Islam Times:
2025-09-18@11:01:26 GMT

مشرق سے ابھرتا ہوا سوج

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

مشرق سے ابھرتا ہوا سوج

اسلام ٹائمز: حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

اسرائیل کے قیام کے بعد سے، اسرائیل کے نصاب میں، اسرائیل کے سب سے بڑے جس دشمن کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا وہ ”ملکِ پاکستان“ تھا۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل اور پاکستان کا نظریاتی بنیادوں پر قیام اور دوسری وجہ اس نوزائیدہ مملکت پاکستان کا مشرق کے افق سے جنم لینا تھا۔ وہی مشرق جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

aسرائیل اپنے لیے، مشرق سے ابھرتی ہوئی کسی زندہ قوت کے مقابلے میں بے جان عالم عرب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہی عالم عرب جس کے بارے میں اقبال نے ہی کہا تھا کہ:
”عرب ز نغمہء شوقم ہنوز بی خبر یست“

گویا اہل عرب میں وہ ذوق ہی نہیں تھا جو شاعر مشرق کے انقلابی اور آفاقی کلام کو اپنے متخیلہ کی زینت بنا سکتا۔ اسرائیل کی پاکستان کے حوالے سے تشویش میں اس وقت اور اضافہ ہوا، جب پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا۔ اگرچہ پاکستان نے یہ صلاحیت اپنے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں ”نیوکلیئر ڈیٹرنس“ قائم کرنے کیلئے حاصل کی تھی، لیکن ایک اسلامی ملک کے ہاتھوں میں ایٹم بم کا محض آجانا ہی ”گریٹر اسرائیل“ کا خواب دیکھنے والے صیہونیوں کے خوابوں کے محل پر ایٹم بم گرنے کے مترادف تھا۔ وجہ یہ کہ اسرائیلی خوب جانتے تھے کہ جس ملک کے چند ہوا بازوں نے عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اگر یہ ملک اسرائیل کے خلاف کچھ بڑا کرنے پر آمادہ ہو گیا تو اسرائیل کا کچھ نہیں بچے گا۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کے ایک سابق آرمی چیف اسلم بیگ نے ایران کو، امریکا کو اس کے گھٹنوں پر لانے کا آسان حل یہ بتایا تھا کہ اسرائیل کو اپنے نشانے پر لے لیا جائے۔ گویا ہر پاکستانی کے دل میں بیت المقدس سے محبت اور غاصب صیہونی حکومت سے نفرت کا معیار بہت بلند ہے۔ اگرچہ امریکا کی آشیرباد سے پاکستانی پر مسلط حکمرانوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ عرب حکمرانوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اس ضمن میں کئی کوششیں بھی کی گئی ہیں، لیکن حالات نے انہیں اس قسم کی کسی خواہش پر عمل درآمد نہیں کرنے دیا۔

ہمارے حکمرانوں کے اسرائیل کے حوالے سے اس قسم کے خیرسگالی کے جذبات کے باوجود اسرائیل نے کئی بار انفرادی طور پر اور بھارت سے مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو عراق کی طرز پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لمحہ موجود میں پاکستان و ہندوستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ جنگ کی خبروں کے درمیان ایک بار پھر اسرائیل اپنا کوئی کردار ادا کرنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔ آج کے منظرنامے میں اسرائیل جسے اپنا ”دشمن نمبر ون“ سمجھتا ہے وہ تو ایران ہی ہے۔ ایران بھی عالم مشرق کا وہ ملک ہے جو عملی میدان میں اسرائیل کے خلاف صف آراء ہے اور جس نے اسرائیل کے خلاف اپنے جہاد کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اس حفاظتی حصار کو توڑ دیا ہے، جو اس نے اپنی حفاظت کی غرض سے اپنے اردگرد قائم کر رکھا تھا۔ اقبال نے تقریباً ایک صدی قبل اسی ایران کے حوالے سے اپنے ایک الہامی شعر میں کہ دیا تھا کہ:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے

آج اسلامی جمہوری ایران کے ہاتھوں کرہء ارض کی تقدیر بدلنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ آج ایران نے دنیا کے نقشے پر اپنا ایک چھوٹا سا وجود رکھنے والے یمن کے ہاتھوں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی ”سونڈ“ میں دم کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور اسرائیل کے خاتمے کیلئے ایران کے تشکیل کردہ محور مقاومت کے مابین لڑی جانے والی جنگ مرحلہ بہ مرحلہ شدت اختیار کر رہی ہے۔ اگر اس معرکے میں کسی کی کمی محسوس کی جا رہی ہے تو وہ پاکستان کی کمی ہے، جو لگتا ہے بھارت کی کسی بڑی شرارت سے پوری ہو جائے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگوں میں پاکستان کے برے وقتوں کا ساتھی ہمیشہ ایران ہی رہا ہے۔ ان جنگوں میں ایران نے ہی پاکستان کو ”لاجسٹک سپورٹ“ دی تھی۔ ایران ان جنگوں میں پاکستان کو تیل اور دوسری ضروریات کی اشیاء فراہم کرتا رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس وقت کی اخباری اطلاعات کے مطابق 65ء کی جنگ کے دوران پاکستانی زخمیوں کو خون دینے کیلئے تہران میں لائنیں لگ گئی تھیں۔ راجیو گاندھی کے دور میں جب پاکستان اور بھارت بالکل جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے، امام خمینیؒ کے اس بیان پر انڈیا حملے سے باز آیا تھا کہ ”کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ ایران پر حملہ تصور ہوگا“۔

آج بھی کشمیر کے حوالے سے ایران کے جاندار موقف کی بنا پر انڈیا کے میڈیا نے ایران پر آگ برسانا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل اور انڈیا کے مابین قربت نے ایران اور انڈیا کے مابین رقابت کو جنم دیا ہے، بلکہ اب یہ رقابت، رقابت سے زیادہ مخاصمت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس مخاصمت نے پاکستان اور ایران کی عوام کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے۔ حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد علامہ فضل الرحمٰن کا ایرانی سفیر سے ملنا تعلقات کے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی تکفیری قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کے اس بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہو جائیں۔ آج جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے چہروں سے نقاب اتار پھینکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران سے غیر معمولی نوعیت کے تعلقات استوار کرے، تاکہ مشرق کے یہ دو ممالک مل کر کرہء ارض کی تقدیر بدل دیں اور ان کی آب و تاب سے مشرق کے افق پر ایک نیا سورج ابھرتا ہوا نظر آئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کے اسرائیل کے پاکستان کی ایران کے کے مابین مشرق کے تھا کہ اور ان رہی ہے

پڑھیں:

اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع

اسلام ٹائمز: 10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔ تحریر: حامد حاجی حیدری

نیتن یاہو نے اسرائیلیوں پر زور دیا کہ وہ "معاشی تنہائی کے لیے تیار رہیں۔" قابض وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے قطر میں اسرائیلی آپریشن کی ناکامی کے بعد 15 ستمبر کو وزارت خزانہ کے جنرل اکاؤنٹنگ آفس میں ایک کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل خود کو الگ تھلگ اور بند معیشت کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ "اسرائیل ایک طرح کی تنہائی میں داخل ہو رہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے طور پر مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہیئے، اسرائیل کے سرکاری ٹی وی کان کے مطابق نیتن یاہو نے اس گفتگو میں کئی اعترافات کئے ہیں۔ نیتن یاہو کے مطابق، ایسی صورت حال جس میں ملک خود کو پیداواری ناکہ بندی میں پاتا ہے، ایک حقیقت بن سکتی ہے۔ اس لیے اسرائیل معیشت پر بعض پابندیوں کو اپنانے پر مجبور ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کی تنہائی کی ایک وجہ یورپی پابندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔

صیہونی وزیراعظم کے مطابق قطر سمیت اسرائیل کے دشمن ممالک نے سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی گفتگو کو متاثر کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اپنے گھریلو وسائل اور سائنسی صلاحیت کو فروغ دینا چاہیئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا بلاکس میں بٹی ہوئی ہے اور ہم کسی بلاک کے رکن نہیں ہیں۔ "اس طرح ایک فائدہ پیدا ہوتا ہے، جب وہ ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک تکنیکی اور سائنسی فائدہ بھی ہے، جو دوسروں کی ہم میں دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔" تاہم کان ٹی وی کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے وزیراعظم کے ریمارکس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس موقف کو پاگل پن قرار دیا۔ لایپڈ کے مطابق اسرائیل کی تنہائی ناگزیر نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل اپنی خارجہ پالیسی کا رخ بدلتا ہے تو وہ پھلتی پھولتی معیشت کی طرف لوٹ سکتا ہے۔

10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں مشرق ڈیجیٹل بینک کا آغاز، امارات سے پاکستانی مفت ترسیلات زر بھیج سکیں گے
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف
  • ڈیجیٹل بینکاری سے معیشت مضبوط ہوگی، وزیراعظم شہباز شریف کا مشرق ڈیجیٹل بینک کے افتتاح پر خطاب
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو
  • اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع
  • دوحہ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی ملاقات
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مشرق وسطیٰ اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں، ترک صدر