پاکستان ایک بڑی فوجی طاقت ہے، بھارت کو مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے : ششی تھرور
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے پاک فوج کی عسکری صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے اہم بیان دیا ہے ایک بھارتی ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بڑی اور طاقتور فوج رکھنے والا ملک ہے اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہیں ششی تھرور کا کہنا تھا کہ کچھ دوستوں سے سننے میں آیا ہے کہ پاکستان کی عسکری تیاری جدید خطوط پر استوار ہے اور وہ کسی بھی حملے کا موثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے مودی حکومت کو کسی نئی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے انہوں نے پاک بھارت جنگ بندی کو سراہتے ہوئے کہا کہ تعلقات کی بحالی میں وقت لگے گا مگر دونوں ممالک کو بچھڑے خاندانوں کو ملنے کا موقع دینا چاہیے ویزہ پالیسی نرم کی جائے اور لوگوں کے درمیان رابطے بحال کیے جائیں دوسری جانب بھارتی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ "آپریشن سندور" اور حالیہ جنگ بندی کے معاملات پر بحث ہو سکے یاد رہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی جس کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے بھرپور ردعمل دیا اور "آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص" کے تحت بھارتی فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے، جن میں تین رافیل شامل تھے، تباہ کر دیے پاکستان کے بھرپور دفاعی جواب کے بعد بھارت کا دفاعی نظام درہم برہم ہو گیا اور بھارتی حکام کو نقصان کا اعتراف کرنا پڑا، بھارتی فضائیہ نے پہلی بار بالواسطہ طور پر رافیل طیارے گرائے جانے کی تصدیق کی ہے ششی تھرور کا بیان بھارت کے اندر بھی ایک سنجیدہ بحث کو جنم دے رہا ہے کہ خطے میں امن کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے اور جارحانہ پالیسیوں کے بجائے مذاکرات اور عوامی رابطوں کو ترجیح دینی چاہیے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ششی تھرور
پڑھیں:
افغان طالبان حکومت دہشتگردوں کو پناہ دے رہی ہے ،غلط بیانی سے گریز کریں،پاکستان کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: دفترِ خارجہ پاکستان نے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور کے اختتام پر باضابطہ بیان جاری کیا ہے، جس میں افغانستان کی جانب سے دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مذاکرات کا تیسرا دور 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، اور پاکستان نے ترکیے اور قطر کی ثالثی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ تاہم، ترجمان کے مطابق افغان حکومت نے طے شدہ وعدوں کے باوجود پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشتگرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کے باوجود پاکستان نے بارہا تحمل کا مظاہرہ کیا اور تجارتی و انسانی بنیادوں پر تعاون کی پیشکشیں کیں، مگر طالبان حکومت کی طرف سے کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی۔
دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت دہشتگرد عناصر کو پناہ دے کر ان کی سرگرمیوں کو فروغ دے رہی ہے، اور جب پاکستان ان دہشتگردوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو افغان حکام اکثر غلط بیانی یا لاتعلقی کا سہارا لیتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان فریق نے بحث کو غیر متعلقہ امور کی طرف موڑنے کی کوشش کی، جس سے اصل مسئلہ یعنی دہشتگردی کی روک تھام پسِ پشت چلا گیا۔
پاکستان نے واضح کیا کہ وہ مذاکرات کے حق میں ہے، لیکن قابلِ عمل اور قابلِ تصدیق اقدامات کے بغیر محض بات چیت سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ پاکستان اپنی سرحدوں اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، اور دہشتگردوں یا ان کے مددگاروں کو دوست شمار نہیں کیا جائے گا۔