آٹا و گندم کی اسمگلنگ اور فوڈ سکیورٹی؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
پنجاب اورسندھ سے آج کل آٹااورگندم کی خیبرپختونخوا اوربلوچستان کے راستے افغانستان کو اسمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہےاور ہرہفتے اربوں روپےمالیت کا آٹا اور گندم افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیاء کےممالک میں بھجوایاجا رہا ہے، گھوسٹ سیڈکمپنیوں اور فلور ملز مالکان کی بڑی تعداد اس کالے دھندے میں شامل ہے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے گندم کی ضلع بندی اس نیک نیتی کے تحت ختم کی تھی تاکہ پرائیویٹ سیکٹر جہاں سے جی چاہے گندم کی خریداری کرے تاکہ مارکیٹ میں ایک صحت مند مقابلے کی فضا بنے اور کاشتکار کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے، نیک نیتی کےتحت دی گئی اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایاجارہا ہے، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس میں مختلف قومی اور نجی بینکوں کے ایریا مینیجرز،زونل مینیجر، مقامی بنک مینیجرز سمیت مختلف افسران کی بڑی تعداد بھی ملوث ہے، اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہے کہ نجی شعبہ بظاہر بنکوں سے قرضے لے کر 25 کروڑ عوام کی پورے سال کی ضرورت کی گندم ذخیرہ کر رہا ہے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ بنکوں سے کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لے کرخریدی گئی گندم کی بڑی مقدار ملی بھگت سے اورچوری چھپے بیرون ملک اسمگل کی جارہی ہے،مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کو یا تو اس ’’واردات‘‘کا علم ہی نہیں یا پھر ان کا ’’حصہ‘‘ انہیں مل رہا ہے، اس لئے آج کل صورتحال یہ ہے آٹا و گندم مافیا کی پانچوں گھی میں ہیں اور اسمگلنگ کا دھندہ پورے زور و شور سے جاری ہے، نجی شعبے کے ذریعے ملک کی فوڈ سکیورٹی کا انتظام کرنے کےنام پرجاری اس اسمگلنگ کا نقصان یہ ہوگاکہ جب گندم کی کاشتکاروں سے خریداری مکمل ہو جائے گی تو اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ کردیاجائیگا اور خاص طور پر اگست ستمبر میں ملک میں ہاہا کار مچا دی جائے گی کہ گندم کی قلت پیدا ہو گئی ہے اس لئے روس اور یوکرین سے گندم فوری امپورٹ کی جائے، اگر ان دنوں عالمی مارکیٹ میں نرخ زیادہ ہوئے تو اسے جواز بنا کر پاکستان میں 2000 سے 2200 روپے من خریدی گئی گندم کا ریٹ اچانک 3000 سے 3200 روپے من کردیاجائےگا اورعوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی سال بھر کی ضرورت کی گندم کا تخمینہ لگا کر پرائیویٹ سیکٹر میں گندم ذخیرہ کرنے کی پالیسی کی مانیٹرنگ سخت کی جائے، کیونکہ بہت سے فلور ملز اور سیڈ کمپنیوں کے مالکان نے بنکوں سے قرضے لے کر جو گندم اسٹور کر رکھی ہے اس کے اندر 60 سے 70 فیصد تک بھوسہ بھرا ہے، گوداموں میں گندم کی بوریوں کے جو پہاڑ لگے ہیں، ان کے اندر 60 سے 70 فیصد تک بھوسہ ہے صرف اوپر اوپر گندم کی بوریاں ہیں، وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو چاہیے کہ وہ مختلف نجی اور قومی بنکوں کے اعلیٰ افسران سے مل کر یہ امر یقینی بنائیں کہ بنکوں نے جو قرضے فوڈ سکیورٹی پالیسی کے تحت ملک میں گندم کے محفوظ ذخائرکےلئےدیئے ہیں ان سے خریدی گئی گندم واقعی محفوظ ذخائر کی صورت میں موجود بھی ہو۔پاکستان بھر میں رجسٹرڈ فلور ملز کی تعداد تقریباً 2,589ہے، جن میں سے صرف پنجاب میں 1,619 فلور ملز موجود ہیں۔ ان میں سے کئی فعال طور پر گندم کی پروسیسنگ اور آٹا بنانے کے عمل میں مصروف ہیں، جبکہ کچھ صرف سیزنل بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بھی سینکڑوں فلور ملز ہیں، جو مقامی اور برآمدی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، بعض فلور ملز اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی جیسے غیرقانونی دھندوں میں ملوث پائی گئی ہیں، جس سے قومی فوڈ سکیورٹی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں رجسٹرڈ سیڈ کمپنیوں کی تعداد مختلف ذرائع کے مطابق 750 سے زائد ہے۔ ان میں سے 615 سے زیادہ صرف پنجاب میں کام کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں گندم، مکئی، چاول اور دیگر فصلوں کے بیج مہیا کرتی ہیں۔ تاہم، کچھ جعلی یا ’’گھوسٹ‘‘سیڈ کمپنیاں بھی مارکیٹ میں سرگرم ہیں، جو حکومت سے سبسڈی یا بینکوں سے قرضہ حاصل کر کے گندم کی خریداری کے نام پر گودام بھر لیتی ہیں اور بعد ازاں وہی گندم اسمگل کر دیتی ہیں یا بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی ہے۔ہر سال فلور ملز اور سیڈ کمپنیاں لاکھوں میٹرک ٹن گندم خریدتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ صرف پنجاب میں نجی شعبے نے 2024، 2025 ء کے موجودہ سیزن میں 6 سے 7ملین میٹرک ٹن گندم کی خریداری کرنی ہے۔ یہ خریداری بینکوں سے قرضہ لے کر کی جاتی ہے، جسے فوڈ سکیورٹی کے نام پر سبسڈی یا آسان شرائط پر جاری کیا جاتا ہے۔ فلور ملز اور سیڈ کمپنیاں ملک کی فوڈ سکیورٹی کا بنیادی ستون ہیں، لیکن غیر شفاف نظام، کرپشن اور کمزور ریگولیٹری میکنزم کی وجہ سے یہ ادارے ملک کو فائدہ پہنچانے کے بجائے بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حکومت، خاص طور پر وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ وزارتوں کو فوری طور پر بینکوں کے ساتھ مل کر اس سسٹم کی شفافیت یقینی بنانی چاہیے۔ گندم کی خرید و فروخت، اسٹوریج، اور استعمال پر ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور اسمگلنگ جیسے ناسور کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران وفاقی حکومت نے31 کسٹمز افسران کی نشاندہی کی ہے جو گندم سمیت ضروری اشیاء کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے ایف بی آر کے چیئرمین کو کارروائی کے لیے کہا ہے،تاہم ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں 2024-25 ء کے لیے گندم کی پیداوار 31.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فوڈ سکیورٹی مارکیٹ میں فلور ملز میٹرک ٹن گندم کی
پڑھیں:
ب فارم میں 3 سے 10 سال کی عمر کے بچوں کی تصویر لازمی ہوگی، نادرا
نادرا کے مطابق ب فارم بنوانے کیلئے یونین کونسل میں پیدائش کا اندراج لازم ہوگا، 3 سال تک کے بچوں کیلئے بائیومیٹرک اور تصویر کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن 3 سے 10سال کی عمر کے بچوں کی تصویر لازمی ہوگی، آئرِس اسکین بھی لیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے وزیر داخلہ کی ہدایت پر قومی شناختی کارڈ قواعد 2002 میں ترامیم کا نفاذ کردیا۔ اعلامیے کے مطابق شناختی نظام کو جعل سازی سے پاک اور محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ نادرا نے اصلاحاتی مسودے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کی منظوری وفاقی کابینہ دے چکی ہے۔ نادرا کے مطابق ب فارم بنوانے کیلئے یونین کونسل میں پیدائش کا اندراج لازم ہوگا، 3 سال تک کے بچوں کیلئے بائیومیٹرک اور تصویر کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن 3 سے 10سال کی عمر کے بچوں کی تصویر لازمی ہوگی، آئرِس اسکین بھی لیا جائے گا۔ نادرا نے بتایا کہ 10 سے 18 سال کے بچوں کیلئے تصویر، بائیومیٹرک اور آئرِس اسکین لازمی ہوگا۔
نادرا کے مطابق ہر بچے کو الگ ب فارم جاری کیا جائے گا جس پر میعاد بھی درج ہوگی، پہلے سے بنے ہوئے ب فارم منسوخ نہیں ہوں گے لیکن پاسپورٹ بنوانے کیلئے نیا ب فارم لازم ہو گا۔ نادرا کا کہنا ہے کہ جعلی اندراج کی روک تھام اور بچوں کی اسمگلنگ کے مؤثر خاتمہ میں مدد ملے گی۔ نادرا کے مطابق فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کو قانونی دستاویز کی حیثیت دے دی گئی ہے، درخواست دہندہ کو اس میں درج معلومات کی درستی کا اقرارنامہ دینا ہو گا، شہری اب صرف نادرا کے ریکارڈ کی بنیاد پر ایف آر سی حاصل کرسکیں گے۔ نادرا کا کہنا ہے کہ خاندان کے ان افراد کا اندراج بھی کرانا ہوگا جن کی تفصیلات ابھی تک جمع نہیں کرائی گئیں، شہری موبائل ایپ یا نادرا دفتر کے ذریعے اپنے خاندانی کوائف کی درستی کرا سکیں گے، ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے مردوں کے خاندان کے مکمل کوائف ایف آرسی میں درج ہوں گے۔
نادرا نے بتایا کہ خواتین شناختی کارڈ پر اپنی مرضی سے والد یا شوہر کا نام درج کراسکتی ہیں، شناختی کارڈ کی ضبطی، تنسیخ اور بحالی کے کیسز کا فیصلہ 30 دن میں ہو گا۔ نادرا نے بغیر چِپ والے کارڈ میں اسمارٹ کارڈ کی بیشتر خصوصیات شامل کردی ہیں، بغیر چِپ والے کارڈ پر اردو کے ساتھ انگریزی کوائف بھی درج ہوں گے، بغیر چِپ والے کارڈ پر کیوآر کوڈ درج ہوگا، اضافی فیس نہیں لی جائے گی، غلط معلومات پر کارڈ بنوانے والے رضاکارانہ طور پر اطلاع دیں تو قانونی تحفظ دیا جائے گا۔