حکومت کے خلاف کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت متعدد جماعتوں کا اجلاس بلاتی ہے تو پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 15 فروری کو چولستان کے اس بڑے منصوبے کا افتتاح کیا تھا جس کا مقصد جنوبی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں 1.
تاہم، وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے بعد حکومت نے چولستان نہروں کے متنازع منصوبے کو فی الحال جاری نہ رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ فیصلہ کئی ماہ سے جاری احتجاج، سندھ اسمبلی کی متفقہ قرارداد، اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر خدشات کے بعد کیا گیا۔
بعد ازاں، 28 اپریل کو وزیراعظم کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔
Post Views: 1
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: علی محمد خان نے پی ٹی ا ئی عارف علوی کہ اگر
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔