آج کے ڈیجیٹل دور میں، سب سے بڑی طاقت آزادی اظہار (Freedom of Expression) کی ہے۔ لیکن جب دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی یوٹیوب سیاسی دباؤ کے سامنے جھک کر سچ کو مٹانا شروع کر دے تو ذرا سوچیے کیا ہوتا ہے؟
یہ صرف سنسر شپ نہیں، بلکہ یہ جنگی جرائم کے ثبوتوں کو مٹانے کا ایک منظم عمل ہے جو کہ اہل فلسطین پر ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کیا جارہا ہے۔ اس عمل نے ایک طرح سے عالمی سچائی اور آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یوٹیوب نے فلسطینی حقوق کی تنظیموں کی 700 سے زیادہ ویڈیوز مٹا کر ثابت کردیا ہے کہ طاقتوروں کے حق میں، سچائی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
یہ خوفناک حقیقت امریکی ویب سائٹ ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ (The Intercept) کی رپورٹ میں سامنے آئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یوٹیوب نے اکتوبر 2025 میں خفیہ طور پر فلسطینی انسانی حقوق کی تین اہم ترین تنظیموں کے اکاؤنٹس کو اپنے پلیٹ فارم سے مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔ یہ تنظیمیں الحق (Al-Haq)، المیزان سینٹر (Al Mezan Center)، اور فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق (PCHR) تھیں۔
یہ تینوں تنظیمیں طویل عرصے سے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کی دستاویزی ریکارڈنگ میں مصروف تھیں۔ یوٹیوب نے ان چینلز کے آرکائیوز سمیت تمام مواد کو مٹادیا، جس میں شیرین ابو عاقلہ (Shireen Abu Akleh) کے قتل کی تحقیقات اور غزہ میں نسل کشی سے متعلق ویڈیوز شامل تھیں۔
یوٹیوب کے اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ عالمی اداروں کے لیے اب ان 700 سے زیادہ شواہد تک پہنچنا ناممکن ہوگیا ہے۔ یہ ایک طرح سے تاریخی ریکارڈ کو مٹانے کا عمل ہے۔
یوٹیوب کی اس کارروائی کی جڑیں امریکی حکومتی دباؤ میں پیوست ہیں۔ ’’دی انٹرسیپٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، یہ فیصلہ ایک منظم مہم کے تحت کیا گیا جس کا مقصد فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے احتساب کی کوششوں کو کچلنا تھا۔ یہ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب یہ تینوں تنظیمیں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے ساتھ تعاون کر رہی تھیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے ان تنظیموں پر خصوصی پابندیاں عائد کردیں۔ یوٹیوب نے ان پابندیوں کو اپنی پالیسی کا حصہ قرار دیا اور اکاؤنٹس بند کردیے۔
یوٹیوب نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ وہ امریکی محکمہ خارجہ کی پابندیوں کی تعمیل کےلیے پابند ہے۔ یہ عمل واضح کرتا ہے کہ یوٹیوب نے اخلاقی اصولوں پر سیاسی اور تجارتی مفادات کو ترجیح دی۔ ڈان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لیا وِٹسن نے کہا کہ یوٹیوب کا اس طرح آسانی سے جھک جانا افسوسناک ہے اور یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تحریکوں کےلیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اسی طرح الضمیر (Addameer) قیدیوں کی حقوق کی تنظیم کا اکاؤنٹ بھی برطانوی لابی (UK Lawyers for Israel) کے کہنے پر بند کیا گیا تھا، جو دباؤ کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔
مسبار (Misbar) کی ادارتی ٹیم نے اس معاملے پر گہرا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یوٹیوب برابری کا سلوک نہیں کررہا۔ مسبار نے نشاندہی کی کہ یوٹیوب نے ایک طرف فلسطینیوں کے شواہد پر مبنی مواد کو ہٹایا، لیکن دوسری طرف اسرائیلی پروپیگنڈا کو پلیٹ فارم پر کھلی چھوٹ دی۔ مثال کے طور پر، یوٹیوب نے اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایسے نفرت انگیز اشتہارات اور مواد کو نہیں روکا جو جنگ کی حمایت کرتے تھے اور فلسطینیوں کے خلاف غصہ اور تشدد کو بڑھاوا دیتے تھے۔ یہ ایک دہرے معیار کی واضح مثال ہے۔
یوٹیوب نے اسرائیل پر تنقید کرنے والے مواد بنانے والوں پر سخت پابندیاں لگائیں، جیسے ان کی ویڈیوز سے کمائی بند کردی گئی، تاکہ وہ مالی دباؤ میں آکر سچ بولنا چھوڑ دیں۔ یہاں تک کہ یوٹیوب کے اپنے ملازمین نے بھی اندرونی طور پر اس ناانصافی پر اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے ایک اسرائیلی ریپ گانے کا حوالہ دیا جس میں فلسطینیوں کے خلاف واضح اکساہٹ تھی، مگر کمپنی نے اسے نہیں ہٹایا۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ یوٹیوب کا مقصد کمیونٹی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا نہیں، بلکہ طاقتور فریق کے ایجنڈے کو فروغ دینا ہے۔
یوٹیوب کی اس کارروائی کے نتائج انتہائی خوفناک اور طویل مدتی ہوں گے۔ یہ صرف ایک پلیٹ فارم کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ عالمی ڈیجیٹل نظام کے زوال کا اشارہ ہے۔
احتساب کا قتل: ان ثبوتوں کے مٹ جانے سے، جنگی جرائم کے ملزمان کو سزا دلوانا ناممکن ہوجائے گا۔ فلسطینی سینٹر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ یوٹیوب کا یہ فیصلہ ’’مجرموں کو احتساب سے تحفظ‘‘ فراہم کرتا ہے۔ جب عالمی عدالتوں کے پاس ثبوت ہی نہیں ہوں گے، تو عالمی قوانین بے معنی ہوجائیں گے۔
سچ کی موت اور خود سنسر شپ: جب حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کا مواد بھی محفوظ نہیں رہے گا، تو عام شہری اور کارکن خوفزدہ ہو کر سچ بولنا چھوڑ دیں گے۔ انہیں ڈر ہوگا کہ ان کی محنت ضائع ہوجائے گی اور ان کے اکاؤنٹس بند ہوجائیں گے۔ یہ رجحان خود سنسر شپ (Self-Censorship) کی ایک لہر پیدا کرے گا، جس سے صرف طاقتوروں کا جھوٹا بیانیہ عالمی سطح پر غالب آجائے گا۔ ہماری آئندہ نسلیں صرف ایک ہی سچ کو تاریخ مانیں گی۔
ٹیکنالوجی پر کنٹرول: یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں حکومتوں کے سامنے جھکنے پر تیار ہیں۔ یوٹیوب کی پیرنٹ کمپنی گوگل نے ایک فلسطینی حامی طالب علم کی ذاتی جی میل کی معلومات امریکی امیگریشن ایجنسی (ICE) کو فراہم کی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا نجی ڈیٹا بھی محفوظ نہیں۔ حکومتیں اب ٹیک کمپنیوں کو استعمال کر کے نہ صرف مواد ہٹا رہی ہیں بلکہ شہریوں کی نگرانی بھی کر رہی ہیں۔
عالمی نظیر کا خطرہ: سارہ لیا وِاٹسن نے خبردار کیا کہ یہ اقدام ایک خطرناک نظیر ہے۔ آج اگر یوٹیوب امریکی دباؤ پر جھکتا ہے، تو کل اسے چین، روس، یا کسی بھی دوسرے ملک کے دباؤ پر اس کے مفادات کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانا پڑے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کے ذریعے آمریت (Digital Dictatorship) کو عالمی سطح پر مضبوط کرے گا۔
یوٹیوب کا یہ فیصلہ ہمارے لیے ایک آخری وارننگ ہے۔ اگر ہم نے آج اس ڈیجیٹل سنسر شپ کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل ہماری اپنی آزادی، تاریخ اور سچائی بھی اسی طرح مٹا دی جائے گی جیسے آج فلسطینیوں کی ویڈیوز مٹا دی گئی ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر ان کمپنیوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ انصاف کے اصولوں پر قائم رہیں، اور ہمیں متبادل پلیٹ فارمز کی تلاش کرنی ہوگی جو حکومتی دباؤ سے آزاد رہیں۔ اس جنگ میں خاموش رہنا، ظلم کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کے عالمی سطح پر یوٹیوب کا کہ یوٹیوب یوٹیوب نے کے خلاف کرتا ہے حقوق کی نے ایک
پڑھیں:
اسلام قبول کرنے والی بھارتی خاتون کا پولیس پر شادی ختم کرنے کےلیے دباؤ ڈالنے کا الزام
لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو پاکستانی شہری سے شادی کرنے والی بھارتی خاتون کو ہراساں کرنے سے روک دیا، خاتون نے پولیس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
نور بی بی ( سرجیت کور) کو ہراساں سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس فاروق حیدر نے سابق سکھ خاتون اور اسکے شوہر کی درخواست پر سماعت کی۔
لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو بھارتی خاتون کو ہراساں کرنے سے روک دیا، درخواست میں کہا گیا کہ مذہبی رسومات کےلیے آنے والی بھارتی سکھ خاتون نے اسلام قبول کر کہ ناصر سے نکاح کیا، 8 نومبر کو پولیس نے درخواست گزار کے گھر غیر قانونی ریڈ کیا۔
پولیس حکام نے خاتون پر شادی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، خاتون نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور نکاح کیا، پولیس حکام کے پاس درخواست گزار کے گھر چھاپہ مارنے کی کوئی اتھارٹی نہیں۔
استدعا کی گئی کہ عدالت پولیس کو درخواست گزاروں کو ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دے۔