دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں ایک بچہ ملبے کے نیچے کراہ رہا ہے،کہیں ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کی لاش کو سینے سے لگا کر بین کر رہی ہے اورکہیں کسی بوڑھے کی آنکھوں میں وہ سوال ہے جو صدیوں سے انسانیت سے پوچھا جا رہا ہے ’’ آخر ہمارا قصورکیا تھا؟‘‘ لیکن جواب دینے والے سب طاقتور، سب عالمگیر ضمیر کے ٹھیکے دار ، سب ادارے خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ہماری دنیا کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے۔
اس وقت اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہر خطہ چیخ رہا ہے، ہر براعظم میں کوئی نہ کوئی آتش فشاں پھٹ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین خون سے تر ہے۔ غزہ کی گلیوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں جنھیں سننے کے لیے اقوام متحدہ کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ بچوں کی لاشیں تباہ شدہ اسکول بمباری سے ملبہ ہوئے گھر اور پانی کے لیے ترستی بستیاں یہ سب آج کے مہذب دور میں ہو رہا ہے۔
امریکا جو کبھی دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا تھا، وہ آج اسرائیل کو ہتھیار مہیا کر کے اس نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔ کانگریس میں اگر کوئی سیز فائرکا لفظ بول دے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ عالمی میڈیا جو کبھی سچ کی تلاش میں ہراول دستہ کا کام کیا کرتا تھا وہ اب طاقتوروں کی زبان بولتا ہے۔ بی بی سی اور سی این این کی اسکرینوں پر بمباری کے مناظر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ویڈیو گیم ہو۔ گویا انسانی زندگی ایک تماشہ بن چکی ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ نے یورپ کو اقتصادی طور پر جھنجھوڑ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں ممالک کی جنگ میں بھی سچ صرف طاقتور کے منہ سے نکلتا ہے۔ نیٹوکا کردار متنازع ہے اور روس کا رویہ جارحانہ۔ دونوں اطراف انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہزاروں نوجوان جو صرف اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے توپوں کی خوراک بن گئے، لیکن عالمی طاقتوں کا ضمیر سکون سے سو رہا ہے کیونکہ ان کی معیشتیں جنگوں سے ہی تو پروان چڑھتی ہیں۔
افریقہ کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کی نئی لہر آئی ہے۔ مالی نائجر اور چاڈ جیسے ممالک ایک بار پھر بندوقوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں۔ جمہوریت کا خواب ایک بار پھر دور ہوتا جا رہا ہے۔ اقوامِ عالم کو ان مظلوم خطوں کے عوام کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہاں تیل یا گیس کے ذخائر نہیں نہ ہی وہ مارکیٹس ہیں جہاں بڑی طاقتیں اپنی مصنوعات بیچ سکیں۔ اس لیے ان کی اذیتیں کسی کو نظر نہیں آتیں نہ ہی کوئی ان پر رپورٹنگ کرتا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان معاشی سرد جنگ تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ دو طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آ چکی ہیں۔ تائیوان کو لے کر جو کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لیکن اس تمام جھگڑے میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہوں گے جن کا نہ تائیوان کے آئینی موقف سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی وہ ون چائنا پالیسی کے پیچیدہ مباحث سے واقف ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب موت ہے، بھوک ہے، بے گھر ہونا ہے۔
اسی دوران برطانیہ میں اسلاموفوبیا نے نئی شکل اختیارکی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں انسان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے، آج مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے۔ یورپ میں مہاجرین کے خلاف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ سمندروں میں ڈوبتے ہوئے وہ لوگ جو صرف ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں، ان کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی ہمدردی اب پاسپورٹ اور ویزے کی محتاج ہو چکی ہے۔
اور ہندوستان جسے کبھی جمہوریت کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کہا جاتا تھا، وہاں آج مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی بھی مہذب سماج کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے۔ ایک ملک جوگاندھی نہرو اور امبیڈکرکی تعلیمات پر فخرکرتا تھا، آج ہندوتوا کے پرچم تلے اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہا ہے۔ عدالتیں خاموش، میڈیا، اندھا اور عوامی ضمیر بے حس ہو چکا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی خبریں اب کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بنتیں۔ گویا ظلم معمول بن چکا ہے اور معمول ہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔
ایران اور افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبانے کے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں بچیاں اسکول نہیں جا سکتیں، ایران کی خواتین اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو انھیں فساد فی الارض قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی برادری کی زبانیں تب کھلتی ہیں جب ان ممالک کے حکمران مغرب کے مخالف ہوں، اگر وہ مغرب نواز ہوں تو انسانی حقوق کا ذکر بھی جرم بن جاتا ہے۔
یہ کیسی دنیا ہے جہاں جمہوریت صرف اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ ہماری ترجیحات کے مطابق ہو؟ انسانی حقوق صرف وہی ہوتے ہیں جن سے ہماری تجارت کو فائدہ ہو؟ کیا اقوام متحدہ واقعی اقوام کی نمایندہ ہے یا صرف طاقتوروں کا کلب بن چکی ہے؟ کیا عالمی عدالتِ انصاف واقعی انصاف کا ادارہ ہے یا صرف ان مقدمات کو سنتی ہے جو مغرب کی مرضی کے مطابق ہوں؟
ان تمام سوالوں کے درمیان اگرکوئی چیز باقی ہے تو وہ عام انسان کی ہمت اس کی مزاحمت اور اس کی امید ہے۔ فلسطین کی ماں جب ملبے میں دبے بچے کو اٹھاتی ہے اورکہتی ہے ہم ہارے نہیں تو وہ پوری انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یوکرین کا وہ رضاکار جو زخموں سے چور ہو کر بھی اسپتال میں بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس دنیا کی آخری کرن ہے۔ ایرانی لڑکیاں جو کتابوں کو سینے سے لگائے سڑکوں پر نکلتی ہیں وہ آنے والے وقت کی نوید ہیں۔
اس وقت ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، بغیر اس کے مذہب رنگ نسل قومیت یا ریاستی شناخت کو دیکھتے ہوئے۔ ہمیں اپنی ہمدردی کو عالمی بنانا ہو گا کیونکہ آج جو ظلم کسی اور کے دروازے پر ہو رہا ہے وہ کل ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہے جن کے پاس میڈیا نہیں جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ نہیں بن سکتے جو اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر نہیں آتے۔
ہمیں دنیا کو بدلنا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے ایک فرض ہے۔ ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے چاہے وہ اسرائیل کرے یا حماس روس کرے یا نیٹو امریکا کرے یا چین ایران کرے یا بھارت۔ کیونکہ جب ہم ظلم کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اس کے شریک ہو جاتے ہیں۔
یہ دنیا یہ زمین سب انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اسے خون سے نہیں محبت سے سینچنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو لفظ سے محبت کرتے ہیں جو سچ کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس کالم میں، میں نے دنیا بھر میں جاری ظلم اور بے حسی کا ذکر کیا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ان زخموں پر صرف مرہم نہ رکھا جائے بلکہ ان کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کیا جائے۔ آیندہ کالموں میں ایک ایک کر کے ان حالات ان سانحات اور ان چپ رہنے والوں پر تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ ہے کہ سچ کہنا سچ سننا اور سچ لکھنا ہی اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چکی ہے رہا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
غیرت ہے بڑی چیز
اسلام ٹائمز: ایران نے حیفہ کے سب سے بڑے بجلی گھر کو نیست و نابود کرکے اسے اندھیروں کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ مذکورہ آئل ریفائنری اسرائیل کی ساٹھ (60) فیصد ضروریات پوری کر رہی تھی۔ اسرائیل تلملا اٹھاہے۔ اسی لیے وہ امریکہ کو براہ راست جنگ میں شریک ہونے کا کہہ رہا ہے اور یہودی عوام ایران سے حملے نہ کرنے کی بھیک مانگ رہی ہے۔ امریکی عوام بھی ہمیں کئی حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی لگائی گئی آگ میں ہمارا ملک جل کر بھسم نہ وہ جائے۔ نتائج جو بھی ہوں، لیکن یہ بات پوری دنیا کے سامنے کھل کر آگئی ہے کہ اسلامی جمہوری ایران ایک بہادر قوم کا ملک ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف خدائے برزگ و برتر سے ڈرتے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت انہیں جھکا نہیں سکتی۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
غیرت ایمان کا بہت اہم جزو ہے۔ ایک غیرت مند مسلمان ہی اصل مسلمان ہوتا ہے۔ غیرت سے خالی مسلمان زاہد بحر و بر کیوں نہ ہو، وہ حقیقی مسلمان کہلانے کا صحیح حقدار نہیں ہے۔ ایک شب زندہ دار اگر ایمانی غیرت نہیں رکھتا تو اس کا راتوں کو جاگنا فضول اور عبث ہے۔ جو مسلمان مصلحت پسند اور بزدل ہو جائے تو وہ صاحب ایمان کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا: "قریب ہے کہ دنیا کی قوتیں تم پر چڑھ دوڑیں، جیسے کھانے والوں کو کھانے کے پیالے(دستر خوان) پر دعوت دی جاتی ہے۔" کسی نے عرض کیا یارسول اللہﷺ کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہونگے۔؟ آپﷺ نے فرمایا: "نہیں بلکہ تم اس وقت کثرت میں ہوگے، لیکن سیلاب کی جھاگ کی طرح۔" اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وھن ڈال دے گا۔ صحابی نے پوچھا یارسول اللہﷺ وھن کیا ہے۔؟ فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے کراہت (ڈر)۔"(اس حدیث کو امام ابو دائود سجستانی نے سنن ابی دائود میں ذکر کیا ہے۔ حدیث نمبر 4297)۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے، جس کی راویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ہیں، وہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے۔" (اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔) ان درجہ بالا احادیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیرت مند مسلمان ہی اللہ کے قرب میں آسکتا ہے۔ غیرت مند مسلمان اللہ کو بہت پیارا ہے۔ چونکہ وہ خود سب سے بڑا غیرت مند ہے، اسی لیے وہ غیرت مندوں کو ہی پسند فرماتا ہے۔ غیرت کی وجہ سے ہی دنیا کا کروفر ہے۔ غیرت کی وجہ سے ہی اخروی کامیابی ہے۔ اس دنیا میں غیرت سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کو غیرت مند رہنے کا بہت درس دیا ہے۔ چنانچہ وہ ایک نظم جس میں ایک بڈھے بلوچ کی اپنے بیٹے کو نصیحت کا ذکر کرتے ہیں، اسے کچھ اس طرح منظوم کرتے ہیں۔
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا کانِ کُہن سے
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘
آج ایک دفعہ پھر امت کو معرکہ روح و بدن پیش ہے، روح کا نمائندہ اسلامی جمہوری ایران ہے اور بدن کی نمائندگی اسرائیل، امریکہ اور ان کے یورپی حواری کر رہے ہیں۔ ایران روح ایمانی کے ساتھ جذبہ شہادت سے لبریز میدان کارزار میں تنہاء کھڑا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں خون خوار درندے کھڑے ہیں۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ ایران ایک ایسا غیرت مند بھیڑیا ہے کہ جس نے کبھی غلامی کو اپنے نزدیک تک نہیں آنے دیا۔ وہ اکیلا ہی دشمنان اسلام کے لیے کافی و وافی ہے۔ مگر افسوس ہے ان غلاموں پر، تف ہے ان حکمرانوں پر جو اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں، مگر ان کا سب کچھ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ہے۔ ان کی سرزمین، ان کے وسائل اسرائیل اور امریکہ کے لیے ہیں۔ وہ اسلام دشمن قوتوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اسرائیلی طیارے ایران پر بارود کی بارش کر رہے ہیں اور وہ وسائل اسلامی ممالک کے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی ری فیولنگ اسلامی ممالک سے ہو رہی ہے۔ یہ بزدل حکمران وھن کی بیماری کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ دنیا کے حریص اور موت سے خائف ہیں۔
لیکن الحمدللہ اسلامی جمہوری ایران بڑی شان و شوکت کے ساتھ میدان کارزار میں کھڑا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرا وطن پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ میرے وطن کی خدمات کا اسلامی جمہوری ایران کی پارلیمنٹ نے فلک شگاف نعروں کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ اسلام مخالف اور کچھ زر پرست صحافی ایران کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، جو بہت قابل افسوس ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ تل ابیب اور حیفہ جیسے اہم اسرائیلی شہروں اور ان کی عوام نے اپنی ناجائز پیدائش کے بعد سے اب تک ایسی تباہی کے خوفناک مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے۔ تل ابیب کی فلک بوس عمارات کو ایرانی ہائپر سونگ بلیسٹک میزائلوں نے کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا ہے۔
حیفہ اسرائیل کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اسرائیل کے تمام بڑے پروجیکٹس اسی شہر میں ہیں۔ اقتصادی اور صنعتی اعتبار سے یہ شہر اسرائیل کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ یہ اس ملک کا معاشی حب ہے۔ اس شہر کے ساتھ پوری دنیا کے یہودیوں اور صیہونیوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ یہاں ایک آئی ٹی شہر ہے، جو پورے اسرائیل کو چلا رہا ہے۔ یہاں تجارتی کمپنیوں کے بڑے بڑے دفاتر ہیں۔ یہاں بین الاقوامی کمپنیوں کے سافٹ وئیرز بھی بنائے جاتے ہیں۔ مغرب کے وائیٹل ڈیجیٹل سسٹم کی بنیاد بھی حیفہ ہی ہے۔ اسرائیل کی جی ڈی پی میں بھی اس شہر کا بہت ہی اہم کردار ہے۔ یہاں بڑے بڑے یہودی سرمایہ دار آباد ہیں۔ ایران نے اس شہر کو بہت کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ یہاں ایک بہت بڑی آئل ریفائنری تھی، جسے ایرانی میزائیلوں نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
ایران نے حیفہ کے سب سے بڑے بجلی گھر کو نیست و نابود کرکے اسے اندھیروں کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ اب حیفہ کو دوسرے ذرائع سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ مذکورہ آئل ریفائنری اسرائیل کی ساٹھ (60) فیصد ضروریات پوری کر رہی تھی۔اسرائیل تلملا اٹھاہے۔ اسی لیے وہ امریکہ کو براہ راست جنگ میں شریک ہونے کا کہہ رہا ہے اور یہودی عوام ایران سے حملے نہ کرنے کی بھیک مانگ رہی ہے۔ امریکی عوام بھی ہمیں کئی حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی لگائی گئی آگ میں ہمارا ملک جل کر بھسم نہ وہ جائے۔ نتائج جو بھی ہوں، لیکن یہ بات پوری دنیا کے سامنے کھل کر آگئی ہے کہ اسلامی جمہوری ایران ایک بہادر قوم کا ملک ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف خدائے برزگ و برتر سے ڈرتے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت انہیں جھکا نہیں سکتی۔