مقبوضہ کشمیر، بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سانبہ میں 7 کشمیری شہید.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

2019سے اب تک 1043افراد شہید

ریاض احمدچودھری

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جسکا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاکو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ او رعالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دبا ڈالے۔
بھارتی فوجیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کشمیر یوں کے دل ودماغ میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوچکے ہیں۔ 22 اپریل کی تاریخ ایک اور ہولناک واقعے کی یاد دلاتی ہے جس میں بھارتی فوجیوں نے 1997میں سرینگر کے علاقے واووسہ میں ایک گھر میں زبردستی گھس کر تین بہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔جن بہنوں کی عصمت دری کی گئی ان کی عمریں 14، 16 اور 18سال تھیں۔فوجیوں نے بیٹیوں کی ماں کو اس وقت شدید تشدد کا نشانہ بنایاجب اس نے اپنی بیٹیوں کو بچانے کی کوشش کی۔گزشتہ 35سال سے خواتین کے خلاف تشدد، ذہنی اذیت، جبر اور ظلم وبربریت کی ان ہولناک کارروائیوں نے علاقے میں لوگوںکی زندگیوں کو ایک ڈرائونے خواب میں تبدیل کر دیا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔بھارتی فورسزمحاصرے اورتلاشی کی کارروائیوں کی آڑ میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خواتین کو مسلسل جنسی تشدد،اغوا، غیر قانونی گرفتاریوں اور بے حرمتی کا نشانہ بنا کر ان میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔بھارتی فورسز کشمیریوں کی جائز جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)بھارتی فورسز کو جنسی تشدد کے جرائم پر قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔بین الاقوامی برادری اس کالے قانون کی مذمت کرتی ہے اور اسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے منافی قرار دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے اپنی دورپورٹوں میں جبکہ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خواتین کی بے حرمتی کو ایک جنگی ہتھیار کے طوپر استعمال کررہا ہے۔علاقے میں مجرموں کے محاسبے کے فقدان اور عصمت دری کے متاثرین کو انصاف کی عدم فراہمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہاہے۔
رپورٹ میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنسی تشدد کے جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کوروکنے کے لیے اقدامات کرے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔بھارتی فورسز نے اگست 2019 سے اب تک کئی خواتین سمیت 1ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2ہزار 6سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29ہزار 9سو 97 سے زائد کوشہریوں گرفتار کیا گیا۔ بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ( اکتوبر) 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی(ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلبا شامل ہیں۔گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ اور یواے پی اے جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان ، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔
ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم،مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اورصحافی عرفان مجید سمیت 3ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 2019سے اب تک 1043افراد شہید
  • مقبوضہ کشمیر، ڈیلی ویجر ملازمین کے ریگولرائزیشن اور کم سے کم اجرت ایکٹ کے نفاذ کے حق میں احتجاجی مظاہرے
  • یوم شہدائے جموں کے موقع پر کشمیر سینٹر لاہور کے زیر اہتمام خصوصی تقریب
  • صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف کا شہدائے جموں کو خراجِ عقیدت
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیری آج یوم شہدائے جموں منارہے ہیں
  • 6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
  • کشمیر میں ’وندے ماترم‘ تقریبات کے حکومتی حکم پر متحدہ مجلس علما کا اعتراض
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ٹی20 لیگ کا دھڑن تختہ، منتظمین غائب، کھلاڑی ہوٹلوں میں پھنس گئے
  • مقبوضہ کشمیر میں کرکٹ کے نام پر انٹرنیشنل کھلاڑیوں کیساتھ فراڈ، مالکان پیسے دیے بغیر غائب
  • کشمیری عوام نے اپنی آزادی، عزت اور شناخت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں