مئی 1998 کی بات ہے۔ بھارت نے اچانک 5 ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو پلٹا کر رکھ دیا۔ 9 مئی کو ہونے والے یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کے لیے تازیانہ بن گئے۔ پاکستان سے فوری ردعمل کی توقع تھی مگر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔ پاکستان نے بین الاقوامی طور پر احتجاج تو کیا مگر پاکستانیوں کو اس سے زیادہ کی توقع تھی۔
پاکستانیوں کی عمر گزر گئی تھی یہ قصہ سنتے سنتے کہ کس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ سے یورینیم افزودگی کے طریقے پاکستان بھجوائے، کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اس منصوبے کا خفیہ اجرا کیا اور کس طرح ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے اٹامک پلانٹ کو تخلیق کیا۔
اس زمانے میں سب سے بڑا خواب یہی تھا کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنے گا۔ اس قوت کے بننے سے پاکستان ہی نہیں پورا عالم اسلام محفوظ ہو جائے گا۔ بھارت کی عددی بالادستی خاک میں مل جائے گی اور خطے میں طاقت کا توازن قائم ہو گا۔
ہوا یوں کہ بھارت نے 9 مئی کو 5 دھماکے کیے لیکن پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بین الاقوامی طور پر احتجاج کو پاکستانیوں نے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستانی چاہتے تھے کہ ابھی اور اسی وقت ہم ایٹمی دھماکے کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ پاکستان ایک ناقابل تسخیر ایٹمی قوت ہے۔
دوسری طرف بھارت میں جشن کا سماں تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ بالآخر پاکستان کو تسخیر کر لیا گیا۔ بھارتی عوام اور پارلیمنٹ فتح کے گیت گا رہے تھے مگر پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔
اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف دفاعی تجزیہ کاروں، سائنسدانوں سے مذاکرات کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد واشگاف طور پر بتا دیا جائے کہ ہم پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ سائنسدانوں نے نواز شریف سے تیاریوں کے لیے 3 ہفتے کا وقت مانگا۔ نواز شریف کو جلدی تھی مگر کسی غلطی کا رسک بھی نہیں لیا جا سکتا تھا۔
پاکستان نے اپنے طور پر تیاریاں شروع کر دیں لیکن ان تیاریوں کی خبر عوام تک نہیں پہنچی۔ لوگ کے لیے معلومات کو روایتی بیانات تک محدود رکھا گیا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جاتا تھا۔ اپنے لوگ یہ سمجھنے لگے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی اہلیت ہے ہی نہیں۔ عبدالقدیر خان ایک فراڈ ہیں۔ اٹامک انرجی ایک ناکام پراجیکٹ ہے۔ حکومت پاکستان بزدل اور نااہل ہے۔ فوج مصلحت کا شکار ہے۔ پاکستان بین الاقوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ نواز شریف نے امریکا سے ڈالر پکڑ لیے ہیں الغرضیکہ جتنے منہ تھے اتنی باتیں۔
کوئی پاکستانی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے روایتی حریف کے سامنے چھوٹا پڑے۔ کوئی بھارت کی برتری کوتسلیم کرنے پر رضامند نہیں تھا۔ کوئی خطے میں طاقت کے توازن کو بگڑتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ لوگوں کے جذبات بھڑک رہے تھے۔ حکومت پر تنقید کے تبرے برسائے جا رہے تھے۔ لوگ مجموعی طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ نہ ہمارے پاس ایٹمی اہلیت ہے اور اگر ہے تو اس کے اظہار کی جرات نہیں ہے۔
یہ ایک تکلیف دہ کیفیت تھی۔ اصل صورت حال نواز شریف اور اہم عسکری عہدیدار ہی جانتے تھے۔ 3 ہفتے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ ان 3 ہفتوں میں نہ عوام کو کچھ بتایا جا سکتا تھا نہ دلاسا دیا جا سکتا تھا۔
خیر خدا خدا کر تین ہفتے گزرے۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر 7 کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان کسی بین الاقوامی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا۔ جس وقت یہ دھماکے کیے گئے بھارت میں لوک سبھا کا اجلاس چل رہا تھا۔
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی فاتحانہ تقریر کر کے اپنے ہم وطنوں کا دل گرما رہے تھے۔ ان کی تقریر رکوائی گئی اور انہیں پاکستان کے 7 کامیاب ایٹمی دھماکوں کی اطلاع دی گئی۔ وہ منظر آج بھی یو ٹیوب پر محفوظ ہے۔ بھارت کی ساری شیخی ایک لمحے میں دھری کی دھری رہ گئی۔ فتح کا جشن منانے والے اچانک ماتم کرنے لگے۔ نعرے مارنے والے سسکیاں بھرنے لگے۔ ساری دنیا میں پاکستان کی ایٹمی قوت کے ڈنکے بجنے لگے۔ پاکستانیوں کے جذبے آسمان تک جا پہنچے۔ نعرہ تکبیر کی صدائیں فضا میں گونجنے لگیں۔ اس دن کے بعد کسی کی کبھی جرات نہیں ہوئی کہ پاکستان کی طرف بری نظر سے دیکھے۔
27 سال پرانی ساری کہانی کا صرف ایک مقصد ہے کہ اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ بھارت بزدلانہ در اندازی کر چکا ہے، اب پاکستان کے جواب دینے کی باری ہے۔ سب کو جلدی ہے۔ لوگ طعنے بھی دے رہے ہیں اور طنز بھی کر رہے ہیں۔ دبے دبے لفظوں میں یہ بات کہنا شروع ہو گئے کہ شاید ہم نے شکست تسلیم کر لی ہے۔
ایسے تمام دوست جو سوشل میڈیا پر مایوسی پھلا رہے ہیں، ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت کی دراندازی کے جواب میں پاکستان چپ سادھ لے۔ خاموشی سے بھارتی برتری تسلیم کر لے، یہ ممکن ہی نہیں ۔
یہ جو جلدباز لوگ فوری رد عمل کا تقاضا کر رہے ہیں یہ اسی قبیل کے لوگ ہیں جو 9 مئی 1998 سے لیکر 27 مئی تک مایوس ہوچکے تھے۔
یاد رکھیں! پاکستان بھارت کو جواب ضرور دے گا۔ ایسا جواب جس کا بھارت نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ایسا جواب جس سے بھارت کا غرور سرنگوں ہو جائے گا۔ ایسا جواب جو خطے میں پاکستان کی برتری کے لیے حتمی اور اٹل ہوگا۔
اس ملک سے اور اس فوج سے مایوس نہ ہوں۔ یہ جان تو قربان کر سکتے ہیں مگر بھارت کی برتری تسلیم نہیں کر سکتے۔
بھارت کو بے شک عددی برتری حاصل ہے، جدید ٹیکنالوجی اس کے پاس ہے لیکن جن کے دل میں جذبہ شہادت موجزن ہو وہ کسی سے بھی ٹکرانے کی اہلیت رکھتے ہیں تو صاحبان! میرا مشورہ ہے کہ اپنے محافظوں پر اعتبار کریں اور یاد رکھیں کہ اس زمیں کا چپہ چپہ خدائے رب کریم کی امانت ہے اور اس قوم کو اس فوج کو اس امانت کا دفاع کرنا خوب آتا ہے۔
جس قوم کی سپاہ کی سب سے بڑی آرزو شہادت ہو اس قوم کو، اس کے جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی ایٹمی قوت نواز شریف بھارت کی رہے ہیں رہے تھے تھے کہ کے لیے
پڑھیں:
ہریانہ انتخابات: ٹھپے پہ ٹھپہ لگانے کے الزام پر برازیلی ماڈل کا جواب
بھارت میں ہریانہ کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے لیے استعمال ہونے والی ایک برازیلی ماڈل کی آئی ڈی والے تنازعے نے ایک نیا موڑ لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہریانہ انتخابات: برازیلی ماڈل کے متعدد ووٹس، راہول گاندھی نے مودی حکومت کی دھاندلی کا پردہ فاش کردیا
جمعرات کو ایک خاتون ووٹر جنہیں راہول گاندھی کے بیان کے بعد توجہ حاصل ہوئی نے این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ووٹر کارڈ پر موجود تصویر اصلی ہے جب کہ کانگریس رہنما نے جس کارڈ کو جعلی قرار دیا اس پر لگی تصویر کسی اور کی ہے۔
اپنا نام منیش بتانے والی خاتون نے کہا کہ میرے ووٹر کارڈ پر میری ہی تصویر ہے لیکن جس کارڈ کو راہول گاندھی نے دکھایا وہ میرا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے ووٹ ڈالا تھا مگر مجھے نہیں معلوم اس جعلی کارڈ پر کس کی تصویر ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ خاتون کے مطابق ووٹر کارڈ کی جو کاپی راہول گاندھی کے پاس ہے اس پر ان کی تصویر نہیں (وہ ایک برازیلی ماڈل کی ہے)۔
بدھ کے روز راہول گاندھی نے الزام عائد کیا تھا کہ ہریانہ کے رائے حلقے میں گزشتہ سال ایک ہی ووٹر آئی ڈی کارڈ 22 مرتبہ ووٹنگ کے لیے استعمال ہوا اور اس پر ایک برازیلی خاتون کی تصویر لگی تھی۔
مزید پڑھیے: ’مودی ٹرمپ اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ‘، راہول گاندھی کی بھارتی وزیرِاعظم پر تنقید
یہ وہی حلقہ ہے جہاں بی جے پی کے امیدوار کرشنا گہلوت نے کانگریس کے بھگوان انتل کو 4,673 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
راہول گاندھی نے دعویٰ کیا کہ یہ منظم دھاندلی ہے جس کے ذریعے کانگریس کی واضح برتری کو شکست میں بدلا گیا۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کی مدد کر رہا ہے اور جان بوجھ کر جعلی یا دوہرے ووٹر آئی ڈیز کو فہرستوں سے نہیں ہٹا رہا۔
دوسری جانب بی جے پی رہنما کرن رجیجو نے راہول گاندھی پر جھوٹے الزامات لگانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بہار میں انہیں کوئی اشو نہیں ملا اس لیے وہ اب ہریانہ کی طرف توجہ موڑ رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق کانگریس نے ہریانہ کے نتائج کے حوالے سے کوئی باضابطہ اعتراض یا اپیل جمع نہیں کرائی تھی۔
مزید پڑھیں: راہول گاندھی کی ’ووٹ چور؛ گدی چھوڑ‘ مہم، بھارت کا انتخابی بحران بے نقاب
کمیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ کانگریس خود انتخابی عمل کے دوران مناسب نگرانی میں ناکام رہی۔
سونی پت میں ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیاں، این ڈی ٹی وی رپورٹدریں اثنا این ڈی ٹی وی کی ایک آزادانہ تحقیق میں سونی پت کے علاقے ملک پور میں ووٹر فہرستوں میں کئی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بعض ووٹرز جن میں ایک ہی خاندان کے 4 افراد شامل تھے ووٹر لسٹ سے غائب پائے گئے۔
ایک ووٹر انجلی تیاگی نے بتایا کہ انہوں نے وفاقی انتخابات (اپریل-مئی 2024) میں ووٹ ڈالا تھا لیکن 5 ماہ بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ان کا نام فہرست سے غائب تھا۔
’تصویر ہے کسی اور کی ووٹ ڈالتا کوئی اور ہے‘اس معاملے میں اصل برازیلی خاتون کی شناخت لارِسا نیری کے طور پر ہوئی ہے جو ایک ہیئر ڈریسر ہیں۔ یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے (ان کے مطابق) کوئی ووٹ نہیں ڈالا لیکن راہول کے پاس جس ووٹر کارڈ کی کاپی ہے اس پر تصویر ان کی ہی ہے لیکن بہت پرانی والی۔
برازیلی ماڈل لارسا نیری نے 8 سال قبل کھنچوائی گئی اپنی تصویر کے غلط استعمال پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: صدر ٹرمپ کی دھمکیوں پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی، راہول گاندھی نے کیا وجہ بتائی؟
لارسا نیری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ دوستو، وہ میری پرانی تصویر استعمال کر رہے ہیں اور یہ 8 سال پرانی ہے جب میری عمر تقریباً 18 یا 20 سال تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ انتخابات کا معاملہ ہے یا کچھ اور۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برازیلی ماڈل راہول گاندھی ہریانہ الیکشن ہریانہ الیکشن میں دھاندلی ہریانہ انتخابات