پاکستان بھارت کشیدگی: امن کے قیام کیلئے برطانیہ، روس اور جاپان میدان میں آگئے
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
پاکستان بھارت کشیدگی: امن کے قیام کیلئے برطانیہ، روس اور جاپان میدان میں آگئے WhatsAppFacebookTwitter 0 7 May, 2025 سب نیوز
لندن(آئی پی ایس) برطانیہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کشیدگی کم کرانے کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کردی ہے۔
برطانوی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ “ہم پاکستان اور بھارت دونوں کے دوست اور شراکت دار ہیں، اور ہم علاقائی استحکام، ڈائیلاگ اور کشیدگی کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کرنے کو تیار ہیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ برطانیہ خطے میں امن و امان کے قیام اور دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے ہر سطح پر معاونت فراہم کرے گا۔
دوسری جانب، روس اور جاپان نے بھی پاک بھارت کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی اپیل کی ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ “ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی پر فکر مند ہیں اور دونوں ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں۔”
جاپانی چیف کیبنٹ سیکریٹری نے بھی اسی مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ “پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے صورتحال کو مستحکم کرنا چاہیے۔”
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم آزاد کشمیر کی ایمرجنسی ہیلتھ رسپانس سینٹر قائم کرنے کی ہدایت وزیراعظم آزاد کشمیر کی ایمرجنسی ہیلتھ رسپانس سینٹر قائم کرنے کی ہدایت قومی سلامتی کمیٹی نے پاک فوج کو بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کا اختیار دیدیا بھارت کا پاکستان پر حملہ؛ پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کا 7سالہ بیٹا بھی وطن پر قربان ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے احکامات پر عملدرآمد شروع، کیپیٹل ہسپتال میں ریڈ الرٹ جاری فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آج سنایا جائے گا پاک فوج نے ایک اور بھارتی ڈرون مار گرایاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
دو ہمسائے، دو راستے، امن یا تصادم
جنوبی ایشیاء کے دو اہم ممالک، پاکستان اور بھارت، اپنے قیام سے ہی باہمی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی نہ صرف ان دو ممالک کے عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لےکرموجودہ دور تک، دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی بار بہتری کی امید پیدا ہوئی، لیکن ہربار یہ امیدیں یا تو جنگ کی دھول میں گم ہو گئیں یا سفارتی تنازعات میں تحلیل ہو گئیں۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کی جڑیں 1947ء کی تقسیم ہند میں پیوست ہیں۔ تقسیم کے بعد پہلا بڑا تنازعہ کشمیر کے مسئلے پر سامنے آیا۔ 1948ء، 1965ء، اور 1999ء میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1971ء کی جنگ نے تو پاکستان کے ایک بازو کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نیاملک بنوا دیا۔کشمیر کا مسئلہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، جبکہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اس تنازعے نے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل دشمنی، فوجی دوڑ، اور سفارتی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے۔
سفارتی تعلقات اور سرحدی جھڑپیں پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی صرف میدانِ جنگ یا سرحدی جھڑپوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ سفارتی سطح پر بھی یہ تعلقات اکثر نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔ سفیروں کی ملک بدری، مذاکرات کی معطلی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا معمول بن چکا ہے۔پلوامہ حملے (فروری 2019ء) کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملےکیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو حراست میں لےکر بعد میں خیرسگالی کے طور پر واپس کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف جنگ کے خطرے کو ہوا دے رہا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کے امکانات کو بھی بڑھا رہا تھا۔پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اکثر کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے۔ جذباتی اور جانبدار رپورٹنگ نے عوام میں نفرت کو ہوا دی اور سیاسی مقاصد کے لیےمخالف ملک کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ دونوں ممالک کےٹی وی چینلز اور اخبارات اکثر حب الوطنی کے نام پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جس سے عوامی شعور متاثر ہوتا ہے اور تنازعے کےحل کی راہ مزیددشوار ہو جاتی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان دونوں ممالک کے عوام کو پہنچا ہے۔ اگر ہم دفاعی اخراجات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفاعی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ وسائل اگر تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ کئے جائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔کشیدگی کی وجہ سے باہمی تجارت بھی محدود ہوچکی ہےحالانکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ مشترکہ منصوبے، تجارتی راستے، اور سیاحتی ترقی پورے خطے کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی،جس پر پاکستان نےشدید ردعمل دیا۔ اس اقدام کےبعد سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں معمول بن گئیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس تنازعے کےحل کے لیے کئی بار اپیل کر چکے ہیں لیکن دونوں ممالک کی پالیسیوں میں لچک نہ ہونےکیوجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی۔2025 ء میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اگرچہ کچھ مواقع پر خفیہ سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے حالات میں نرمی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ طویل مدتی حل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سرحدوں پر کبھی سکون ہوتا ہے تو کبھی اچانک فائرنگ یا حملوں کی خبریں آ جاتی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی آواز بلند رہتی ہے جبکہ بھارت اسے اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ کشیدگی اور دشمنی کے اس چکر سےباہرنکل کر امن، ترقی، اورباہمی احترام کی راہ اپنائیں۔ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی ہر کشیدگی کو عالمی خطرہ بناتی ہے۔دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ویزہ پالیسی میں نرمی، ثقافتی تبادلے اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر کے مشترکہ اقتصادی منصوبے دونوں ممالک کو قریب لا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس معاملے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک پر دباؤ ہو کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ایک پیچیدہ اورحساس معاملہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر دونوں ممالک صبر، برداشت اور عقل مندی کا مظاہرہ کریں ۔ دشمنی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، جبکہ امن کی راہ پر چل کر دونوں ممالک نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ جذباتی ردعمل کے بجائےدانشمندی سےکام لیں اور باہمی احترام کو فروغ دیں ۔ اگر دونوں ممالک اپنے عوام کے بہتر مستقبل کو مقدم رکھیں تو دشمنی کے بجائے دوستی کا راستہ اپنایاجاسکتا ہے اور میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں اور امن کے فروغ میں مثبت کردار ادا کریں اور ایسے حالات میں میڈیا کو جنگی جنون کے بجائے امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔