اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستانی نژاد امریکن ڈیموکریٹ ڈاکٹر آصف محمود کی بانی پاکستان تحریک انصاف اورسابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سے ملاقات ہوئی ہے۔

ملاقات میں رچرڈ گرینل نے ایک بار پھر عمران خان کے حق میں بات کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان سے محبت کرتے ہیں اور ان کا سابق وزیراعظم سے خاص تعلق ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود نے ملاقات کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہوئے رچرڈ گرینل کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ آپ نے آج مقامی، قومی، اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وقت نکالا۔ دنیا بھر میں موجودہ جغرافیائی و سیاسی تنازعات اور ان کے امریکہ پر اثرات کے حوالے سے آپ کی بصیرت اور فہم واقعی نہایت قیمتی ہے۔۔

Thank you, Ambassador @Richardgrenell, for taking the time to discuss local, national, and global issues today.

Your insights and understanding of the current geopolitical hot spots around the world and how they affect America are truly invaluable.
I especially appreciate your… pic.twitter.com/nOrTht3BsD

— Dr. Asif Mahmood (@DrMahmood40) May 6, 2025


انہوں نے مزید کہا کہ میں خاص طور پر پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کرنے اور ہمارے دوست وزیراعظم عمران خان اور دیگر ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی وکالت کرنے کے آپ کے عزم کو سراہتا ہوں۔ پاکستان کے لیے جمہوری اور متحرک مستقبل کو فروغ دینے کی آپ کی کوششیں واقعی قابلِ ستائش اور باعثِ حوصلہ ہیں۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پی ٹی آئی کے حامی صارفین کو ایک بار پھر امید کی کرن نظر آئی اور وہ ان سے درخواست کرتے نظرآئے کہ برائے مہربانی عمران خان کو جیل سے رہا کرایا جائے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انہوں نے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ہی عمران خان کی رہائی کے لیے مہم شروع کردی۔

رچرڈ گرینل نے سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا، جس پر پاکستان میں خوب تبصرے ہوئے، جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کہاکہ اب حکومت کے گھبرانے کا وقت ہوگیا ہے۔

رچرڈ گرینل ایک امریکی سفارت کار رہے ہیں اور انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب سمجھا جاتا ہے، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں نیشنل انٹیلی جنس کے قائم مقام ڈائریکٹر بھی رہے۔
20 مزید پڑھیں: لاکھ سے زائد ریٹائرڈ فوجی افسران و اہلکار بھارت سے جنگ کے لیے تیار

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے کی رہائی کے لیے

پڑھیں:

استحصال کی کوکھ سے جنم لیتی ہوئی امید

یکم مئی کی صبح ہمیشہ ایک تلخ ماضی اور امید بھرے کل کے درمیان جھولتی نظر آتی ہے۔ جب سورج افق پر اُبھرتا ہے تو اُس کی کرنیں فقط ایک نئے دن کا آغاز نہیں کرتیں بلکہ شکاگو کی ان گلیوں میں بھی اُترتی ہیں جہاں 1886 میں مزدوروں کے حق میں نکلی ہوئی پرامن ریلی پرگولیاں برسائی گئی تھیں۔

ان شہداء کے خون سے جو چراغ روشن ہوئے وہ آج بھی دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں جل رہے ہیں۔ ان چراغوں کی روشنی میں ہم اپنے سچ کو پہچانتے ہیں، اپنی محرومیوں کو زبان دیتے ہیں اور اپنے خوابوں کو ایک نئی تعبیرکی طرف لے جانے کی تمنا کرتے ہیں۔


شکاگو کے مزدورکوئی اجنبی نہیں تھے وہ ہمارے اپنے تھے۔ وہ انسان تھے جن کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر محنت کے نشان تھے جن کی آنکھوں میں نیند سے زیادہ بھوک ٹھہری ہوئی تھی اور جن کے قدموں میں رکاوٹیں تھیں لیکن حوصلہ ان رکاوٹوں سے کہیں بلند تھا وہ جب سڑکوں پر نکلے تو ان کے پاس کوئی بندوق کوئی توپ کوئی سرمایہ دارانہ مکر نہ تھا۔

ان کے پاس صرف ایک نعرہ تھا آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کے لیے یہ مطالبہ صرف وقت کی تقسیم کا نہیں تھا یہ انسانی وقار، احترام اور حق کا اعلان تھا۔

مگر تاریخ نے دیکھا کہ ان مطالبات کا جواب گولیوں سے دیا گیا۔ پولیس نے جن مزدوروں پر فائرنگ کی ان کی لاشیں ہمیں آج بھی یہ یاد دلاتی ہیں کہ سرمایہ داری جب خطرے میں ہوتی ہے تو وہ انصاف اور امن کے نعروں کو سب سے پہلے کچلتی ہے۔

شکاگو کے ان شہداء کو صرف اس لیے مارا گیا کہ انھوں نے اپنے حق کی بات کی اور جب کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو وہ سماج کے ظالم طبقات کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔

آج جب ہم پاکستان میں یکم مئی مناتے ہیں تو ہمارے دل میں بھی ان شہداء کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ ہمارے ہاں مزدور تحریک کا وہ جلال وہ تنظیم وہ شعور نظر نہیں آتا جو ساٹھ اور سترکی دہائی میں ہوا کرتا تھا۔

وہ وقت یاد آتا ہے جب کراچی کی سڑکوں پر مزدوروں کے قافلے نکلتے تھے جب کارخانوں سے نعرے بلند ہوتے تھے جب ٹریڈ یونینز ایک طاقت ہوا کرتی تھیں جب مزدور تحریک کا نام لینا صرف نعرہ نہیں ایک نظریاتی وابستگی ہوا کرتی تھی۔ وہ وقت گزر گیا، یونینز ٹوٹ گئیں، قیادتیں بکھرگئیں اور خواب جیسے دھند میں لپٹے چلے گئے۔


لیکن میں آج بھی پُر امید ہوں بلکہ پُر یقین ہوں کہ مزدور تحریک ایک بار پھر سر اُٹھائے گی،کیونکہ اس سرزمین کے مزدوروں کی حالت اتنی دگرگوں ہو چکی ہے کہ خاموشی اب ممکن نہیں رہی۔ یہ بھوک یہ مہنگائی یہ معاہدہ شدہ مزدوری کا استحصال یہ ظالمانہ کنٹریکٹ سسٹم یہ جبری برطرفیاں یہ سب کچھ وہ زمینی حقائق ہیں جو نئی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ وہ چنگاریاں ہیں جوکسی بھی لمحے شعلہ بن سکتی ہیں اور جب شعلہ بھڑکے گا تو پھر وہ فقط مزدورکا نہیں، پورے سماج کا مقدر بدلے گا۔


یہ حقیقت ہے کہ آج کے مزدورکے پاس نہ تو کوئی بڑی ٹریڈ یونین ہے نہ وہ تحفظ ہے جو قانون اسے دیتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی آواز جو ایوانوں میں ان کے دکھوں کا تذکرہ کرے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ ہمیشہ کمزوروں کے ہاتھوں ہی بدلی گئی ہے۔

شکاگو کے مزدور بھی طاقتور نہ تھے لیکن ان کی قربانی نے دنیا کو بدل دیا، اگر وہاں سے تبدیلی آسکتی ہے تو یہاں سے کیوں نہیں؟ پاکستان کے مزدور اگر آج اپنے حالات سے بیزار ہیں اگر ان کے بچے بھوکے ہیں اگر ان کے خواب روندے جا چکے ہیں تو پھر وہ کیوں خاموش رہیں گے؟ یہ سوال خود ایک تحریک کا آغاز ہے۔


ہم نے دیکھا ہے کہ جب مزدور جاگتے ہیں تو تاج لرزتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ جب ٹیکسٹائل ملوں کے محنت کش یکجا ہوئے تھے تو ان کے قدموں کی گونج نے حکمرانوں کو کانپنے پر مجبورکردیا تھا۔ آج شاید وہ گونج مدھم ہے لیکن مدھم گونجیں اکثر طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

آج کے دن ہمیں صرف ماضی کو یاد نہیں کرنا بلکہ یہ عہد بھی کرنا ہے کہ ہم اپنے محنت کش بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہم ان کسانوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو زمین پر اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں مگر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں کتاب نہیں فاقہ ہے۔

ہم ان گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بھی ہوں گے جن کے لیے کوئی یونین نہیں، کوئی قانون نہیں، صرف استحصال ہے۔ ہم ان صنعتی کارکنوں کے ساتھ بھی ہوں گے جو فیکٹری کے دھوئیں میں اپنا سانس کھو بیٹھتے ہیں مگر ان کی تنخواہیں اتنی نہیں کہ مہینے کا خرچہ پورا کر سکیں۔

یہ یکم مئی صرف ایک دن نہیں ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہمیں اپنی زندگی بدلنی ہے تو ہمیں خاموش نہیں رہنا۔ ہمیں سوال اٹھانا ہے ہمیں صف بند ہونا ہے اور ہمیں اپنے حق کے لیے لڑنا ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں اس میں آنسو بھی ہیں جبر بھی ہے اور شاید گولیاں بھی۔ لیکن یہی وہ راستہ ہے جو شکاگو کے مزدوروں نے چنا تھا اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ان سے جوڑتا ہے ان کا وارث بناتا ہے۔

آج جب دنیا مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل ترقی اور خودکار مشینوں کی بات کرتی ہے تو ہم یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان تمام ترقیوں کے پیچھے مزدور کا خون شامل ہے۔ مشین چلے یا ایپ بنے سڑک تعمیر ہو یا پل ہر ترقی کی بنیاد مزدور کا پسینہ ہے اور جب تک دنیا میں استحصال موجود ہے جب تک کچھ ہاتھ خالی ہیں اور کچھ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں تب تک مزدور تحریک زندہ رہے گی اور زندہ رہنی چاہیے۔

میرے دل میں یہ یقین اب بھی روشن ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک ایک دن پھر اسی شان سے اُٹھے گی جس شان سے وہ ماضی میں اٹھی تھی،کیونکہ حالات خود چیخ چیخ کر مزدور کو جگا رہے ہیں۔ یہ چیخیں وہ خاموشیاں توڑ دیں گی جو برسوں سے طاری ہیں اور پھر وہ دن دور نہیں جب مزدور اپنے حق کا پرچم تھامے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھے گا ایسی دنیا جہاں استحصال نہیں مساوات ہو جہاں صرف خواب نہ ہوں بلکہ تعبیر بھی ہو۔
 

متعلقہ مضامین

  • میٹ گالا فیشن شو میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شرکت پر پابندی کیوں ہے؟
  • کھلونوں کی ممکنہ قلت اور مہنگائی امریکیوں کو وائٹ ہاﺅس سے مختلف سوچنے پر مجبور کرے گی. مائیک پینس
  • ٹرمپ اور اردگان کا رابطہ، یوکرین جنگ کے خاتمے پر تعاون کی امید
  • مائیک پینس کی ٹرمپ کی تمام ٹیرف پالیسیوں پر تنقید
  • بچوں کے کم کھلونے رکھنے کے ٹرمپ کے بیان پر مائیک پینس کا ردعمل
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا تیسری بار صدارتی الیکشن لڑنے کی خبروں پر بڑا اعلان
  • نہیں معلوم مجھے آئین کی پاسداری کرنی چاہیے یا نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹیرف ابھی لاگو ہونا شروع ہوئے ہیں، یہ ٹیرف ہمیں امیر بنا دیں گے،ڈونلڈ ٹرمپ
  • استحصال کی کوکھ سے جنم لیتی ہوئی امید