پاکستان میں نوجوان نسل اور سگریٹ نوشی
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
پاکستان میں نوجوان نسل اور سگریٹ نوشی WhatsAppFacebookTwitter 0 20 May, 2025 سب نیوز
جاریہ زہرہ
حالیہ برسوں میں پاکستان میں نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جو عمل کبھی بڑی عمر کے افراد کا شوق سمجھا جاتا تھا، وہ اب نوجوانوں اور حتیٰ کہ کم عمر طلبہ و طالبات میں بھی تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کیمپس سے لے کر چائے کے ہوٹلوں، انسٹاگرام اسٹوریز، اور رات گئے کی محفلوں تک، سگریٹ نوشی (چاہے وہ سگریٹ ہو، شیشہ ہو، یا ویپ) نوجوانوں کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی چیلنج بھی ہے، جو ہمارے معاشرے میں موجود گہرے نفسیاتی، ثقافتی اور قانونی خلا کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایک بڑھتی ہوئی وباء
پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کے مطابق ملک میں تقریباً 2 کروڑ 20 لاکھ افراد تمباکو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں، اور ان میں بڑی تعداد 15 سے 29 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے (GYTS) کے مطابق سکول جانے والے بچوں میں بھی سگریٹ نوشی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اگرچہ لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن لڑکیوں میں بھی یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
یہ اضافہ صرف روایتی سگریٹ نوشی تک محدود نہیں۔ بڑے شہروں میں شیشہ کیفے عام ہو چکے ہیں، جہاں فلیورڈ تمباکو ایک ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے کم نقصان دہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح ویپنگ اور ای سگریٹس کو “محفوظ متبادل” کے طور پر مارکیٹ کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں ان میں بھی نکوٹین اور دیگر مضر صحت کیمیکل موجود ہوتے ہیں۔
وجوہات: صرف فیشن نہیں، ایک نفسیاتی کشمکش
نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ رجحان اکثر ایک فیشن، سٹیٹس یا ’کول‘ بننے کے طریقے کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ نوجوان جب خود کو بڑے ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں تو وہ ایسی عادتیں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں “بالغ” یا آزاد ظاہر کریں۔
دوسری اہم وجہ ذہنی دباؤ، امتحانی تناؤ، خاندانی مسائل یا کسی ذاتی بحران سے نمٹنے کی ناکام کوشش ہو سکتی ہے۔ تمباکو کا وقتی سکون نوجوانوں کو وقتی طور پر آرام دیتا ہے، مگر طویل المدتی نتائج نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ کئی نوجوان مشہور شخصیات کی نقل میں سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں، خاص طور پر جب فلموں، ڈراموں یا سوشل میڈیا پر تمباکو نوشی کو ’اسٹائلش‘ بنا کر دکھایا جاتا ہے۔
خاندان اور تعلیمی اداروں کا کردار
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں والدین اور اساتذہ کی جانب سے اس مسئلے پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ اکثر والدین اپنی اولاد کی عادات سے ناواقف ہوتے ہیں یا ان سے دوستی کے بجائے فاصلہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان اپنے مسائل اور الجھنیں کسی اور انداز میں نکالتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی تمباکو نوشی کے خلاف کوئی مؤثر آگاہی پروگرام نظر نہیں آتے، اور بعض جگہوں پر اساتذہ خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جس سے ایک دوہرا معیار جنم لیتا ہے۔
قانونی کمزوری اور عمل درآمد کی کمی
اگرچہ پاکستان میں پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے اور تمباکو کی تشہیر کے خلاف بھی قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد بہت کمزور ہے۔ دکان دار بلاخوف کم عمر لڑکوں کو سگریٹ بیچ دیتے ہیں۔ شیشہ کیفے اور ویپنگ شاپس اکثر رہائشی علاقوں میں کھلی ہوتی ہیں، جہاں کوئی نگرانی یا قانونی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسے کیفے پولیس کی سرپرستی میں بھی چلتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا اثر
سوشل میڈیا نے بھی اس رجحان کو بڑھاوا دیا ہے۔ نوجوان جب سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں، انفلوئنسرز، یا مشہور شخصیات کو سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں، تو وہ خود کو پیچھے محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ویڈیوز اور تصاویر جہاں سگریٹ یا شیشہ پینا ’کول‘ یا ’فن‘ سمجھا جاتا ہے، وہ براہِ راست نوجوانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ایسے مواد کے خلاف مؤثر مانیٹرنگ نہیں ہو رہی۔
صحت پر تباہ کن اثرات
طبی ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی صرف پھیپھڑوں کی بیماریوں، دل کے امراض اور کینسر کا سبب نہیں بنتی بلکہ نوجوانوں میں دماغی کمزوری، توجہ کی کمی، نیند کی خرابی اور ذہنی دباؤ کا باعث بھی بنتی ہے۔ نکوٹین ایک نشہ آور مادہ ہے جو دماغ پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ نوجوان جب اس کا عادی بن جاتے ہیں تو وہ پڑھائی، کریئر اور ذاتی زندگی میں پیچھے رہنے لگتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
سگریٹ نوشی کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے صرف قانون سازی کافی نہیں، بلکہ ایک مکمل سماجی، تعلیمی اور نفسیاتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے دوستی کا رشتہ قائم کریں، ان کے مسائل سنیں اور انہیں درست و غلط میں فرق سکھائیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ تمباکو نوشی کے خلاف باقاعدہ آگاہی پروگرام چلائیں، اور ساتھ ہی طلبہ کی ذہنی صحت پر بھی توجہ دیں۔
میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، کو چاہیے کہ وہ تمباکو نوشی کو بڑھاوا دینے والے مواد پر کنٹرول کریں اور مثبت طرزِ زندگی کو فروغ دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف قوانین سخت کرے بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔ عوامی جگہوں، کالجوں اور کیفے جیسے مقامات پر چیکنگ کا نظام وضع کیا جائے، اور تمباکو مصنوعات کی فروخت پر عمر کی حد کو سختی سے لاگو کیا جائے۔
سگریٹ نوشی ایک بیماری ہے، مگراس سے بھی بڑھ کر یہ ایک سماجی بحران بنتا جا رہا ہے جو ہماری نوجوان نسل کی صحت، ذہن، اور مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو ایک پوری نسل ذہنی و جسمانی کمزوریوں کا شکار ہو کر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور والدین، اساتذہ، پالیسی ساز، اور معاشرہ ایک اجتماعی شعور کے ساتھ اس مسئلے کا سامنا کریں۔ نوجوانوں کو صرف سگریٹ سے نہیں، بلکہ اس کے پیچھے چھپی مایوسی، اضطراب، اور غلط ترجیحات سے بھی بچانا ہوگا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمنگلا کے طالب علم سے فیلڈ مارشل تک، پاک فوج کے سب سے سینئر آفیسرجنرل عاصم منیر کے کیریئر پر ایک نظر منگلا کے طالب علم سے فیلڈ مارشل تک، پاک فوج کے سب سے سینئر آفیسرجنرل عاصم منیر کے کیریئر پر ایک نظر وفاقی حکومت اور کے پی حکومت کے درمیان این ایف سی ایوارڈ پر معاملات طے پاگئے قازقستان کے سفیر یرژان کیستافین کی چیئر مین سی ڈی اے سے ملاقات، اسلام آباد کی ترقی، خوشحالی ، بیوٹیفکیشن اور ماحول دوست پودے... حکومت نے یو اے ای کے تین بینکوں سے ایک ارب ڈالر قرض مانگ لیا چین کا پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں ساتھ دینے کا اعلان معاشی پالیسیاں بنانا ماہرین صحت نہیں بلکہ ماہرین اقتصادیات کا کام ہے، امین ورک
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تمباکو نوشی پاکستان میں سگریٹ نوشی سوشل میڈیا کرتے ہیں جاتا ہے میں بھی کے خلاف نوشی کے رہا ہے
پڑھیں:
صومالیہ کے فوجی بھرتی مرکز کے باہر خودکش دھماکا، 10 افراد ہلاک
صومالیہ کے فوجی بھرتی مرکز میں خودکش دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق مسلمان افریقی ملک صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ایک فوجی بھرتی کے مرکز میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دھماکے کے وقت فوجی بھرتی کے مرکز کے باہر نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی، خودکش بمبار نے فوجی بھرتی کے مرکز کے گیٹ پر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔
صومالی فوج کے کیپٹن سلیمان نے غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ میں سڑک کے دوسری جانب تھا، تیز رفتار ٹک ٹک رکا، جس میں سے ایک شخص اترا اور تیزی سے بھرتی کیلئے آئے نوجوانوں کی قطار کے قریب جاکر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے سے بھرتی کیلئے آئے نوجوانوں اور راہگیروں سمیت 10 افراد ہلاک ہوئے، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ بس کے ذریعے علاقے سے گزرتے ہوئے بھرتی مرکز کے باہر سیکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو جمع دیکھا تھا، پھر ایک دم دھماکا ہوگیا اور ہر طرف دھویں کے بادل چھا گئے۔
فوجی ہسپتال کے عملے نے میڈیا کو بتایا کہ کم از کم 30 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا، جن میں 6 موقع پر ہی دم توڑ گئے تھے۔