معذور ماں کو کمر پر لاد کر دنیا گھمانے والا 51 سالہ شخص
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
چین میں ایک 51 سالہ شخص کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنی معمر معذور ماں کو کمر پر لاد کر مختلف علاقوں کا سفر کر رہا ہے۔شائے وانبین نامی شخص کا تعلق صوبہ سیچوان سے ہے اور وہ روایتی چینی پٹی کو استعمال کرکے اپنی معذور ماں کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ان دونوں نے Chengdu کے تاریخی قصبے Huanglongxi کا دورہ گزشتہ دنوں کیا۔اس موقع پر شائے وانبین نے بتایا کہ ان کی والدہ ایک حادثے کے باعث 4 سال سے وہیل چیئر تک محدود ہیں اور جب سے وہ انہیں اکثر سیاحت کے لیے ساتھ لے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ ان دوروں کے دوران وہیل چیئر اور پٹی دونوں کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ کئی بار راستے ایسے ہوتے ہیں جہاں وہیل چیئر کے ساتھ سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ایک خاتون سیاح نے دونوں کی تصاویر اور ویڈیوز چینی سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔خاتون کے مطابق وہ شائے اور ان کی والدہ کو نہیں جانتیں مگر وہ شائے وانبین کے رویے سے بہت زیادہ متاثر ہوئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ 'یہ شخص ماں سے بہت زیادہ مخلص لگتا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب وہ اپنی ماں کو کمر پر لاد کر سفر کر رہا ہے'۔خاتون کے مطابق 'میں نے ویڈیوز اس لیے انٹرنیٹ پر جاری کیں کیونکہ میں اس شخص کی محبت کو پھیلانا چاہتی تھی'۔شائے وانبین کے مطابق 'والدہ کو کمر پر لاد کر چلنا ایک بیٹے کا فرض ہے اور ایسا کوئی خاص کام نہیں'۔انہوں نے کہا کہ وہ جس پٹی کو استعمال کرتے ہیں یہ وہی ہے جو ان کی والدہ کچھ سال قبل اپنے پوتے پوتی کو لاد کر چلنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔شائے وانبین نے بتایا کہ ماں کو لاد کر سفر کرنے کے باعث انہیں کمر میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس کا علاج انہوں نے کچھ ماہ پہلے کرایا تھا جبکہ کئی بار وہ بہت زیادہ تھک جاتے ہیں۔مگر انہوں نے کہا کہ 'اگر ممکن ہوا تو میں اپنی ماں کو بہت زیادہ دور دراز کے علاقوں میں لے کر جاؤں گا اور زیادہ سے زیادہ دنیا دیکھوں گا'۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کو کمر پر لاد کر شائے وانبین بہت زیادہ انہوں نے ماں کو رہا ہے
پڑھیں:
کیا اسلام کے عالمگیر غلبے کا آغاز ہونے والا ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے یہ شعر کہلوایا ہے۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
اس شعر میں خدا مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمان جنہوں نے کبھی پوری دنیا کو فتح کیا تھا بلاشبہ وہ سب تمہارے بزرگ تھے مگر بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں میں ان کی ایک بھی خوبی موجود نہیں۔ خدا کے بقول آج کے مسلمان تو صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مستقبل کا انتظار کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں کی صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔ آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ نہ ان کا کوئی شاندار ماضی تھا نہ ان کا کوئی روشن حال ہے اور نہ ہی ان کا کوئی تابناک مستقبل ہے۔ اقبال کے بقول آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
مسلمانوں کے پاس آج 57 ریاستیں ہیں مگر ان کی حیثیت روئے زمین پر 57 جھونپڑیوں سے زیادہ نہیں۔ مسلمانوں کے پاس تیل اور گیس کی بے پناہ دولت ہے مگر اس دولت سے وہ نہ اپنے ماضی سے زندہ تعلق پیدا کررہے ہیں نہ اپنے حال کو بہتر کررہے ہیں اور نہ کوئی شاندار مستقبل کاشت کررہے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا اصرار ہے کہ دنیا میں اسلام کے عالمگیر غلبے کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ اس کا شعور ہماری تاریخ میں یا تو اقبال کو تھا یا مولانا مودودی کو۔ مولانا مودودی نے 1950ء کی دہائی میں صاف کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ کمیونزم کا ماسکو میں کوئی پرستار نہیں ہوگا اور ایک وقت آئے گا جب مغرب کے بڑے مراکز میں سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ڈیموکریسی کی کوئی مان دان نہیں ہوگی۔ مولانا کے الفاظ یہ نہیں تھے مگر ان کی بات کا مفہوم یہی تھا لیکن اقبال نے مولانا مودودی سے بھی بہت پہلے اپنی ایک نظم اور اپنے ایک شعر میں مسلمانوں کے ’’عہد عروج‘‘ کی پیش گوئی کردی تھی۔ اقبال کی ایک نظم کا عنوان ہے۔ 1907ء ذرا اس نظم کے کچھ اشعار کو ملاحظہ کیجیے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردۂ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہو شیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
اقبال کی اس نظم کے پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں وہ ہٹنے کا وقت آنے والا ہے اور خدا کی قدرت کاملہ معجزات کی صورت میں اس طرح آشکار ہوجائے گی کہ اربوں انسان اپنی آنکھوں سے خود اس کا مشاہدہ کریں گے۔ جس طرح کبھی رسول اکرمؐ کے دور میں اسلام پر مرمٹنے والے صحابہ کرام تھے وہ ایک بار پھر انسانی بستیوں میں نمودار ہوجائیں گے۔ انہیں اس طرح آزمایا جائے گا جس طرح صحابہ کرام کو آزمایا گیا تھا مگر ان کی آزمائشیں ’’بالکل نئی‘‘ ہوں گی۔ مغرب نے خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو ’’دکان‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے حالانکہ خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔ چنانچہ اہل مغرب جن جن چیزوں پر ناز کررہے ہیں وہ سب حقیر ثابت ہونے والی ہیں۔ اور یہ مغربی تہذیب اپنے ہی خنجر یعنی عقل پرستی سے خودکشی کرلے گی۔ آخر شاخ نازک پر بنے ہوئے آشیانے کا انجام تباہی کے سوا کیا ہے؟ چنانچہ مغربی تہذیب بھی جلد فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی۔
جیسا کہ ظاہر ہے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، علمی، سیاسی، معاشی اور تخلیقی حالت اچھی نہیں مگر مسلمانوں کا ایک کمال غیر معمولی ہے۔ ہندوئوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ویدوں اور گیتا کی صورت میں توحید کا پیغام دیا تھا مگر ہندوئوں نے ایک خدا کی خدائی کو ترک کرکے خدا کے شریک ایجاد کرلیے۔ یہودیت کے پاس بھی کبھی توحید موجود تھی مگر ان کی عظیم اکثریت نے توحید کیا
پورے مذہب ہی کو چھوڑ دیا اور آج یہودیوں کی عظیم اکثریت سیکولر زندگی اختیار کیے ہوئے ہے۔ عیسائیوں کے پاس بھی کبھی توحید کا سرمایہ تھا مگر عیسائیوں نے کسی سند کے بغیر سیدنا عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک کا ارتکاب کرلیا۔ مزید المناک بات یہ ہوئی عیسائیوں کی اکثریت نے جدیدیت کے زیر اثر اپنا مذہب ہی چھوڑ دیا اور آج عیسائیوں کی تمام ریاستیں سیکولر اور لبرل ریاستیں ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی اور علمی حالت ناگفتہ بہ ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ابھی تک قرآن و سنت اور قرآن و حدیث سے چمٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ دنیا میں اگر توحید کے پیغام کو عام ہونا ہے اور پوری انسانیت کو اگر توحید کے گرد طواف کرنا ہے تو توحید کا خالص تصور صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلمانوں کے پاس صرف توحید کا تصور ہی نہیں ہے دین کی پوری روایت موجود ہے۔ اس پوری روایت کا عالمگیر احیا ہوگا تو دنیا سیکولر ازم، لبرل ازم اور قوم پرستی کے ہولناک اور امراض سے نجات حاصل کرے گی۔
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی رہنما رسول اکرمؐ کی وہ حدیث مبارکہ ہے جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا اور اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مشیت ہوگی اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کم و بیش 50 سال سے کاٹ کھانے والی آمریت کے تحت اجتماعی زندگی بسر کررہی ہے اور یہ کاٹ کھانے والی آمریت کم و بیش اپنے تمام امکانات ظاہر کرچکی ہے اور اب اس کے پاس مسلمانوں کو دکھانے کے لیے کوئی اور تماشا نہیں ہے۔ چنانچہ اب رسول اکرمؐ کی حدیث مبارکہ کی رو سے ہم خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کے آغاز کے بہت قریب کھڑے ہیں۔
اس تجربے کی نوعیت کیا ہوگی یہ بات تو خدا ہی جانتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جدید مغرب نے مذہب کی جو تحقیر پیدا کی ہے اسے کسی علمی دلیل سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ مغرب کے ممتاز دانش ور جیمز فریزر نے اپنی کتاب ’’گولڈن بائو‘‘ میں جس کا اردو میں ’’شاخ زریں‘‘ کے نام سے سید ذاکر علی ترجمہ کرچکے ہیں انسان کی پوری فکری تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسانی فکر کا پہلا عہد جادو کا عہد تھا۔ اس عہد میں انسان جادو کے زیر اثر زندگی بسر کرتا تھا۔ جادو ہی انسانوں کا ضابطۂ حیات تھا۔ انسانی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا اور پھر انسان ہزاروں سال تک مذہب کے ضابطۂ حیات کے تحت زندگی بسر کرتا رہا۔ انسان کی فکر نے مزید ’’ترقی‘‘ کی تو انسان نے فلسفہ وضع کرلیا اور ساری دنیا میں فلسفے کا عہد شروع ہوگیا۔ انسان ہزاروں سال تک فلسفے کے زیر اثر زندگی گزارتا رہا۔ انسان کی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے سائنس تخلیق کرلی اور آج ہمارا عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کا عہد ہے اور اب سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہمارا ضابطۂ حیات ہے۔ جیمز فریزر نے انسانی تاریخ کی جو تعبیر بیان کی ہے پورا مغرب اس پر ایمان لایا ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب گویا انسان کے عہد طفولیت کی یادگاریں ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مقابلے پر مذہب کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو ان کی نوعیت تقریباً ’’معجزاتی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ ریڈیو 20 ویں صدی کا ایک بڑا ’’معجزہ‘‘ تھا۔ وہ انسانی آواز کو ہزاروں کلو میٹر تک پہنچا سکتا تھا مگر ٹیلی وژن ریڈیو سے بھی بڑا معجزہ بن کر سامنے آیا اس لیے کہ اس نے تصویر کو متحرک کرکے ہزاروں کلو میٹر تک پہنچانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ماضی کے ’’تناظر‘‘ میں دیکھا جائے تو ’’بجلی‘‘ خود ایک معجزے کی طرح ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان دل کے آپریشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر جدید سرجری نے دل کے آپریشن کو ’’معمول کی چیز‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کو ایسے سیکڑوں معجزات سے بھر دیا ہے۔
چنانچہ اب اکیسویں صدی میں جب خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کا آغاز ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے معجزات کا ظہور ہوگا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ساری ’’ترقی‘‘ ان کے آگے بچوں کا کھیل نظر آئے گی۔ انسان کے پاس ایجاد و اختراع کی جو صلاحیتیں ہیں وہ بھی اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں مگر خدا کی معجزاتی صلاحیت کے مقابلے پر انسانی معجزات کی اوقات ہی کیا ہے۔ چنانچہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کے آغاز کے بعد جو معجزات ظاہر ہوں گے مغرب کا سائنس اور تکنیکی ذہن بھی ان کا انکار نہیں کرسکے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری مغربی دنیا مسلمان ہوجائے گی۔ مغرب مسلمان ہوجائے گا تو ہندوستان کیسے دائرہ اسلام سے باہر رہے گا؟ افریقا کیوں نعمت خدا وندی سے محروم رہے گا؟
سوال یہ ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کا آغاز کہاں سے ہوگا؟ اس سلسلے میں ہم نے آج سے 25 سال پہلے کہیں ایک حدیث مبارکہ پڑھی تھی۔ رسول اکرمؐ نے ایک حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ مجھے ہندوستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اقبال نے اس حدیث شریف کا ذکر اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے۔
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
یہاں ہم ہندوستان کے بجائے ’’برصغیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ممکن ہے کہ اس تجربے کا آغاز ہندوستان سے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس تجربے کا آغاز پاکستان سے ہو۔ آخر پاکستان لیلتہ القدر میں تخلیق ہوا تھا۔