ہائبرڈ نظام حکومت اور آئین شکنوں کی چیرہ دستیاں
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
’’آئین کسی ملک کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگوں کا ’’سماجی معاہدہ‘‘ ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کی تشکیل اور اس کے حکمرانوں اور عوام کی طرف سے قبولیت کی ایک مختلف تاریخ ہے۔یہ امر دلچسپ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کا آئین نو سال تک تشکیل نہ پا سکا اور پاکستان ایک طویل عرصے تک برطانیہ کا ڈومینین رہا۔اس دوران کوئی انتخابات نہیں کرائے گئے اور پاکستان کا پہلا آئین 1946ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی نے 1956ء میں بنایا۔یہ آئین صرف دو سال بعد 1958ء میں جنرل ایوب خان نے منسوخ کر دیا۔جنرل ایوب خان کی حکومت 1969ء تک قائم رہی اور پھر جنرل یحییٰ خان نے دوسرا مارشل لا نافذ کیا۔1971 ء میں ملک دوحصوں میں تقسیم ہو گیا اور مغربی پاکستان کو پاکستان قرار دے دیا گیا۔
 موجودہ پاکستان کا آئین 1973 ء میں اس آئین ساز اسمبلی نے بنایا جو 1971ء کے انتخابات میں منتخب ہوئی تھی۔یہ آئین 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے منسوخ کر دیا۔ضیاء الحق کا دور حکومت 1988ء تک جاری رہا، جس کے بعد 11سالہ نام نہاد سول حکومت کا آغاز ہوا۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر مارشل لا نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا۔ہر مارشل لا کے بعد عدلیہ نے ان کو قانونی جواز فراہم کیا۔سول اور ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ کے نزدیک آئین کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
 اب سیاست دانوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے، اور ایک نیا ’’ہائبرڈ نظام حکومت‘‘ وجود میں آ چکا ہے، جو جمہوریت کی بدترین شکل ہے۔ ’’یہاں تک پہنچتے پہنچتے دانشور ڈاکٹر سلامت اللہ کی آواز رندھ گئی ،اس دلگرفتگی کے عالم میں نہ جانے وہ کیا کچھ کہہ جاتے کہ میں نے چائے کا کپ ان کے قریب کرتے ہوئے کہا ۔سوچنے اور فکر کرنے والوں کی دلبرداشتگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اور وہ حل بتانے کی بجائے ذمہ داروں کے کورٹ میں فقط سوال ہی پھینکتے رہے تو بات اور بڑھ جائے گی ،اندھیرااور بڑھ جائے گا،منزل اور دور ہوجائے گی ،راستے دھندلے ہوتے چلے جائیں گے ، بے بسی اور بے کسی انتہا پر پہنچ جائے گی ،ہر حساس آدمی کو مرجانا ہوگا ،قرضوں کے سہارے کھڑی معیشت ،وہ قرضے جن کا کہیں سراغ ہی نہیں مل رہا کہاں لگائے گئے ۔
 گزشتہ 6 ماہ میں تین ہزار ارب قرض لئے گئے ،کس کس مد میں لگائے گئے ؟ترقی کا کون سا سنگ میل ان سے حاصل کیا گیا ،ٹیکس نیٹ سے 11 ہزار ارب روپے غائب ہیں ،وہ کن کن کھاتوں کی نذر ہوئے ہیں قوم کے لہو سے نچوڑے ہوئے یہ گیارہ ہزار ارب روپے کس کس کی تجوریوں کی زینت بنے ۔ان سے کتنے محلات کھڑے کئے گئے ،کتنے بیوروکریٹس ،کتنے سیاستدان، کتنے منصفوں اور کتنے محافظوں کے گھر بھرے گئے ۔حکمرانوں اور ان کے گماشتوں نے کتنے فلاکت زدہ،غریب و مفلس لوگوں کی کھوپڑیوں میں کیف و مستی کا مشروب پیا۔
 ہم تو سوال بھی کریں تو قیمت چکانا پڑتی ہے اور اس کو نہ چکا سکنے والوں کے گھر اجاڑ دیئے جاتے ہیں ۔ بچے اغوا کرلئے جاتے ہیں ، حکمران کبھی زمین پر سفر کریں تو ان کو معلوم ہے کہ ’’فٹ پاتھ پہ سوئے ہوئے کس ماں نے جنے تھے‘‘ (وفا حجازی)سڑکیں تعمیر ہورہی ہیں وہ سڑکیں جو اگلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں میں شامل کی جاسکتی تھیں مگر ان سڑکوں کو دیدہ دلیری سے ادھیڑ دیا گیا ہے وہ سڑکیں جو ربع صدی سے حکمرانوں کی بے اعتنائی کے نوحے پڑھ رہی ہیں ان پر کسی کی نظر التفات گئی ہی نہیں کہ بڑی سڑکوں میں سات آٹھ فٹ سالم حصہ کمیشن کی مد میں بھی تو ڈالنا تھا وگر نہ گھی کے چراغوں سے روشن گھروں پراندھیرا مسلط ہوجاتا ۔ان سڑکوں پر شرم و حیاکے سب پردے چاک ہوئے پڑے ہیں اور جو رہ گئے ہیں پہلی ہی جل تھل برپا کردینے والی بارش چاک چاک کر دیگی ۔اور یہ حکمران ہیں کہ ان منصوبوں کی تشہیر پر جو کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں ، انہیں کی ندامت کا بوجھ ہی ان کے لئے کافی ہے ، مگر کیوں کر کہ یہ ہائبرڈ نظام حکومت انہیں بچانے کے لئے کافی ہے ۔مخلوق کا مالک تو اللہ ہی ہے جو رسی جتنی ڈھیلی چھوڑتا ہے اتنی ہی زور سے کھینچ لیتا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
سرکاری افسروں کی ترقی کے لیے لازمی مڈکیرئیر مینجمنٹ کورس کے شرکا کی فہرست تبدیل ؛7 افسروں کے نام واپس 54 نئے افسروں کی منظوری
سٹی 42: سرکاری افسروں کی گریڈ 18 سے 19 میں ترقی کیلئے لازمی مڈ کیریئر مینجمنٹ کورس کے ضمن میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 45 ویں مڈ کیریئر مینجمنٹ کورس (ایم سی ایم سی) کے شرکاء کی فہرست میں ردوبدل کرتے ہوئے 7 افسروں کے نام کورس سے واپس لے لیے ہیں جبکہ 54 نئے افسروں کی اضافی نامزدگیوں کی منظوری دی ہے اور2 نامزد افسروں کے تربیتی سٹیشنز تبدیل کئے گئے ہیں
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ریکٹر نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کو ارسال کردہ مراسلے کے مطابق کورس سے نام واپس لیے جانے والے افسروں میں آفس مینجمنٹ گروپ کے سیکشن آفیسر متروکہ وقف املاک آرگنائزیشن، کابینہ ڈویژن شعیب الرحمان، سیکشن آفیسر ملٹری فنانس ونگ راولپنڈی نائلہ کلثوم صدیقی، سیکشن آفیسر پورٹ اینڈ شپنگ ونگ، کراچی مس نمرہ خان، پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا طلعت فہد، پولیس سروس آف پاکستان کے بٹالین کمانڈر 3 پولیس کالج ملتان پنجاب، جلیل عمران خان، ڈی پی او ہنگو خیبر پختونخوا حکومت خان زیب اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ڈپٹی کمشنر میڈیم ٹیکس پے ارز آفس کراچی محمد حسین شاہ شامل ہیں۔
پاکستان سپورٹس بورڈ نے ویٹ لفٹنگ کے کھلاڑیوں و عہدیداروں پر پابندیاں لگادیں
اضافی نامزدگیوں کی منظوری پانے والے 54 افسران کی فہرست میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو حکومت پنجاب محمد صہیب بٹ، ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ فنانس سرگودھا حکومت پنجاب بلال حسن، ڈپٹی کمشنر پنجاب ریونیو اتھارٹی حکومت پنجاب عمر افتخار شیرازی، ایڈیشنل سیکرٹری بجٹ فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا گل بانو، پنجاب ریونیو اتھارٹی حکومت پنجاب کے ڈسپوزل پر موجود مرضیہ سلیم، ڈپٹی کمشنر سانگھڑ حکومت سندھ سارہ جاوید، پولیس سروس آف پاکستان کے ایس پی انویسٹی گیشن کرک خیبر پختونخوا محمد اشفاق، ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز سینٹرل پولیس آفس خیبر پختونخوا پشاور شہزادہ کوکب فاروق، ایس پی سپیشل سیکورٹی یونٹ کراچی سندھ فرح امبرین، ڈائریکٹر پولیس میٹرز، اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب لاہور امتیاز احمد خان، ایس پی ٹریننگ-II پولیس کالج سہالہ پنجاب عمران رزاق، آفس مینجمنٹ گروپ کے حکومت سندھ کے ڈسپوزل پر موجود زوہیب حسن شیخ، سیکشن آفیسر وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ڈویژن اسلام آباد سید مسعود رحمان، سیکشن آفیسر اکنامک افیئرز ڈویژن اسلام آباد نور العین آفتاب، سیکشن آفیسر فنانس ڈویژن اسلام آباد اعتزاز عالم ملک، نیشنل سکول آف پبلک پالیسی لاہور کے ڈسپوزل پر موجود مدیحہ اشرف، سیکشن آفیسر فنانس ڈویژن اسلام آباد فوزیہ حسین، سینیٹ سیکرٹیریٹ کے ڈسپوزل پر موجود مہوش ریاض شامل ہیں۔
لاہور: سیف سٹی اتھارٹی کا پولیس ڈرونز پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز
کورس کیلئے نامزد کئے گئے مختلف سروسز، گروپس کی اضافی نامزدگیوں میں ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن سروسز اکیڈمی اسلام آباد اقدس شوکت علی، ڈپٹی ڈائریکٹر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اسلام آباد احسان اللہ شہزاد، ڈپٹی کنٹرولر دفتر چیف میٹریل ایڈوائزر لاہور کمانڈ لاہور قاسم ملک، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب لاہور انیق الرحمان، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ ریلوے لاہور بشریٰ حسن، ڈپٹی کنٹرولر دفتر چیف میٹریل ایڈوائزر پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ شاہ رخ عطاء اللہ خان، ڈپٹی چیف اکاؤنٹس آفیسر وزارت خارجہ اسلام آباد بہاول رضا، ایڈیشنل ڈائریکٹر پنجاب فوڈ اتھارٹی گوجرانوالہ عدیل اسلم، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ پاور اینڈ نیچرل ریسورسز سب آفس کراچی فرخ احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف اے او ونگ آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس اسلام آباد حسین عزیز، ڈپٹی ڈائریکٹر ریکٹر، پی اے اے اے، سب آفس کراچی سرفراز احمد، ڈپٹی کنٹرولر نیول اکاؤنٹس کراچی فریال حبیب اللہ مینگڑیو، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ سندھ کراچی اسماء واگن، ڈپٹی کنٹرولر دفتر چیف لیبر ایڈوائزر ڈیفنس سروسز لاہور فیضان وحید، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کلائمیٹ چینج اینڈ انوائرنمنٹ اسلام آباد سعدیہ سجاد، ڈپٹی کنٹرولر دفتر چیف میٹریل ایڈوائزر آفس راولپنڈی فخر عالم، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ پاور اینڈ نیچرل ریسورسز سب آفس کراچی طارق احمد، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل دفتر اے جی پی آر سب آفس گلگت علی محمد اسلم، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ پاور اینڈ نیچرل ریسورسز لاہور فائق احمد، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کراچی حنا سید، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ فارن اینڈ انٹرنیشنل اسلام آباد محمد ناصر شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر دفتر ڈائریکٹر جنرل آڈٹ ان لینڈ ریونیو اینڈ کسٹمز ساؤتھ کراچی سنتوش کمار، ڈائریکٹر آپریشنز وزارت تجارت اسلام آباد محمد بلال خان، ڈپٹی ڈائریکٹر ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کراچی مسٹر قدیر احمد بھٹو، چیف پوسٹ ماسٹر اسلام آباد جی پی او عظمیٰ شریف، پی بی ایس آر او سکھر وسیم حیدر منگی، چیف سٹیٹسٹیکل آفیسر پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد ڈاکٹر لیاقت علی، چیف سٹیٹسٹیکل آفیسر پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد زرتاشیہ حسین، ڈپٹی سیکرٹیری اریگیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا جان محمد، او ایس ڈی ایگزیکٹو اینڈ ایڈمنسٹریشن حکومت خیبر پختونخوا محمد ایاز خان، ڈائریکٹر یوتھ افیئرز خیبر پختونخوا ڈاکٹر نعمان مجاہد، او ایس ڈی ایگزیکٹو اینڈ ایڈمنسٹریشن شہاب محمد خان، ڈائریکٹر کے پی-پی ایس آر اے زوہیب حیات، ڈپٹی سیکرٹیری انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا انجینئر سید شاہ زیب، او ایس ڈی اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا فضیلت جہاں اور ڈپٹی سیکرٹیری کیبنٹ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ حکومت خیبر پختونخوا عفت امبرین شامل ہیں۔
لاہور: 4 افراد کی ہلاکت، ٹرک ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مطابق مذکورہ کورس 17 نومبر 2025ء سے شروع ہوگا اور تمام نامزد افسران 14 نومبر 2025ء کو اپنے اپنے مقامات پر رپورٹ کریں گے۔ ان نامزدگیوں کے لئے تازہ ترین سالانہ میڈیکل رپورٹس کا جمع کرانا لازمی ہے۔ کورس کی فیس ہر شریک ہونے والے افسر کے لیے 230,000 روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ اسپیشلائزڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس کے لیے 64,286 روپے فی شرکاء ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے خط میں واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم کے حکم نامے کے مطابق تمام وزارتیں اور ڈویژنز نامزد افسران کو تربیت کے لیے فوری ریلیو کریں اور ان کی غیر حاضری کے دوران ان کے عہدوں کے لیے عبوری انتظامات کریں۔ وزیر اعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی پر ڈسپلنری کارروائی کا اطلاق ہو گا
سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری