اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
نیو یارک:
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کردی۔
پاکستان اور بھارت سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی حالیہ برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر ہے، دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں، اقوام متحدہ کے اموربشمول امن مشنزمیں دونوں ممالک کی شراکت پر مشکور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ابلتے ہوئے مقام پر پہنچ رہے ہیں، پہلگام حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں اور متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہوں، شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے اور ذمہ داروں کو قانونی ذرائع سے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس نازک گھڑی میں فوجی تصادم جو قابو سے باہر ہوسکتا ہے سے بچنا بہت ضروری ہے، دونوں ممالک کو زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے اورجنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹنے کا وقت ہے، دونوں ممالک کیلئے یہی میرا پیغام رہا ہے، کوئی غلطی نہ کریں، فوجی کارروائی کوئی حل نہیں ہے، میں امن کے لئے دونوں حکومتوں کو اپنی خدمات پیش کرتا ہوں۔
سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت کے لیے تیار ہے جو کشیدگی میں کمی اور امن کے لیے تجدید عہد کو فروغ دیتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ دونوں ممالک کرتا ہوں کہا کہ
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
 عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔