چین اور لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک گلوبل ساؤتھ کے اہم اراکین ہیں،چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
چین اور لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک گلوبل ساؤتھ کے اہم اراکین ہیں،چینی صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 13 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چینی صدر شی جن پھنگ نے چین – لاطینی امریکی اور کیریبین ریاستوں کی برادری کے فورم کے چوتھے وزارتی اجلاس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور اس سے اہم خطاب کیا۔شی جن پھنگ نے اعلان کیا کہ چین لاطینی امریکہ کے ساتھ پانچ بڑے منصوبوں کا آغاز کرےگا تاکہ مشترکہ طور پر چین لاطینی امریکہ ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی جائے۔
اپنے خطاب میں شی جن پھںگ نے کہا کہ چین اور لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک گلوبل ساؤتھ کے اہم اراکین ہیں۔ آزادی ہماری شاندار روایت ہے، ترقی اور احیاء ہمارے فطری حقوق ہیں اور عدل و انصاف ہماری مشترکہ جستجو ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک کے ساتھ مل کرپانچ بڑے منصوبوں کا آغاز کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ مشترکہ طورپر ترقی و احیاء کے حصول اور چین-لاطینی امریکہ ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے کوشش کی جائے۔پہلا منصوبہ یکجہتی کا منصوبہ ہے جس میں اگلے تین سالوں میں، چین ہر سال سی ای ایل اے سی کے رکن ممالک سے سیاسی جماعتوں کے300 عہدیداروں کو چین کا دورہ کرنے کی دعوت دے گا.
تیسرا منصوبہ تہذیبی ہے جس میں چین-لاطینی امریکہ تہذیبی مکالمے کی کانفرنس کا انعقاد کیا جائےگا۔ چوتھا منصوبہ امن کا منصوبہ ہے جس میں تمام فریق انسداد آفات کے اتنظامات، سائبر سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی، انسداد بدعنوانی، انسداد منشیات اور سرحدپار منظم جرائم پر ضرب لگانے میں تعاون کو مضبوط بنائیں گے۔ پانچواں منصوبہ عوامی رابطوں کا منصوبہ ہے جس میں اگلے تین سالوں میں چین 3500 سرکاری اسکالرشپس، چین میں 10 ہزار تربیتی مواقع، بین الاقوامی چینی اساتذہ کے لئے 500 اسکالرشپس، تخفیف غربت میں تکنیکی صلاحیتوں کے لئے 300 تربیتی مواقع، ” چائنا برج ” پراجیکٹ کے تحت چین کا دورہ کرنے کے لئے 1000 گروہوں کو دعوت اور “سمال اینڈ اسمارٹ” ذریعہ معاش کے300 پروگرامز کا آٖغاز کیا جائے گا ۔
شی جن پھنگ نے کہا کہ چین پہلے مرحلے میں پانچ لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک کے لئے ویزا فری پالیسی نافذ کرے گا، اور مناسب وقت پر اس پالیسی کے دائرے کو وسعت دے گا۔ سی ای ایل اے سی کے چیئرمین ملک کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو، برازیل کے صدرلولا ڈی سلوا، چلی کے صدر گیبریل بوریک اور نیو ڈیولپمنٹ بینک کی صدر اور برازیل کی سابق صدر دلما روسیف نے بھی افتتاحی تقریب میں تقاریر کیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچینی وزیر خارجہ کی چین-سی ای ایل اے سی فورم کے چوتھے وزارتی اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں چینی وزیر خارجہ کی چین-سی ای ایل اے سی فورم کے چوتھے وزارتی اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور دنیا کی فاشسٹ مخالف جنگ کی فتح کی 80ویں سالگرہ کی یادگار تقریبات کا... چین اور امریکہ کے مابین تعاون ہی مسائل کا درست حل ہے، چینی میڈیا پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان کا فلائٹ آپریشن معمول پر آگیا بجٹ کی تیاریاں: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز کل سے ہوگا پاکستان کا سپر ٹیکس میں کمی کیلئے آئی ایم ایف سے رابطے کا فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک چین اور
پڑھیں:
کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنیوالا ہے؟
اسلام ٹائمز: جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہونگے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیشرفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کیلئے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
طوفان الاقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ اس معرکہ نے امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ساکھ کو عوامی اور فوجی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عوامی سطح پر دنیا بھر میں اسرائیل کو شدید احتجاج کا سامنا ہے۔ اسی طرح فوجی سطح پر بھی غاصب صہیونی حکومت شدید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔ فوجی نقصانات کی تفصیل کو اسرائیلی غاصب حکومت چھپا رہی ہے۔ بہرحال ایسے حالات میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمتی محور کے گروہوں حماس، جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ اور یمن کی انصاراللہ کے ساتھ ساتھ براہ راست ایران سے کاری ضرب لگ چکی ہے تو اب غاصب صہیونی حکومت اپنے ان زخموں کو چھپانے کے لئے از سر نو جنگی حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔ ان حربوں میں ایک غزہ کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مارنا ہے، تاکہ غزہ کے لوگ علاقہ خالی کریں اور نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو اپنے مقاصد میں 70 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ باقی ماندہ کامیابی حماس و جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوجی قیدیوں کی رہائی کے معاملہ سے مربوط ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ہونے والا معرکہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ کیونکہ اس معرکہ میں غاصب صیہونی حکومت کو سات اکتوبر کے بعد جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا، وہ شمال فلسطین سے دو لاکھ صیہونی آبادکاروں کی نقل مکانی تھی، جو تاحال واپس نہیں آئے ہیں اور اب یہ صہیونی آبادکار شمال فلسطین کو اپنے لئے مکمل غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کچھ حیفا اور تل ابیب میں ایران کے براہ راست میزائل گرنے سے بھی پیدا ہوچکے ہیں کہ جہاں سے دسیوں ہزار صہیونی آبادکار سمندری راستوں سے قبرص اور یونان جا چکے ہیں اور اب واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کارروائیوں کے نتیجہ میں بحیرہ احمر میں اسرائیل کے بحری جہازوں کا مکمل راستہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ ایلات کی بندرگاہ مفلوج ہوچکی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اب مزاحمت ختم ہوچکی ہے، لیکن شہید یحییٰ سنوار اور شہید حسن نصراللہ سمیت متعدد رہنماؤں کی شہادت کے بعد فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے بر عکس مزاحمت کی کارروائیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ لبنان میں بھی حزب اللہ نے لبنان کو اسرائیل کے خانہ جنگی کے منصوبہ سے بچانے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا، تاہم جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے داخلہ کے معاملہ پر حزب اللہ نے باقاعدہ غاصب صہیونی فوج کو روک رکھا ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہنماؤں اور شخصیات کی شہادت کے بعد فلسطین اور لبنان میں مزاحمت بالکل کمزور نہیں ہوئی۔ اس محاذ پر اور اس طرح کے جنگی حربوں میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے۔
اب موجودہ صورتحال میں کہ جب تمام تر حربے ناکارہ ہوچکے ہیں، امریکہ اور اسرائیل ہزاروں انسانوں کو غزہ و لبنان میں قتل کرچکے ہیں، غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا چکے ہیں، بیروت میں تباہی پھیلا چکے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک پرانا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یعنی نیا مشرق وسطیٰ کی تعمیر کرنا۔ یہ خواب امریکہ نے سنہ 2001ء میں دیکھا تھا اور گذشتہ 25 سالوں میں اس خواب کو خطے میں موجود مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔ شام کی تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد امریکہ کو ترکی اور کچھ عرب حکومتوں کی مدد سے اب نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس عنوان سے امریکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ خطے میں مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ لہذا فلسطین میں امریکی ایلچی ویٹکوف اور لبنان میں تھامس براک اس کام کو انجام دینے کے لیے لبنانی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔
حماس نے امریکہ کو واضح جواب دیا ہے کہ حماس غیر مسلح نہیں ہوگی۔ اسی طرح لبنان میں بھی یہ دباؤ جاری ہے اور لبنانی وزیراعظم نواف سلام کے ذریعے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔ اصل میں امریکی حکومت اور غاصب صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت اور بالخصوص اب سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اس کام کو تیزی سے انجام دیا جائے۔ بہرحال یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بغیر کسی فیصلہ کے ملتوی ہوچکا ہے۔ لیکن حزب اللہ واضح کرچکی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دفاع سے دستبردار نہیں ہوگی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطین میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، بحرین، امارات اور مصر سمیت متعدد شامل ہیں۔ اسی طرح لبنان کی حکومت پر امریکہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ ہے۔
بہرحال حماس اور حزب اللہ کا اعلان ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے، بلکہ جو لوگ مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کو غزہ و لبنان پر جاری صہیونی حملوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیئے۔ انسانوں کی نسل کشی پر خاموش مجرم حکومتیں مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں بیانات دے رہی ہیں۔ خطے کی اس تازہ ترین صورتحال پر عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے اب امریکہ و اسرائیل حماس و حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، تاہم آئندہ چند ماہ میں غاصب صہیونی گینگ اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کرسکتی ہے، تاکہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کیا جائے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی ایک اور بڑی غلطی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اب بین الاقوامی حالات میں شدت اور تیزی آچکی ہے، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں یہ رفتار اور بھی زیادہ ہے۔ لہذا امریکی صدر نے غاصب صہیونی حکومت کو گرین سگنل دے رکھا ہے کہ وہ امریکہ کے "نیا مشرقِ وسطیٰ" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے اور نقشہ کو مکمل کرے۔ اس نقشہ کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ کو عرب حکومتوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر کے بقول، وقت آگیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے مسئلے کو حل کیا جائے، یعنی غیر مسلح کیا جائے، تاکہ نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پاسکے۔ جہاں تک لبنان کی بات ہے تو لبنان کا مسئلہ اس وقت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ جب سے شام کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، کیونکہ لبنان کی تاریخ ہمیشہ براہِ راست دمشق کی تبدیلیوں سے جڑی رہی ہے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، جسے یہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلحہ لبنان کی فوج کے حوالے کیا جائے، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ اور اسلحہ چھوڑنے کے الٹی میٹم سے شروع ہوا۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس باراک نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر داخلی مذاکرات میں حزب اللہ کے اسلحہ چھوڑنے پر اتفاق نہ ہوا تو لبنان کے کچھ حصے اس سے الگ کر دیئے جائیں گے۔ یعنی امریکہ خود مختار ممالک کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یقینی طور پر امریکہ اس کام کے لئے شام کے دہشتگرد گروہوں اور جولانی کے ساتھ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کا سہارا لے گا۔ تاریخی طور پر شام کی حکومت لبنان کی زمین پر نظر رکھتی آئی ہے، خصوصاً شمالی علاقوں جیسے طرابلس اور حتیٰ کہ بیروت کو بھی اپنی سرزمین سمجھتی رہی ہے۔ اب جبکہ تکفیری گروہ الجولانی کی شام میں حکومت آچکی ہے، جو مسلسل فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصرورف فعالیت ہے۔ لہذا یہ خطرہ موجود ہے کہ امریکی منصوبوں کی تکمیل کے لئے جولانی اس بہانے اپنے ناراض اور مایوس کارندوں کو لبنان کے شیعہ مسلمانوں سے لڑنے پر اکسا سکتا ہے۔
یعنی اب ایک نیا اتحاد منظر عام پر آرہا ہے، جسے غربی، عبری اور عربی اتحاد کہا جاسکتا ہے اور شاید یہئ نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کا نیا نام ہے۔ یعنی یہ مغربی-عبری-عربی اتحاد پہلے یہ کوشش کرے گا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگی تنازعہ کو لبنان کی خانہ جنگی میں بدل دے، تاکہ اصل دشمن کے خلاف اتحاد ٹوٹ جائے۔ دوسری طرف تکفیریوں کو لبنان میں گھسیٹ لایا جائے، تاکہ حزب اللہ سرحد پر اسرائیل کے بجائے تکفیریوں سے لڑے۔ اس دوران لبنان کی حکومت، خاص طور پر مغرب نواز وزیرِاعظم نواف سلام مختلف وجوہات سے حزب اللہ کے ساتھ ٹکر لے رہے ہیں، تاکہ تناؤ کی صورتحال میں اضافہ ہو۔ لبنان کے وزیرِاعظم نواف سلام کے اس بیان کہ سال کے آخر تک فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کر دے گی، نے ملک میں بڑے ردعمل کو جنم دیا۔ عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع ہوچکے ہیں۔
لبنان کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی حلقوں سمیت لبنان کی فوج میں بھی حزب اللہ کی بڑی حمایت موجود ہے۔ چونکہ موجودہ لبنانی حکومت جو باقاعدہ امریکی و سعودی اشاروں پر ناچ رہی ہے، یہ بات بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ اسلحہ نہیں چھوڑے گی، اس لیے شاید یہ تجزیہ زیادہ درست ہو کہ نواف سلام کا اصل مقصد مغربی-عربی-عبری اتحاد کے دباؤ سے لبنان کو وقتی طور پر نکالنا ہے۔ کیونکہ امریکہ نے 60 دن کی مہلت دی ہے، مگر وزیرِاعظم پانچ مہینے کا وقت بتا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ سال کے اختتام تک ہمیں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ حزب اللہ اس منظرنامے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اور کم از کم فوج کے 30 فیصد اہلکار بھی حزب اللہ کی حمایت کریں گے۔ لبنان کو بلا شبہ بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک طرف مغرب، امریکہ، اسرائیل اور شام کے تکفیری گروہ، دوسری طرف حزب اللہ اور اکثریت لبنانی عوام جو اپنے وطن کی حفاظت چاہتے ہیں اور اسرائیل کو اصل دشمن سمجھتے ہیں۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیش رفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کے لیے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔