پاک بھارت میں سفارتی محاذ پرنئی جنگ کاآغاز
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)بھارت کے خلاف پاکستان کی تاریخی کامیابی کے بعد ملک کے اندرمقبولیت کے حوالے سے نئی بحث شروع ہوگئی اور عالمی میڈیا
نے مسلح افواج اور سپہ سالارجنرل عاصم منیر کی مقبولیت میں اضافے کے حوالے سے اپنی رپورٹس شائع کی ہیں جب کہ سینئرتجزیہ نگاراور بعض دیگرشخصیات بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ بھارت کے خلاف تاریخی کامیابی کے بعد مسلح افواج کی مقبولیت آسمانوںسے بات کررہی ہیجب کہ اب سفارتی محاذ پرایک نئی جنگ شروع کردی گئی ہے،بھارت کیبعد پاکستان نے بھی پارلیمانی وفود تشکیل دے دیئے ہیں جو امریکہ،یورپ اور برطانیہ کے دوریکرکے پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے ،اس وفدکی قیادت وزیراعظم شہبازشریف نے سابق وزیرخارجہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کو دی ہے اور حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران عالمی میڈیاپربلاول بھٹوزرداری نے بہت اچھے انٹرویودے کر پاکستان کاموقف عالمی سطح پر اجاگرکیااوربھارتی میڈیاکی مہم کو بھی ناکام بنانے میں اپنافعال کرداراداکیا،ان کے وفدمیں تجربہ کار سیاستدانوں اور دفترخارجہ کے سابق سینئرشخصیات کوشامل کیاگیاہے،اس وفدمیں خارجہ امور کی سابق وزیرمملکت حناربانی کھر،سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیرجلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں جو نگران دورحکومت میں وزیرخارجہ بھی رہے ہیں جب کہ ن لیگ کے سینئررہنماخرم دستگیرخان،سابق وزیردفاع اور وزیرخارجہ بھی رہ چکے ہیں، جب کہ تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں اورخارجہ امورمیں ان تمام شخصیات کاوسیع تجربہ اور عالمی رہنماوں سے رابطے بھی موجود ہیں،دوسری جانب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے رہنماشبلی فرازنے یہ نقطہ اٹھایاہے کہ جو وفود بیرون ملک جارہے ہیں ان میں تحریک انصاف کو بھی نمائندگی دی جائے ،اس پر وزیرقانون اعظم نذیرتارڑنے حکومتی موقف کااظہارکرتیہوئے کہاکہ اگرسپیکراورچیئرمین سینیٹ مناسب سمجھیں تو اس وفدمیں اپوزیشن کو شامل کیاجاسکتاہے،شبلی فرازکانقطہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن بلاول بھٹوزرداری کی سربراہی میں جووفدبیرون ملک جارہاہے یہ پارلیمانی وفدنہیں ہے کیونکہ اس میں پارلیمنٹ سے دوشخصیات بلاول بھٹواور حناربانی کھرشامل ہیں جب کہ دیگرشخصیات پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں،پھر بھی وزیراعظم شہبازشریف کو چاہئے کہ اگرتحریک انصاف چاہتی ہے کہ اس کا کوئی رہنمااس وفدمیں شامل کیاجائے تو اس رہنماکو شامل کیاجاناچاہئے جو خارجہ امورکے معاملات سے متعلق تجربہ رکھتاہو،دوسری جانب پاک بھارت کشیدگی کے باوجود تحریک انصاف نے وزیراعظم شہبازشریف اور سپیکرسردارایازصادق کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کااعلان کیاہے گو کہ یہ اعلان سابق سپیکراسدقیصرنے کیاہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ معاملہ زیرغورہے،پاک بھارت کشیدگی کے باعث فوری طور پر تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جارہی،اس پر تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہرنے جو ردعمل دیاہے وہ بڑادلچسپ ہے ان کاکہناہے کہ وزیراعظم اور سپیکرکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی خبرجھوٹی اور غلط ہے ،پی ٹی آئی نے ایساکوئی فیصلہ نہیں کیااور نہ ہی یہ ہمارے ایجنڈیمیں شامل ہے،ایک ہفتے میں سب کچھ بدل گیاہے میں بارباریہ کہہ رہاہوں کہ اگربھارت کیساتھ سیزفائرہوسکتاہے تو پاکستان میں بھی سیزفائرہوناچاہئے ان دونوں بیانات کا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرنہ تو کوئی ڈسپلن ہے نہ ہی فیصلہ سازی صحیح اندازمیں ہورہی ہے،پارٹی چیئرمین کہہ رہاہے کہ ایساکوئی فیصلہ نہیں ہوااور دوسری رہنماکہہ رہاہے کہ تحریک لائی جارہی ہے،پی ٹی آئی کے اندریکسوئی موجودنہیں ہے جب روزنامہ ممتازنے اس صورت حال پر پی ٹی آئی کے ایک سینئررہنماسے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنانام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایاکہ یہ محمودخان اچکزئی کی پرانی تجویزہے کہ وزیراعظم اور سپیکرکے خلاف عدم اعتماد لایاجائے اور ہوسکتاہے کہ ان کی شرارت کیاثرات اسدقیصرتک پہنچے اور اسدقیصرنے تحریک عدم اعتماد لانے کااعلان کردیا،محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے لئے قابل احترام ہیں لیکن اس طرح کی کوئی تجویزابھی تک پارٹی میں کسی پلیٹ فارم پر زیرغورنہیں آئی،نہ توسیاسی کمیٹی اور نہ ہی پارلیمانی پارٹی میں کوئی تجویزآئی،واضح رہے کہ محمودخان اچکزئی گزشتہ چندماہ سے یہ کوشش کررہے ہیں کہ سپیکرکے خلاف پہلے اور بعدمیں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے لیکن پی ٹی آئی کی قیادت ان کی تجویزسے اتفاق نہیں کررہی ،ویسے بھی نمبرگیم کے اعتبارسے دیکھاجائے تو حکمران اتحاد کے پاس 200سے ووٹ ہیں اور پی ٹی آئی اس کے اتحادی چھوٹی جماعتوں کے پاس 100کے قریب ووٹ ہیںاورعدم اعتماد کے لئے مزید 70ووٹ چاہئیں،اگریہ تحریک باضابطہ طورپرجمع کرادی گئی اور ووٹنگ کامرحلہ آیاتو اس بات کے خدشات موجودہیں کہ پی ٹی آئی کے ووٹ مزید کم نہ ہوجائیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
عدم اعتماد ہمارا حق، جب نمبر پورے ہوں گے تو تحریک بھی لائیں گے : گورنر کے پی کے
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہاہے کہ اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے ہوں تو عدم اعتماد لاتی ہے ، ماضی میں ہم نے ایک وزیراعظم کو عد م اعتماد پر گھر بھیجا ہے ۔
گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے سماء نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 52سے 54 اپوزیشن ممبران کے پی اسمبلی میں ہیں، عدم اعتماد کے لیے 25 سے 30 نمبر مزید چاہیے ہوں گے، ایک نمبر بھی زیادہ ہو گاتو جمہوری حق ہے کہ عدم اعتماد لائیں، جب نمبر پورا ہو گا تو عدم اعتماد کی تحریک بھی لیکرآئیں گے۔
پسماندہ علاقوں میں تعلیمی انقلاب، 19 ارب روپے کے دانش سکول منصوبے منظور
فیصل کریم کنڈی کا کہناتھا کہ ہم نے اس حوالے سے کوئی ڈائیلاگ نہیں مارے، پی ٹی آئی کی حکومت گر گئی تو فائدہ تو بہت ہو گا، لوگوں کے کیلئے یوم نجات ہو گا، کے پی میں کرپشن دیکھی،گندم،چینی کا اسکنڈل سامنےآیا، ابھی عدم اعتماد کے حوالے سے ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہے، پی ٹی آئی والوں کو سیاسی دشمنوں کی ضرورت نہیں ،یہ خود ہی دشمن ہیں، یہ خود ہی ایک دوسرے کیلئے کافی ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ کہا گیا ملاقات کے بغیر بجٹ پاس نہیں ہو گا، اگلے دن کہہ دیا میرے خلاف سازش ہو رہی ہے، اگر بجٹ پاس نہ ہوتا تو صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگتی ، وزیراعلیٰ ڈائیلاگ مار لیتے ہیں مگر کر نہیں سکتے، ان کو پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے تو 5 سے 6 دن لگتے ہیں، لیکن 5 سے 6 گھنٹے میں واپسی کاراستہ دکھا دیا جاتا ہے، ان کو کون تنگ کر رہاہے،ہم توان کونہیں ہٹا رہے، کیاعدم اعتماد کے حوالے سے بات کرنا بھی گناہ ہے؟ علیمہ خان کہہ رہی ہیں،مائنس ون ہو چکا ہے،یہ تو بہت پہلے ہوا تھا، پشاور میں 2017 سے ایک اسٹیڈیم ابھی تک بن رہاہے،بس نام تبدیل کیاگیا۔
کراچی: بی آر ٹی اور پیپلز بس سروس جزوی معطل، ترجمان
مزید :