ذاتی نوعیت کا سوال، مریم نفیس مداحوں پر بھڑک اٹھیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
پاکستانی اداکارہ مریم نفیس نے سوشل میڈیا پر انتہائی ذاتی نوعیت کا سوال کرنے پر مداحوں کو کھری کھری سنادیں۔
مریم نفیس نے گزشتہ دنوں اپنے انسٹاگرام پر سوال و جواب کا ایک سیشن کیا، جس کے دوران ایک صارف نے ان سے ذاتی زندگی کے بارے میں سوال پوچھا تو اداکارہ کا جواب سن کر سب ہکا بکا رہ گئے۔
انسٹا صارف نے مریم نفیس سے سوال کیا تھا کہ ’’دوسرا بچہ کب؟‘‘ جس پر بھڑک پر مریم نفیس نے جواب دیا کہ ’’کیا آپ دائی ہیں؟‘‘
اداکارہ نے اپنی اسٹوری میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’’یہ حیران کن ہے کہ کتنے لوگ مجھ سے یہ ذاتی سوال پوچھنے کی جرأت کرتے ہیں۔ کب سیکھیں گے کہ ایسے سوال نامناسب ہوتے ہیں؟‘‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب مریم نفیس نے سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں فضول تجسس رکھنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا ہو۔ اپنی اداکاری اور میزبانی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی صاف گوئی اور بے باک انداز کےلیے بھی جانی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے مریم کے اس ردعمل پر مختلف آراء کا اظہار کیا۔ کچھ نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فنکاروں کی نجی زندگی کو احترام دینا چاہیے، جبکہ کچھ نے اسے ضرورت سے زیادہ حساسیت قرار دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مریم نفیس نے
پڑھیں:
اے سپہ سالارِ وطن! کیا آپ کو قوم کی بیٹی یاد ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمیں خبر ملی ہے کہ امریکا کی فصیلوں میں ایک دروازہ کھلا، اور اْس دروازے سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قافلہ داخل ہوا۔ وہی امریکا جس نے کبھی ہمارے وزیراعظم کے فون تک نہ اٹھائے، آج اس کا صدر آپ سے ملاقات کو اعزاز کہہ رہا ہے اور ہمیں خوشی ہوئی… بے حد خوشی۔
لیکن اے سردار! یہ خوشی تاریخ کی تھکن سے نکلی ہے اور اس کے پیچھے بہت سے سوال، خدشے، زخم اور امیدیں چھپی ہیں۔ ماضی کی گرد اْڑتی ہے… اور ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم نے وعدے سنے، وفاداری نبھائی، لیکن 1965 کی جنگ میں ہم تنہا تھے، 1971 میں ہمارا بازو کاٹ دیا گیا، افغان جہاد کے بعد ہمیں پْشیمانیوں کی دھول ملی، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے بچوں کی قبریں اور دنیا کی طعنہ زنی، پھر FATF آیا، ڈرون حملے ہوئے اور پریسلر کی چھری چلی۔
تو سوال ہے سردار… کیا یہ تاریخ دہرانے کا آغاز تو نہیں؟ کیا امریکا کی یہ گرم جوشی کسی نئے سرد طوفان کی تمہید تو نہیں؟ کیا بھارت کو تھپکی اور پاکستان کو تسلی… ایک پرانی چال تو نہیں؟ ہم جانتے ہیں آپ باخبر ہیں مگر قوم بھی باشعور ہو چکی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ امریکا کے پاس دوست نہیں، صرف مفادات ہوتے ہیں۔ قوم آپ پر فخر کرتی ہے کہ آپ نے میدان میں، دل میں، وردی میں، ہر جگہ قرآن، سنت اور وطن کی عزت کو ترجیح دی۔ مگر اے سپہ سالار! اک سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ شاہنواز فاروقی کا شعر ہے
’’نظام زیست کی حرمت بحال کرتے رہو
کوئی بھی بزم ہو اْٹھ کر سوال کرتے رہو‘‘
وہ اک سوال ہے… جو کہ بہت نازک… اور بہت پرانا۔ جب آپ نے ٹرمپ سے مصافحہ کیا تو کیا آپ کے دل میں ایک بیٹی کی قید کی کسک بھی جاگی؟ کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام، جو مشرف کی غلامانہ سوچ اور سرد مہری کی بھینٹ چڑھی، جسے 86 سال کی سزا ملی صرف اس لیے کہ وہ قرآن سے محبت کرتی تھی۔ کیا اس بیٹی کا ذکر، اس خاندان کا دکھ، اس قوم کا زخم… آپ کے الفاظ میں ڈھلا؟
اے محافظ وطن! قوم کی آنکھ نم ہے… امید زندہ ہے… قوم کو معلوم ہے کہ آپ وفا کے قائل ہیں، آپ کے سینے میں وہ دل دھڑکتا ہے جو سجدے میں جھکتا ہے، تو ہمیں امید ہے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے پہلی بار کسی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہو گی۔ لیکن اے سپہ سالار…
ہم پاکستانی صرف یقین سے مطمئن نہیں، ہمیں خبر بھی چاہیے، مرہم بھی، اور جواب بھی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وقت حکمت و جرأت کا ہے، اور قوم دعاگو ہے کہ آپ کا ہر قدم، ہر بات، ہر ملاقات، جذبہ جہاد، عزتِ ملت، اور غیرتِ قوم کا علم بردار ہو۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ یہ جو فتوحات ہم دیکھ رہے ہیں، یہ صرف توپ، ٹینک یا تعلق کی بدولت نہیں، یہ ایمان، تقویٰ، اور جہاد کے ثمرات ہیں۔ تو اس وقت ہمیں صرف جشن نہیں بلکہ بیداری، احتیاط اور توازن کی ضرورت ہے۔ اور آخر میں فقط ایک دعا: ’’اے اللہ! ہمیں ایسے رہنما دے جو دشمن سے ڈرے نہیں، اور دوست کو پہچانے، ہمیں ایسی حکمت دے جو غیرت کے ساتھ جڑی ہو، اور ایسی فتح دے جو صرف میدان میں نہیں، بلکہ قید خانوں، محروم دلوں، اور مظلوم بیٹیوں کے لیے ہو۔ آمین۔