Express News:
2025-11-05@01:31:13 GMT

دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں ایک بچہ ملبے کے نیچے کراہ رہا ہے،کہیں ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کی لاش کو سینے سے لگا کر بین کر رہی ہے اورکہیں کسی بوڑھے کی آنکھوں میں وہ سوال ہے جو صدیوں سے انسانیت سے پوچھا جا رہا ہے ’’ آخر ہمارا قصورکیا تھا؟‘‘ لیکن جواب دینے والے سب طاقتور، سب عالمگیر ضمیر کے ٹھیکے دار ، سب ادارے خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ہماری دنیا کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے۔

اس وقت اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہر خطہ چیخ رہا ہے، ہر براعظم میں کوئی نہ کوئی آتش فشاں پھٹ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین خون سے تر ہے۔ غزہ کی گلیوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں جنھیں سننے کے لیے اقوام متحدہ کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ بچوں کی لاشیں تباہ شدہ اسکول بمباری سے ملبہ ہوئے گھر اور پانی کے لیے ترستی بستیاں یہ سب آج کے مہذب دور میں ہو رہا ہے۔

امریکا جو کبھی دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا تھا، وہ آج اسرائیل کو ہتھیار مہیا کر کے اس نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔ کانگریس میں اگر کوئی سیز فائرکا لفظ بول دے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ عالمی میڈیا جو کبھی سچ کی تلاش میں ہراول دستہ کا کام کیا کرتا تھا وہ اب طاقتوروں کی زبان بولتا ہے۔ بی بی سی اور سی این این کی اسکرینوں پر بمباری کے مناظر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ویڈیو گیم ہو۔ گویا انسانی زندگی ایک تماشہ بن چکی ہے۔

یوکرین اور روس کی جنگ نے یورپ کو اقتصادی طور پر جھنجھوڑ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں ممالک کی جنگ میں بھی سچ صرف طاقتور کے منہ سے نکلتا ہے۔ نیٹوکا کردار متنازع ہے اور روس کا رویہ جارحانہ۔ دونوں اطراف انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہزاروں نوجوان جو صرف اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے توپوں کی خوراک بن گئے، لیکن عالمی طاقتوں کا ضمیر سکون سے سو رہا ہے کیونکہ ان کی معیشتیں جنگوں سے ہی تو پروان چڑھتی ہیں۔

افریقہ کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کی نئی لہر آئی ہے۔ مالی نائجر اور چاڈ جیسے ممالک ایک بار پھر بندوقوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں۔ جمہوریت کا خواب ایک بار پھر دور ہوتا جا رہا ہے۔ اقوامِ عالم کو ان مظلوم خطوں کے عوام کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہاں تیل یا گیس کے ذخائر نہیں نہ ہی وہ مارکیٹس ہیں جہاں بڑی طاقتیں اپنی مصنوعات بیچ سکیں۔ اس لیے ان کی اذیتیں کسی کو نظر نہیں آتیں نہ ہی کوئی ان پر رپورٹنگ کرتا ہے۔

چین اور امریکا کے درمیان معاشی سرد جنگ تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ دو طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آ چکی ہیں۔ تائیوان کو لے کر جو کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لیکن اس تمام جھگڑے میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہوں گے جن کا نہ تائیوان کے آئینی موقف سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی وہ ون چائنا پالیسی کے پیچیدہ مباحث سے واقف ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب موت ہے، بھوک ہے، بے گھر ہونا ہے۔

اسی دوران برطانیہ میں اسلاموفوبیا نے نئی شکل اختیارکی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں انسان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے، آج مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے۔ یورپ میں مہاجرین کے خلاف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ سمندروں میں ڈوبتے ہوئے وہ لوگ جو صرف ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں، ان کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی ہمدردی اب پاسپورٹ اور ویزے کی محتاج ہو چکی ہے۔

اور ہندوستان جسے کبھی جمہوریت کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کہا جاتا تھا، وہاں آج مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی بھی مہذب سماج کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے۔ ایک ملک جوگاندھی نہرو اور امبیڈکرکی تعلیمات پر فخرکرتا تھا، آج ہندوتوا کے پرچم تلے اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہا ہے۔ عدالتیں خاموش، میڈیا، اندھا اور عوامی ضمیر بے حس ہو چکا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی خبریں اب کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بنتیں۔ گویا ظلم معمول بن چکا ہے اور معمول ہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔

ایران اور افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبانے کے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں بچیاں اسکول نہیں جا سکتیں، ایران کی خواتین اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو انھیں فساد فی الارض قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی برادری کی زبانیں تب کھلتی ہیں جب ان ممالک کے حکمران مغرب کے مخالف ہوں، اگر وہ مغرب نواز ہوں تو انسانی حقوق کا ذکر بھی جرم بن جاتا ہے۔

یہ کیسی دنیا ہے جہاں جمہوریت صرف اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ ہماری ترجیحات کے مطابق ہو؟ انسانی حقوق صرف وہی ہوتے ہیں جن سے ہماری تجارت کو فائدہ ہو؟ کیا اقوام متحدہ واقعی اقوام کی نمایندہ ہے یا صرف طاقتوروں کا کلب بن چکی ہے؟ کیا عالمی عدالتِ انصاف واقعی انصاف کا ادارہ ہے یا صرف ان مقدمات کو سنتی ہے جو مغرب کی مرضی کے مطابق ہوں؟

ان تمام سوالوں کے درمیان اگرکوئی چیز باقی ہے تو وہ عام انسان کی ہمت اس کی مزاحمت اور اس کی امید ہے۔ فلسطین کی ماں جب ملبے میں دبے بچے کو اٹھاتی ہے اورکہتی ہے ہم ہارے نہیں تو وہ پوری انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یوکرین کا وہ رضاکار جو زخموں سے چور ہو کر بھی اسپتال میں بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس دنیا کی آخری کرن ہے۔ ایرانی لڑکیاں جو کتابوں کو سینے سے لگائے سڑکوں پر نکلتی ہیں وہ آنے والے وقت کی نوید ہیں۔

اس وقت ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، بغیر اس کے مذہب رنگ نسل قومیت یا ریاستی شناخت کو دیکھتے ہوئے۔ ہمیں اپنی ہمدردی کو عالمی بنانا ہو گا کیونکہ آج جو ظلم کسی اور کے دروازے پر ہو رہا ہے وہ کل ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہے جن کے پاس میڈیا نہیں جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ نہیں بن سکتے جو اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر نہیں آتے۔

ہمیں دنیا کو بدلنا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے ایک فرض ہے۔ ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے چاہے وہ اسرائیل کرے یا حماس روس کرے یا نیٹو امریکا کرے یا چین ایران کرے یا بھارت۔ کیونکہ جب ہم ظلم کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اس کے شریک ہو جاتے ہیں۔

یہ دنیا یہ زمین سب انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اسے خون سے نہیں محبت سے سینچنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو لفظ سے محبت کرتے ہیں جو سچ کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے۔

اس کالم میں، میں نے دنیا بھر میں جاری ظلم اور بے حسی کا ذکر کیا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ان زخموں پر صرف مرہم نہ رکھا جائے بلکہ ان کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کیا جائے۔ آیندہ کالموں میں ایک ایک کر کے ان حالات ان سانحات اور ان چپ رہنے والوں پر تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ ہے کہ سچ کہنا سچ سننا اور سچ لکھنا ہی اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چکی ہے رہا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

تعریفیں اور معاہدے

دنیا کی سیاست میں کبھی کوئی دوستی مستقل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی دشمنی ہمیشہ کے لیے ٹھہری۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی مفاد پرستی پر ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکا پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی امریکا بھارت کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگا رہا ہے۔

بات صرف فوجی تعاون تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، تجارت، ایٹمی توانائی اور خلائی تحقیق تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں جب امریکی صدر یا وزیر پاکستان کے حق میں کوئی تعریفی بیان دیتا ہے تو ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھل جاتے ہیں جیسے کوئی بڑی فتح حاصل ہو گئی ہو مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعریفوں کے پیچھے جو سیاست چھپی ہے، وہ دراصل مفادات کا جال ہے اور اس جال میں ہم برسوں سے الجھے ہوئے ہیں۔

امریکا نے سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ کبھی روس کے خلاف مورچہ بنوایا، کبھی افغانستان کے جہاد میں دھکیلا اور جب مقاصد پورے ہوگئے تو تنہا چھوڑ دیا۔ بھارت اُس وقت غیر جانبداری کے فلسفے پرکاربند تھا، پنڈت نہرو اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں سامراج کی مخالفت کرتے تھے، مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ اب بھارت، امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ رکھتا ہے۔ کل تک جو ملک غیر جانبدار تھا، آج وہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہی ہے سرمایہ داری کی نئی شکل جہاں طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتے ہیں۔

امریکا کے نزدیک دوستی کا معیار اصول نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے۔ جہاں خرید و فروخت زیادہ ہو جہاں سرمایہ کاروں کے لیے راستے کھلیں وہیں سفارت کاری بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی برابرکی بنیاد پر نہیں رہے۔ کبھی ہمیں امداد کے وعدوں سے بہلایا گیا،کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں مانگی گئیں۔ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی دی جا رہی ہے اور ہمیں دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہی ہے اس دنیا کی طاقت کی حقیقت ہے جہاں دوستی بھی ناپ تول کرکی جاتی ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کسی بڑی طاقت کی تعریف کے محتاج رہے۔ کبھی امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیاں بدلیں،کبھی چین کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپنی خود مختاری کو بیرونی تعلقات کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔ ہر بار جب واشنگٹن سے کوئی تعریفی لفظ سنائی دیتا ہے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید تاریخ بدلنے والی ہے لیکن وہ لفظ صرف سفارتکاری کا ایک جملہ ہوتا ہے جس کے پیچھے سود و زیاں کی طویل فہرست چھپی ہوتی ہے۔

ادھر بھارت میں سامراج کی آغوش میں بیٹھے رہنماؤں کو یہ فخر ہے کہ امریکا نے انھیں چین کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ انھیں معلوم نہیں کہ یہ قربت وقتی ہے۔ جس طرح ایک وقت میں امریکا نے صدام حسین، ضیاء الحق اور دیگر حلیفوں کو استعمال کیا، اسی طرح بھارت بھی ایک دن اس کھیل کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ یہ دوستی نہیں، یہ سرمایہ دارانہ ضرورت ہے اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔

امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاہدے دراصل اس خطے کو مزید عسکری مسابقت میں جھونک رہے ہیں۔ ہر نئے دفاعی معاہدے کے بعد جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہو جاتی ہے۔ عوام بھوک بے روزگاری اور مہنگائی میں پس رہے ہیں مگر حکمران اسلحے کے سودوں پر مسکرا رہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاع پر صرف ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے بچی کھچی رقم بھی عالمی اداروں کے قرضوں کے سود میں چلی جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ترقی پسند قلم سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہ تعریفیں اور معاہدے عوام کے کس کام کے ہیں؟ امریکا کے کسی صدرکے چند جملے یا بھارت کے ساتھ ہونے والا کوئی بڑا معاہدہ نہ تو اس خطے کے مزدور کے چولہے کو جلا سکتا ہے، نہ ہی کسی کسان کے کھیت کو سیراب کر سکتا ہے۔ جب تک خطے کی قومیں اپنی پالیسیاں عوامی مفاد کے مطابق نہیں بنائیں گی تب تک یہ تمام معاہدے صرف طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے عوام کی خوشحالی کو اسلحے کے انبار سے زیادہ اہم سمجھیں۔ وہ دن شاید دور نہیں جب سامراجی طاقتوں کی مسکراہٹوں میں چھپی دھوکا دہی پہچانی جائے گی۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعریف پہ توجہ نہ دیں بلکہ یہ دیکھیں کہ معاہدوں کے کاغذوں پرکس کا خون اورکس کی محنت لکھی جا رہی ہے۔ سچی آزادی وہی ہے جو عوام کے شعور اور خود اعتمادی سے پیدا ہو نہ کہ کسی طاقتور ملک کے عارضی کلماتِ تحسین سے۔

 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔ کوئی بیرونی طاقت نہ ہماری آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے نہ ہماری معیشت کی ضامن۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور امن کا راستہ اسلحے سے نہیں بلکہ تعلیم روزگار اور انصاف سے گزرتا ہے۔جب تک عوام کو اپنی قوت پر یقین نہیں آئے گا، تب تک وہ طاقتور ممالک کی تعریف کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ قومی وقار کسی دوسرے ملک کے بیانات سے نہیں بلکہ اپنے عمل اپنی محنت اور اپنی خود داری سے حاصل ہوتا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہمیں واقعی ترقی اور آزادی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں اپنی داخلی سیاست میں شفافیت انصاف اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب ریاست اپنی عوام کو بااختیار بناتی ہے تو بیرونی طاقتیں خود بخود کمزور ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو حقیقی آزادی کا زینہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • تعریفیں اور معاہدے
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • امید ہے نواز شریف اپنے بھائی کو آئینی ترمیم سے روکیں گے، زبیر عمر
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی