Islam Times:
2025-05-04@03:36:26 GMT

مشرق سے ابھرتا ہوا سوج

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

مشرق سے ابھرتا ہوا سوج

اسلام ٹائمز: حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

اسرائیل کے قیام کے بعد سے، اسرائیل کے نصاب میں، اسرائیل کے سب سے بڑے جس دشمن کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا وہ ”ملکِ پاکستان“ تھا۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل اور پاکستان کا نظریاتی بنیادوں پر قیام اور دوسری وجہ اس نوزائیدہ مملکت پاکستان کا مشرق کے افق سے جنم لینا تھا۔ وہی مشرق جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

aسرائیل اپنے لیے، مشرق سے ابھرتی ہوئی کسی زندہ قوت کے مقابلے میں بے جان عالم عرب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہی عالم عرب جس کے بارے میں اقبال نے ہی کہا تھا کہ:
”عرب ز نغمہء شوقم ہنوز بی خبر یست“

گویا اہل عرب میں وہ ذوق ہی نہیں تھا جو شاعر مشرق کے انقلابی اور آفاقی کلام کو اپنے متخیلہ کی زینت بنا سکتا۔ اسرائیل کی پاکستان کے حوالے سے تشویش میں اس وقت اور اضافہ ہوا، جب پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا۔ اگرچہ پاکستان نے یہ صلاحیت اپنے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں ”نیوکلیئر ڈیٹرنس“ قائم کرنے کیلئے حاصل کی تھی، لیکن ایک اسلامی ملک کے ہاتھوں میں ایٹم بم کا محض آجانا ہی ”گریٹر اسرائیل“ کا خواب دیکھنے والے صیہونیوں کے خوابوں کے محل پر ایٹم بم گرنے کے مترادف تھا۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی خوب جانتے تھے کہ جس ملک کے چند ہوا بازوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اگر یہ ملک اسرائیل کے خلاف کچھ بڑا کرنے پر آمادہ ہو گیا تو اسرائیل کا کچھ نہیں بچے گا۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کے ایک سابق آرمی چیف اسلم بیگ نے ایران کو، امریکا کو اس کے گھٹنوں پر لانے کا آسان حل یہ بتایا تھا کہ اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے لیا جائے۔ گویا ہر پاکستانی کے دل میں بیت المقدس سے محبت اور غاصب صیہونی حکومت سے نفرت کا معیار بہت بلند ہے۔ اگرچہ امریکا کی آشیرباد سے پاکستانی پر مسلط حکمرانوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ عرب حکمرانوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اس ضمن میں کئی کوششیں بھی کی گئی ہیں، لیکن حالات نے انہیں اس قسم کی کسی خواہش پر عمل درآمد نہیں کرنے دیا۔

ہمارے حکمرانوں کے اسرائیل کے حوالے سے اس قسم کے خیرسگالی کے جذبات کے باوجود اسرائیل نے کئی بار انفرادی طور پر اور بھارت سے مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو عراق کی طرز پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لمحہ موجود میں پاکستان و ہندوستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ جنگ کی خبروں کے درمیان ایک بار پھر اسرائیل اپنا کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔ آج کے منظرنامے میں اسرائیل جسے اپنا ”دشمن نمبر ون“ سمجھتا ہے وہ تو ایران ہی ہے۔ ایران بھی عالم مشرق کا وہ ملک ہے جو عملی میدان میں اسرائیل کے خلاف صف آراء ہے اور جس نے اسرائیل کے خلاف اپنے جہاد کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اس حفاظتی حصار کو توڑ دیا ہے، جو اس نے اپنی حفاظت کی غرض سے اپنے اردگرد قائم کر رکھا تھا۔ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل اسی ایران کے حوالے سے اپنے ایک الہامی شعر میں کہ دیا تھا کہ:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے

آج اسلامی جمہوری ایران کے ہاتھوں کرہء ارض کی تقدیر بدلنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ آج ایران نے دنیا کے نقشے پر اپنا ایک چھوٹا سا وجود رکھنے والے یمن کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی ”سونڈ“ میں دم کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور اسرائیل کے خاتمے کیلئے ایران کے تشکیل کردہ محور مقاومت کے مابین لڑی جانے والی جنگ مرحلہ بہ مرحلہ شدت اختیار کر رہی ہے۔ اگر اس معرکے میں کسی کی کمی محسوس کی جا رہی ہے تو وہ پاکستان کی کمی ہے، جو لگتا ہے بھارت کی کسی بڑی شرارت سے پوری ہو جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے برے وقتوں کا ساتھی ہمیشہ ایران ہی رہا ہے۔ ان جنگوں میں ایران نے ہی پاکستان کو ”لاجسٹک سپورٹ“ دی تھی۔ ایران ان جنگوں میں پاکستان کو تیل اور دوسری ضروریات کی اشیاء فراہم کرتا رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس وقت کی اخباری اطلاعات کے مطابق 65ء کی جنگ کے دوران پاکستانی زخمیوں کو خون دینے کیلئے تہران میں لائنیں لگ گئی تھیں۔ راجیو گاندھی کے دور میں جب پاکستان اور بھارت بالکل جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے، امام خمینیؒ کے اس بیان پر انڈیا حملے سے باز آیا تھا کہ ”کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ ایران پر حملہ تصور ہوگا“۔

آج بھی کشمیر کے حوالے سے ایران کے جاندار موقف کی بنا پر انڈیا کے میڈیا نے ایران پر آگ برسانا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل اور انڈیا کے مابین قربت نے ایران اور انڈیا کے مابین رقابت کو جنم دیا ہے، بلکہ اب یہ رقابت، رقابت سے زیادہ مخاصمت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس مخاصمت نے پاکستان اور ایران کی عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے۔ حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے اسرائیل کے پاکستان کی ایران کے کے مابین مشرق کے تھا کہ اور ان رہی ہے

پڑھیں:

اگلے امریکی ایرانی جوہری مذاکرات ملتوی، ٹرمپ کی نئی دھمکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے تیل خریدنے والے ہر خریدار پر پابندیوں کی دھمکی دی۔ ان کی طرف سے یہ انتباہ جمعرات کے روز ایران کے تیزی سے آگے بڑھنے والے جوہری پروگرام پر تہران اور واشنگٹں کے مابین طے شدہ مذاکرات کے ملتوی کر دیے جانے کے بعد سامنے آیا۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور

صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''ایرانی تیل یا پیٹروکیمیکل مصنوعات کی تمام خریداری ابھی بند ہو جانا چاہیے۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک یا شخص جو ایران سے یہ مصنوعات خریدے گا، وہ امریکہ کے ساتھ ''کسی بھی طرح، یا کسی بھی شکل میں کاروبار نہیں کر سکے گا۔‘‘

ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت

یہ واضح نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح کی پابندی کو کیسے نافذ کریں گے کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ایرانی تیل درآمد کرنے والے ملکوں پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

(جاری ہے)

لیکن ان کے تازہ بیان نے ایرانی تیل کے اہم خریدار ملک چین اورامریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ امریکی چینی تجارتی روابط صدر ٹرمپ کی طرف سے بھاری محصولات عائد کیے جانے کے بعد سے پہلے ہی سخت تناؤ کا شکار ہیں۔ اگلے جوہری مذاکرات ملتوی

ڈونلڈ ٹرمپ کی تازہ دھمکی اس وقت سامنے آئی جب خلیجی عرب ریاست عمان نے اعلان کیا کہ رواں ہفتے کے آخر کے لیے طے شدہ جوہری مذاکرات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں یہ اعلان عمانی وزیر خارجہ بدر ابو سعیدی نے کیا تھا۔

ابو سعیدی نے لکھا، ''لاجسٹک وجوہات کی بنا پر ہم ہفتہ تین مئی کے لیے طے شدہ امریکی ایرانی مکالمت کو عارضی طور پر دوبارہ ترتیب دے رہے ہیں۔ نئی تاریخوں کا اعلان باہمی اتفاق رائے کے بعد کیا جائے گا۔‘‘

بدر ابو سعیدی، جنہوں نے اب تک دونوں ممالک کے مابین ہونے والے تین مذاکراتی ادوار میں ثالثی کی ہے، اس التوا کی مزید وضاحت نہیں کی۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی مذاکرات کے اگلے دور کے التوا کے لیے ''لاجسٹک اور تکنیکی وجوہات‘‘ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔

التوا پر ایرانی ردعمل

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''جہاں تک ایران کا معاملہ ہے، مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے ہمارے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

‘‘

انہوں نے مزید لکھا، ''ہم ایک منصفانہ اور متوازن معاہدے کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں: جس کا مقصد پابندیوں کے خاتمے کی ضمانت دینا اور یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ہمیشہ پرامن رہے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایران کے ریاستی حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔‘‘

اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے، جو امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار کے طور پر اپنے موجودہ کردار کے ساتھ ساتھ اب قومی سلامتی کے مشیر کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رہے ہیں، اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اگر ایران جوہری بجلی گھر بنانا چاہتا ہے، تو وہ افزودہ یورینیم درآمد کر سکتا ہے۔

روبیو نے جمعرات کی رات فوکس نیوز چینل کے ایک پروگرام میں کہا، ''ایران کو صرف یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ اب وہ یورینیم کی مزید افزودگی نہ کرنے کو تیار ہے۔ یہ وہ بہترین موقع ہے، جو اسے مل رہا ہے۔‘‘

ایران اور امریکہ کے مابین لفظی جنگ

اس سے قبل جمعرات ہی کے روز ایران نے امریکہ پر ''متضاد رویے اور اشتعال انگیز بیانات‘‘ کا الزام بھی لگایا، جب واشنگٹن نے ایرانی تیل کی فروخت سے متعلق نئی پابندیاں عائد کیں اور تہران کو یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرنے کے نتائج سے خبردار کیا۔

ایرانی موزیر خارجہ عراقچی نے یہ بھی کہا کہ جوہری مذاکرات کے دوران ایران پر امریکی پابندیاں فریقین کو سفارتی طریقے سے جوہری تنازع حل کرنے میں مدد نہیں دے رہیں۔

دوسری طرف امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایران کو حوثیوں کی پشت پناہی کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔

حوثی باغیوں نے 2023ء کے اواخر سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے قریبی پانیوں میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔

ایرانی امریکی مذاکرات سے باخبر ایک ذریعے نے کہا کہ امریکہ نے روم میں ہونے والی بات چیت کے چوتھے دور میں ''کبھی بھی اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی تھی‘‘ تاہم اس ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کو توقع ہے کہ ایران کے ساتھ ''مستقبل قریب میں‘‘ مزید مذاکرات ہوں گے۔

سیاسی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے اگلے دور کا وقت اور مقام ابھی تک طے نہیں لیکن توقع ہے کہ ایسا جلد ہی ہو جائے گا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال فروری سے تہران پر ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی اپنی پالیسی بحال کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • اس بار صرف چائے نہیں بسکٹ بھی کھلائیں گے!
  • مشرق سے ابھرتا ہوا سورج
  • خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد
  • یورینیم افزودگی کے ایرانی حق پر روس کی تاکید
  • اگلے امریکی ایرانی جوہری مذاکرات ملتوی، ٹرمپ کی نئی دھمکی
  • ایران امریکا جوہری مذاکرات کا ہفتے کو ہونیوالا دور منسوخ
  • امریکا کی ایران پر نئی پابندیوں کے بعد شیڈول مذاکرات ملتوی
  • عالمی عدالت: پاکستان کی فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز، اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کی استدعا
  • بھارت کا یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، مدثر ٹیپو