پاک فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والا ایس-400 سسٹم کیا ہے، بھارت کے پاس کیسے آیا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
نیو دہلی:
پاک فضائیہ نے بھارت کی ریاست پنجاب کے علاقے آدم پور میں قائم بھارتی ایئربیس پر نصب دنیا کا جدید ترین میزائل سسٹمز میں سے ایک ایس-400 تباہ کردیا اور اس کی لاگت کا تخمینہ 1.5 ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق روس سے خریداری کے بعد بھارت نے یہ دفاعی سسٹم شمال، مغرب اور مشرقی علاقوں میں نصب کیا تھا اور اس کا مقصد چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس-400 سسٹم کی تنصیب کے حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا لیکن پاکستان کے خلاف استعمال کے لیے ایک رجمنٹ شمال مغربی ریاست پنجاب میں تعینات کردی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا نے پہلگام واقعے کے بعد رپورٹ دی تھی کہ بھارت نے ایس-400 ایئرڈیفنس سسٹم کو متحرک کردیا ہے تاکہ پاکستان کے کسی بھی میزائل اور جنگی طیاروں کے حملوں کا جواب دیا جائے گا۔
روس کا تیار کردہ ایس-400 ایئرڈیفنس سسٹم دنیا کے بہترین ایئر ڈیفنس سسٹمز میں سے ہے اور یہ ایس-400 سسٹم کیا ہے، آئیے جانتے ہیں؛
ایس-400 ایئرڈیفنس سسٹم بنیادی طور پر ایس-300 کی جدید شکل ہے اور یہ موبائل سرفیس ٹو ایئرمیزائل سسٹم ہے جو روس کی دفاعی کمپنی این پی او الماز نے 1990 کی دہائی میں تیار کیا تھا جو ایس-300 میزائل کی جدید شکل تھی۔
روس میں ایس-400 کو دفاعی نظام میں شامل کرنے کے لیے اجازت 28 اپریل 2007 کو مل گئی تھی اور پہلی مرتبہ 6 اگست 2007 کو ایس-400 کی پہلی بٹالین نے دفاعی سرگرمیاں شروع کردی تھیں۔
روس اب اس سسٹم میں مزید جدت اختیار کرچکا ہے اور اب ایس-400 کے بعد ایس-500 ایئرڈیفنس سسٹم تیار کر رہا ہے۔
ایس-400 کی صلاحیت
روسی ساختہ ایس-400 کی تنصیب سبک رفتاری سے ممکن ہے اور 5 منٹ میں اس سے نصب کر کے فعال کیا جاسکتا ہے اور اعلیٰ سطح کا موبائل میزائل سسٹم ہے جو جام کرنے پر اپنی کارکردگی دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
ایس-400 فضا میں 400 کلومیٹر کی دوری اور 30 کلو میٹر اونچائی پر جنگی طیارے، ڈرونز، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل جیسے اہداف کی نشان دہی کے ساتھ لڑنے اور ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ جدید دفاعی سسٹم بیک وقت 300 اہداف کی نشان دہی کرسکتا ہے اور بتدریج 36 حملوں سے نمٹ سکتا ہے، ایس-400 سسٹم میزائل کی 4 مختلف اقسام سے لیس ہوتا ہے، جن میں 40 این 6 ای(400 کلومیٹر رینج)، 48 این 6 ای 3 (250 کلومیٹر رینج)، 9 ایم 96 ای 2( 120 کلومیٹر) اور 9 ایم 96 ای (40 کلومیٹر) شامل ہیں۔
ایس-400 میں 360 ڈگری نگرانی اور نظر نہ آنے والے اہداف یعنی جنگی جہاز کا سراغ لگانے اور اس کے خلاف مدافعت کے لیے 96 ایل 6 ای جیسے جدید ریڈار بھی نصب ہوتے ہیں، اسی طرح یہ دفاعی پہلو سے ایس-300، ٹی او آر اور پینٹسر جیسے سسٹمز کو بھی سمو سکتا ہے۔
ایس-400 سسٹم بھارت میں کیسے آیا؟
بھارت نے روس سے ایس-400 ایئرڈیفنس سسٹم کے حصول کے لیے اکتوبر 2018 میں معاہدہ کیا اور اس معاہدے کے تحت بھارت کو اس سسٹم کی 5 رجمنٹس وصول ہوں گی اور ان 5 رجمنٹس کا معاہدہ 2018 میں 5.
بھارتی میڈیا کے مطابق روس نے بھارت کو اب تک ایس-400 کی 3 رجمنٹس موصول ہوچکی ہیں اور بقیہ تین اگست 2026 تک متوقع ہیں جبکہ تاخیر کی وجہ روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ بتائی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت نے روس سے حاصل کردہ ایس-400 سسٹم شمال مغرب یعنی پنجاب میں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نصب کردیا ہے۔
ایس-400 کا ایک رجمنٹ بھارت نے شمال مشرقی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام میں نصب کردیا ہے تاکہ لائن آف ایکچوئیل کنٹرول (ایل اے سی) میں چینی خطرات سے نمٹا جاسکے۔
اسی طرح ایس-400 کا مغربی رجمنٹ ریاست راجستھان میں نصب کیا گیا ہے، اس کا بنیادی مقصد بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت اپنے طور پر ایئرڈیفنس میزائل سسٹم پروجیکٹ کشا تیار کر رہا ہے، جو لانگ رینج ڈیفنس سسٹم ہوگا اور لانگ رینج سرفیس ٹو ایئر میزائلز یا ایل آر سیمز کے خلاف دفاع کرپائے گا۔
خیال رہے کہ بھارت کا ایس-400 دفاعی نظام کو اسرائیل کے آئرن ڈوم کے ٹکر کا نظام تصور کیا جاتا ہے تاہم پاک-بھارت کشیدگی کے دوران اس کے ایک رجمنٹ کو تباہ کردیا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف استعمال ایس 400 ایئرڈیفنس سسٹم بھارتی میڈیا ایس 400 سسٹم بھارت نے ایس 400 کی سسٹم کی کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
فیلڈ مارشل، پی ایل17 اور ’’بلف گیم‘‘
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب سے فیلڈ مارشل کا عہدہ سنبھالا ہے بھارت میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں اس وقت بدترین صورتحال پیدا ہو گئی کہ جب بھارت کو یہ اطلاع ملی کہ پاکستان پی ایل 15سے بھارت کے 5جدید لڑاکا طیارے گرانے کے بعد اب پی ایل 17کے حصول کے لئے چین کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس مقصد کے لئے اپنے لڑاکا طیاروں جے ایف 17تھنڈر اور جے 10 سی میں ضروری اپ گریڈیشن کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات پاکستان کی دفاعی پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے اس تعلق کو جو نئی جہتیں اور نئی بلندیاں عطاء کی ہیں ان کی زیادہ تر تفصیل ابھی تک مخفی ہے اور یہی رازداری وہ بڑا خوف بن چکی ہے کہ جس کی وجہ سے بھارت پر لرزہ طاری ہے۔ اسی رازداری اور مخمصے نے حالیہ 4 روزہ جھڑپ میں بھارت کو چاروں شانے چت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ بھارت سمجھتا تھا کہ چین نے پاکستان کو پی ایل 15کا ایکسپورٹ ورژن پی ایل 15 ای فراہم کیا ہے اور پاک فضائیہ کی طرف سے چین کے زیر استعمال پی ایل 15حاصل کرنے کے دعوے محض ایک بلف گیم ہیں، یاد رہے کہ پی ایل 15ای یعنی ایکسپورٹ ورژن کی رینج 145 کلومیٹر جبکہ چین کے زیر استعمال پی ایل 15کی رینج 300 کلومیٹر ہے۔
اس مخمصے نے حالیہ جھڑپ میں بھارت کو دھول چٹائی اور یہی وہ ’’بلف گیم‘‘ہے کہ جس کی وجہ سے مودی سرکار ایک بار پھر عجیب شش و پنج میں ہے، وہ پاکستان کیخلاف نئی جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہتی ہے لیکن راولپنڈی اسلام آباد میں پاکستانی فوج کی قیادت اور میزائلوں دونوں کی ’’اپ گریڈیشن‘‘نے اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑائے ہوئے ہیں، ایک طرف افواج پاکستان کے سربراہ عاصم منیر فور اسٹار سے فائیو اسٹار جنرل بن چکے ہیں تو دوسری طرف پاکستان پی ایل 15 سے آگے بڑھ کر پی ایل 17حاصل کر رہا ہے جس کی رینج 400 کلومیٹر تک ہے۔پاک فضائیہ کے شاہینوں نے چین سے حاصل کردہ 4.5 جنریشن کے جدید لڑاکا طیارے J-10 C کے ذریعے PL-15 میزائل استعمال کرتے ہوئے بھارت کے تین رافیل، ایک سخوئی SU-30MKI اور ایک میراج 2000 طیارہ مار گرائے، اس بڑی کامیابی نے بھارت کی فضائی برتری کے دعوئوں اور بڑے دفاعی بجٹ کی وجہ سے حاصل نفسیاتی برتری کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔ اب پاکستان چین کے ایک اور جدید ترین میزائل PL-17 کے حصول پر کام کر رہا ہے۔ یہ میزائل نہ صرف PL-15 سے کہیں زیادہ جدید ہے بلکہ اس کی رینج 400 کلومیٹر کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ PL-17 ہے کیا؟ اور موجودہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کے لئے اس کے فوری حصول کی اہمیت کیا ہے؟ کہا یہ جا رہا ہے کہ بھارت کو تو پی ایل 15نے ناک آئوٹ کرکے رکھ دیا اگر پاکستان پی ایل 17حاصل کر لیتا ہے تو بھارتی فضائیہ کا بنے گا کیا؟ اور وہاں پاک فضائیہ سے کتنے برس مزید ’’پسماندہ‘‘ہو کر رہ جائے گی؟ اس حساب کتاب نے مودی سرکار کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔پی ایل 17 کو پراجیکٹ 180 اور پی ایل 20بھی کہا جاتا ہے، یہ چین کا جدید ترین بی وی آر (Beyond Visual Range) ایئر ٹو ایئر میزائل ہے، جو انتہائی دور فاصلے پر دشمن کے ہوائی جہاز، ایواکس، فضائی ٹینکر جہاز اور دیگر فضائی اثاثوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تقریبا ً 6میٹر طویل یہ میزائل انرشیل نیویگیشن، جی پی ایس،بی ڈو اپڈیٹس، ہائی پاور AESAریڈار سیکر، اور ڈیٹا لنک سے لیس ہے جو اسے انتہائی دور سے بھی درست نشانہ لگانے کے قابل بناتے ہیں، پی ایل 17میزائل کی زیادہ سے زیادہ رفتار میک 4 سے تجاوز کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اسے انٹرسیپٹ کرنا دنیا کے جدید ترین طیاروں کے لئے بھی بہت ہی مشکل ہے، یہ رفتار تقریباً 3,000میل فی گھنٹہ یا لگ بھگ 4,800کلومیٹر فی گھنٹہ کے برابر ہے جس کا جنوبی ایشیاء میں تاحال کوئی توڑ نہیں۔
(جاری ہے)