پاک بھارت جنگ اور پسِ پردہ عالمی سازش
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا فائدہ صرف اسلحہ فروشوں اور عالمی سازشی قوتوں کو ہوگا، جبکہ تباہی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آئے گا۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنگ کی بجائے مذاکرات، مفاہمت اور علاقائی استحکام کو فروغ دیں، نیز عالمی ایوانوں میں ظلم اور سازشوں کو بے نقاب کریں۔ لیکن داخلی طور پر جو عدم استحکام کے بنیادی عوامل کارفرما ہیں، جنگ بندی کے بعد انکا مواخذہ ضرور ہونا چاہیئے۔ نیز مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا پاکستانیوں کو ہمیشہ استعمار طاقتوں کی غلامی میں زندگی گزارنی ہے، یا اپنے اوپر انحصار کرکے ایک طاقتور ملک بننا ہے۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
جنگ ایک ایسی آگ ہے، جو انسانیت کے سبز باغوں کو خاکستر کر دیتی ہے۔ یہ نہ صرف جسموں کو زخمی کرتی ہے بلکہ روحوں کو بھی مفلوج کر دیتی ہے۔ ہر گولی ایک خواب کو مار دیتی ہے، ہر میزائل ایک مستقبل کو اُڑا دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ نے کبھی مسئلے حل نہیں کیے، بلکہ صرف نفرتوں کی فصل کو ہرا رکھا ہے۔ حقیقی فتح تو امن کی ہے، جہاں محبت کی تلوار نفرت کی دیواریں توڑ دیتی ہے۔ ہر جنگ کے پسِ پردہ کچھ خوانخوار اور سفاک عالمی طاقتیں ضرور ہوتی ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر انسانیت کو خون کے آنسو رُلاتی ہیں۔ یہ طاقتیں ہتھیاروں کی تجارت، وسائل پر قبضے، یا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تنازعات کو ہوا دیتی ہیں، مگر اس آگ میں جلنے والے بے گناہ بچے، ماں باپ، عام لوگ اور معصوم خواب ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کبھی بھی "انسانیت کی بھلائی" کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ یہ سرمایہ داروں، اسلحہ سازوں اور سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب تک طاقت اور لالچ کی یہ دوڑ رہے گی، دنیا امن کی حقیقی معنویت سے محروم رہے گی۔ آج کی صدی میں وہ سفاک اور خونخوار بھیڑیا کچھ مخفی طاقتیں ہیں۔ جس کا محور و مرکز امریکہ ہے اور اسرائیل اس کا ہراول دستہ ہے۔ غزہ کے ہولوکاسٹ سے لے کر میدانِ مقاومت کے صفِ اول کی شخصیات اور عبدِ صالحین کے سرخ لہو تک، ان کے نجس ہاتھ ہر مظلومیت کے داغدار ہیں۔ "صدی کی ڈیل" کی ناکامی نے انہیں شدید زخم دیئے ہیں اور "نیو ورلڈ آرڈر" کی طرف پیش قدمی کے لیے انہوں نے ایک نئی عالمی حکمت عملی ترتیب دی ہے، جو ایک خواب ہی رہے گی۔
مگر مقاومت کے محاذوں پر، خصوصاً ایران، غزہ، لبنان، یمن اور عراق میں، انہیں جو ذلت آمیز اقتصادی اور سکیورٹی شکستیں ہوئی ہیں، یوکرین جنگ اور غزہت جنگ میں ان کا مالی اور اسٹریٹیجک نقصان ناقابلِ برداشت تھا۔ "IMF" اور "CBO" کے مطابق، "3 ٹریلیئن ڈالر" سے زیادہ کا نقصان انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے اور اپنے مفادات کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے اب انہی عالمی قوتوں نے جنوبی ایشیا کی طرف رخ کیا ہے۔ پاک بھارت تنازعے کو پراکسی جنگ کی شکل دینا اور خطے میں کشیدگی کو بھڑکانا اسی خفیہ منصوبے کا حصہ ہے۔ اس نئی سازش کا مقصد نہ صرف ہتھیاروں کی منڈی کو گرم رکھنا ہے، بلکہ جنوبی ایشیا کے قدرتی وسائل، معدنیات اور سیاسی مستقبل کو اپنی گرفت میں لینا بھی ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو پاکستان معاشی بحران، سیاسی عدم استحکام اور سفارتی دباؤ کی وجہ سے داخلی سطح پر کمزور ہوچکا ہے۔ پاک فوج اور حکومت، جنگی خطرے کو ایک موقع سمجھتے ہیں کہ عوام کو قومی اتحاد کے نعرے پر جمع کریں اور فوج کو "محافظِ وطن" کے طور پر پیش کرکے اپنی ساکھ بحال کریں۔ "بقا کی جنگ" کا بیانیہ بنا کر سیاسی سوالات اور تنقید کو ثانوی بنانے کی کوشش کی جائے گی، کیونکہ ستر فیصد عوام کا پاک فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا؟ کب، کیوں اور کیسے ہوا؟ کس نے ملک کو اس حالت تک پہنچایا؟ اس سوال کے جواب کے لیے مقتدر حلقوں کو ضرور سوچنا چاہیئے۔
لیکن اس تمام صورتِ حال میں، ملکی عدم استحکام کے تمام تر عوامل کو کنارے پر رکھ کر عوام، دانشوروں، میڈیا اور مذہبی و سماجی قیادت پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگی جنون کا حصہ بننے کے بجائے ہوش اور حکمت سے کام لیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا فائدہ صرف اسلحہ فروشوں اور عالمی سازشی قوتوں کو ہوگا، جبکہ تباہی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر آئے گا۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنگ کی بجائے مذاکرات، مفاہمت اور علاقائی استحکام کو فروغ دیں، نیز عالمی ایوانوں میں ظلم اور سازشوں کو بے نقاب کریں۔ لیکن داخلی طور پر جو عدم استحکام کے بنیادی عوامل کارفرما ہیں، جنگ بندی کے بعد ان کا مواخذہ ضرور ہونا چاہیئے۔ نیز مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا پاکستانیوں کو ہمیشہ استعمار طاقتوں کی غلامی میں زندگی گزارنی ہے، یا اپنے اوپر انحصار کرکے ایک طاقتور ملک بننا ہے۔؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عدم استحکام دیتی ہے کہ جنگ کے لیے
پڑھیں:
خطے کے استحکام کا سوال
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔
اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔
بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔
افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔
آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔
پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔
پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔
مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔
پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔