Juraat:
2025-09-27@21:57:52 GMT

محکمہ ماحولیات، سیپا میں وقار پھلپوٹو نئے ڈی جی تعینات

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

محکمہ ماحولیات، سیپا میں وقار پھلپوٹو نئے ڈی جی تعینات

سابق ڈی جی نعیم مغل کے تمام چہیتوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا،بدعنوان بے چین
نعیم مغل کی اپنے پسندیدہ جونیئر افسر کو نیا ڈی جی سیپا تعینات کرانے کی کوششیں ناکام

محکمہ ماحولیات کے ماتحت ادارے سیپا میں وقار پھلپوٹو نئے ڈی جی تعینات ہو گئے ، سابق ڈی جی نعیم مغل کے چہیتوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات کے ماتحت ادارے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) میں نعیم مغل کا 15 سال سے راج تھا، 2 دو برس قبل نعیم مغل کی جانب سے چھٹی پر جانے کے بعد ان کی سفارش پر ایک جونیئر افسر کو قائم مقام ڈی جی سیپا تعینات کیا گیا، نعیم مغل گزشتہ ماہ ریٹائر ہونے کے بعد دوبارہ کانٹریکٹ پر تعینات ہونے کی کوششوں میں مصروف رہا، نعیم مغل کی کوشش تھی کہ ان کی تعیناتی نہ ہونے کی صورت میں ان کے پسندیدہ جونیئر افسر کو نیا ڈی جی سیپا تعینات کیا جائے لیکن نعیم مغل کی ایک نہ چلی اور حکومت سندھ نے سیپا کے سینئر ترین گریڈ 20 کے افسر وقار حسین پھلپوٹو کو نیا ڈی جی تعینات کیا ہے ۔ سیپا میں نئے ڈی جی کی تعیناتی کے بعد سابق ڈی جی نعیم مغل کے چہیتے افسران ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران یا کامران کیمسٹ سمیت دیگر افسران کا مستقبل خطرے سے دو چار ہے کیونکہ نعیم مغل نے کامران کیمسٹ اور دیگر چہیتے افسران کو اضافی پوسٹنگ سے نوازا، سابق ڈی جی سیپا نعیم مغل کے چہیتے افسر نعیم مغل حکومت سندھ سے چھٹی لینے کے علاوہ پی ایچ ڈی کرنے کے لئے کینیڈا چلے گئے جس پر کامران کیمسٹ کو بھگوڑا قرار دیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی لیکن نعیم مغل نے کامران کیمسٹ کے خلاف کارروائی نہیں کی، نعیم مغل کے ایک اور چہیتے افسر کو کرپشن کی شکایات پر لاڑکانہ تبادلہ کیا گیا لیکن کچھ وقت کے بعد مذکورہ افسر کو دوبارہ کراچی میں پوسٹنگ دے دی گئی، نعیم مغل کے دور میں جعلی ماحولیاتی منظوریاں دی گئیں جس پر انکوائری بھی کی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سابق ڈی جی نعیم مغل کے مبینہ فرنٹ مین کی املاک تفصیلات بھی سامنے آئیں لیکن اس کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سابق ڈی جی نعیم مغل کے کامران کیمسٹ نعیم مغل کی افسر کو کے بعد

پڑھیں:

ڈیوجینز، سکندر اورسورج (پہلا حصہ)

اصل نام تو اس کا ڈیوجینز تھا لیکن عربوں نے اسے ’’ دیوجانس‘‘ کردیا ہے چونکہ انسانوں سے زیادہ وہ کتوں کی صحبت میں خوش رہتا تھا اس لیے ’’کلبی‘‘ بھی کہلایا وہ جہاں جی چاہتا تھا پڑا رہتا تھا ، لوگ جو اشیائے خورونوش دیتے تھے ان میں سے تھوڑا بہت کھا کر ادھرادھر پھینک دیتا تھا اس لیے ہمیشہ اس کے گرد کتے بھی لیٹے رہتے تھے۔

مردان شہر میں ایک بڑھیا تھی، وہ بھی اپنے وقت کی دیوجانس کلبی تھی ، میں نے خود اسے کتوں کے نرغے میں لیٹے دیکھا تھا ، لوگ اسے ’’سپوماسی‘‘ یعنی کتوں کی ماسی کہتے تھے ۔

ڈیوجینز نے بڑی لمبی عمر پائی تھی، اس نے سقراط ،افلاطون اورارسطو سب کی صحبت پائی تھی ، سکندر اوراس کے باپ فلپ کا زمانہ بھی پایا تھا ، سکندر اور وہ دونوں ایک ہی دن مرے تھے ، سکندر بابل میں تینتیس سال کی عمر پاکر اورڈیوجینز ایتھنزمیں نوے سال کی زندگی گزار کر چل بسا ۔لطیفے تو اس کے بہت سارے مشہور ہیں لیکن یہاں میں دو کاذکر کروں گا کہ ان میں بہت گہرے معانی ہیں ، سکندر کے باپ فلپ نے جب اپنا شاندار محل ’’پیلا‘‘ بنایا تو ڈیوجینز سے استدعا کی کہ کسی دن میرے اس محل کو اپنی قدم بوسی سے مشرف کیجیے۔

 اس لفظ پیلا کے وہی معنی ہیں جو اردو کے لفظ ’’پہلا‘‘ کے ہیں اورمختلف زبانوں میں پیلس پلازے وغیرہ اسی سے مشتق ہیں ۔ڈیوجینز جب پہنچا تو فلپ نے اپنے ایک خاص وزیر کو اس کی پذیرائی کے لیے دروازے پر تعینات کیاہواتھا ، وزیر اسے لے کر محل کے مختلف حصوں سے گزار کردربار لے جانے لگا تو ڈیوجینز کو کھانسی اٹھی، کھانسنے کے بعداس نے ادھر ادھر دیکھا اوراس وزیر کے منہ پر تھوک دیا، وزیر نے اس وقت تو کچھ نہیں کہا صرف منہ پونچھ لیا لیکن بادشاہ سے شکایت کی۔

 بادشاہ نے ڈیوجینز سے پوچھا ، تو اس نے کہا مجھے اورتو کوئی پتہ نہیں لیکن محل میں جو سب سے گندی جگہ نظر آئی وہاں تھوک دیا ۔لیکن اصل لطیفہ جس پر ہم فوکس کرناچاہتے ہیں، لوگوں نے اسے لطیفہ سمجھ لیا ہے لیکن اصل میں یہ بہت گہرا کثیفہ ہے ۔ایک دن سکندر نے راہ چلتے ہوئے ڈیوجینز کو راستے کے ایک کنارے دھوپ میں پڑے دیکھا تو مڑ کر اس کے پاس گیا اورٹانگیں پھیلا کر کہا میں سکندر ہوں بادشاہ ۔ کہو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں تو ڈیوجینز نے کہا ، سورج کے سامنے سے ہٹ جاؤ ۔ اب ظاہر ہے ، کوتاہ بین اورسرسری لوگوں نے تو اسے لطیفہ بنا لیا ہے لیکن ڈیوجینز جس نے سقراط ، افلاطون اورارسطو سے مباحثے کیے تھے۔

 غوروحوض میں شریک ہوا تھا، فلسفے پر تبادلہ خیال کیا تھا بلکہ ان تینوں کے نظریات کی دھجیاں اڑائی تھیں ، کیا اس کے اس ایک فقرے کا اتنا ہی مطلب ہے جو لوگوں نے نکالاہوا ہے ، کیا اس کامطلب یہ تھا کہ میرے اورسورج کے درمیان سے ہٹ جاؤ ؟ دھوپ آنے دو ، نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا وہ فلسفی تھا اوربہت بڑا فلسفی۔اس نے اس وقت صرف خود اورسکندر کو نہیں دیکھا بلکہ حکمران اورعوام کو دیکھا تھا کہ کس طرح یہ حکمران لوگ عوام اورسورج یا روشنی اورعوام اورسورج کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اورہمیشہ حائل رہتے ہیں۔

 ان کے آرام میں حائل ہوجاتے ہیں ، وہ فلسفی تھا، مذہب کو ان معنوں میں نہیں مانتا تھا جیسے عام لوگ مانتے ہیں بلکہ وہ اس پوری کائنات کا جان کار تھا ، اسے معلوم تھا کہ دنیا کاسب کچھ سورج کادیا ہوا ہے ، انسان اورزمین کے پاس جو کچھ بھی ہے سورج کادین ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس قوت ، اس ہستی کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ سورج بھی کسی اورکا تابع و اسیر ہے ،یا سورج کے پیچھے بھی کوئی ہے ۔

میری طرح سے مہ ومہربھی ہیں آوارہ

 کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

 خیر بات یہیں چھوڑتے ہیں کیوں کہ انسان ’’جزو‘‘ ہے اورجزو کسی کل کا نہ احاطہ کرسکتا ہے نہ ادراک ، لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ جس طرح چاند زمین کے گردگھومتا ہے، زمین اورنظام شمسی کے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں، اسی طرح سورج بھی اپنی کہکشاں کے گرد گھومتا ہے اوراپنا چکر بیس ہزار سال میں پورا کرتا ہے ، اسی طرح کہکشاں بھی کسی کی اسیر اورتابع ہے ۔معافی چاہتا ہوں کہ میں اصل موضوع سے ذرا ہٹ گیا، بات ہم سورج کی کررہے ہیں جو زمین اوراس زمین پر رہنے والوں کاپالن ہار ہے اورانھیںسب کچھ دیتا ہے اگر آج سورج نہ رہے تو دنیا میں کچھ بھی نہ رہے ۔یہ شجر ، انسان حیوان سبزہ روئیدگی بارآوری پھل پھول یہاں تک کہ پانی اور ہوا بھی نہ رہے ۔

یہ سورج ہی ہے جو سمندر سے بھاپ اٹھاتا ہے ، وہ بھاپ بادل بن جاتی ہے ، بادل برستے ہیں بارش ہوتی ہے برف باری ہوتی ہے پانی یہاں وہاں پہنچتا ہے،انسان حیوان نباتات جمادات میں جذب ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد نکل کر اپنے سفر پر روانہ ہوتا ہے ، دنیا کو زندہ رکھتا ہے اورپھر سمندر میں اپنے دوسرے سفر کے لیے پہنچ جاتا ہے ۔یہی حال ہواؤں کاہے ، ہوائیں بھی سورج کی تمازت کے مطابق متحرک رہتی ہیں ،سورج جس ہوا کو گرم کرکے رطوبت نکالتا ہے وہ ہلکی ہوکر اوپر چلی جاتی ہیں اس کی خالی جگہ کو بھرنے کے لیے ٹھنڈی ہوائیں آجاتی ہیں اور چلتی رہتی ہیں ۔

چلتے رہنا کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

 کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

مطلب یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے سورج ہی کا دین ہے عنایت ہے عطا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی طرح کے سائے میں بھی نہ کچھ اگتا ہے نہ نشوونما پاتا ہے نہ بارآورہوتا ہے ، ہرطاقت چل کر سورج سے جڑتی ہے ، کسان زمین میں ہل چلاتا ہے زمین الٹ پلٹ ہوتی ہے تو اس میں سورج سے توانائی بھرتی ہے ،یہ مصنوعی کھاد بھی اکثر سورج کی تمازت سے بنتی ہے۔

اس لفظ تمازت سے ایک عراقی اسطورہ یاد آتا ہے ’’تموز‘‘ (سورج) بہار اور سرسبزی کی دیوی عشتار کا محبوب ہے ، سردیوں میں تموز بیمار ہوجاتا ہے تو وہ اس کا علاج ڈھونڈنے پاتال چلی جاتی ہے ، تو چارمہینے اس کے عتاب میں زمین کی ساری سرسبزی فنا ہوجاتی ہے اورجب چار مہینے بعد لوٹتی ہے تو بہار آجاتی ہے ، سیدھا سادہ موسمی قصہ ہے لیکن پرانے لوگ اسی طرح قدرتی عوامل کو دیوی دیوتا بنا کر اساطیری شکل دیتے ہیں۔

خلاصہ اس ساری بحث کایہ ہے کہ ساری نعمتیں ساری راحتیں اورساری دولتیں سورج ہی کی رہین منت ہیں لیکن جب ان نعمتوں راحتوں اوردولتوں پر حکمران قابض ہوجاتے ہیں تو گویا عوام اورسورج کے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں جیسا کہ سکندر ڈیوجینز اورسورج کے درمیان کھڑا ہوگیاتھا اورسورج کی تمازت یادھوپ سے محروم کردیاتھا اوراس نے کہا کہ مہربانی کرکے اپنی مہربانیاں اپنے پاس رکھو صرف میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ جاؤ ،اپنے منحوس وجود کو دورکردو۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • ایران نےبرطانیہ،فرانس اور جرمنی میں تعینات اپنے سفیروں کو واپس بلالیا
  • توقعات سے بڑھ کر، شہباز شریف نے عالمی منظر نامے پر پاکستان کا وقار بلند کیا
  • ڈیوجینز، سکندر اورسورج (پہلا حصہ)
  • ہم نے "صمود" امدادی قافلے کی حفاظت کیلئے اپنی بحریہ تعینات کر دی، سپین
  • کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
  • پولیس پر فائرنگ، مراد سعید کو پناہ دینے کا الزام، کامران بنگش بری
  • وزیراعظم کے دورہ امریکہ اور سعودی عرب سے پاکستان کا وقار بلند ہوا،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ
  • پولیس پارٹی پر فائرنگ، مراد سعید کو پناہ دینے کا الزام، کامران بنگش بری
  • پنجاب: سیلاب نقصانات کے سروے کیلئے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب میں سیلاب نقصانات کے سروے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ