سلیبرٹی ہونا آسان نہیں یہ ذہنی دباؤ سے بھرپور زندگی ہے، شمعون عباسی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
شمعون عباسی کا سلیبرٹی کلچر پر تنقیدی تبصرہ: شہرت کے بعد عاجزی ضروری ہے
پاکستان شوبز کے اداکار، ہدایت کار اور اسکرین رائٹر شمعون عباسی نے شہرت کو سنبھالنا ایک مشکل کام قرار دے دیا۔
شمعون عباسی نے اپنے آفیشل انسٹاگرام ایکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام میں شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے سلیبرٹی کلچر کے نقصانات پر کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلیبرٹی بننا اور مشہور ہونا کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایک ذہنی دباؤ سے بھرپور زندگی ہے، اسی لیے وہ خود کو کبھی سلیبرٹی نہیں سمجھتے۔
شمعون عباسی نے کہا کہ شہرت کی دنیا عارضی ہوتی ہے، گلوکار، کھلاڑی یا اداکار جب اپنی کارکردگی کھو دیتے ہیں یا کوئی تنازع پیدا ہو جائے تو فوراً تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ان کا وہ مقام ختم ہو جاتا ہے۔
اداکار نے کہا کہ لوگ جب شہرت کھو بیٹھتے ہیں تو وہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور حتیٰ کہ نشے کی طرف بھی چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ پیدائشی سلیبرٹی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Shamoon Abbasi (@being_shamoon_)
انہوں نے زور دیا کہ سلیبرٹی بننا بُری بات نہیں، لیکن اس مقام کو برقرار رکھتے ہوئے عاجزی اختیار کرنا اور حقیقت پسندی اپنانا ضروری ہے کیونکہ جب آپ کی شہرت میں کمی آتی ہے تو آپ کے پاس پیسوں کی تنگی بھی شروع ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سلیبرٹی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وقت، حالات اور عوامی محبت اسے بناتے ہیں اور یہ وقت کے ساتھ ختم ہوجانے والی چیز ہے۔
ویڈیو کے اختتام پر شمعون عباسی نے مشورہ دیا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ سکون کیلئے کرتے ہیں اس لئے اللہ سے ہر حال میں سکون اور آسانی کی دعا مانگیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا، کسی شہری کو بلاوجہ حوالات میں بند کرنا زیادتی ہے: جسٹس عقیل عباسی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہماری بادشاہت تو نہیں جو چاہیں کردیں، ہم نے قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ میں اختیارات کے غلط استعمال پر برطرف ایس ایچ او کی اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے، وکیل عمیر بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ دیگر پولیس اہلکاروں کی غلطی پربے قصور برطرف کیا گیا، جوان آدمی ہے، ابھی ساری زندگی پڑی ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ایس ایچ او تھانے کا کرتا دھرتا ہوتا ہے، کسی عام شہری کو بلاوجہ تھانے میں بند کرنا زیادتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہماری بادشاہت تو نہیں، جو چاہیں کردیں، ہم نے قانون کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے، ساری گواہیاں آپ کے خلاف ہیں۔ وکیل عمیر بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ نہ کوئی شکایت ہے نہ ہی کسی نے خلاف گواہی دی، عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ راولپنڈی کے تھانہ ڈھڈیال کے سابق ایس ایچ او یاسر محمد کو 2 خواتین سمیت 4 شہریوں کو حبس بیجا میں رکھنے پر برطرف کیا گیا تھا۔