دنیا کو وباؤں سے بچانے کا تاریخی معاہدہ منظور
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) اس معاہدے کی منظوری جنیوا میں جاری ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے دوسرے روز عمل میں آئی۔ اس موقع پر ہونے والی رائے شماری میں 124 ممالک نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 11 غیر حاضر رہے جن میں پولینڈ، اسرائیل، اٹلی، روس، سلواکیہ اور ایران بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے پہلے ہی اس معاہدے کی تیاری کے عمل سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
وبائی امراض سے متعلق عالمی معاہدہ: ’ناکامی کوئی آپشن نہیں‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے معاہدے کو منظوری ملنے کے بعد کہا، "اس معاہدے کے ساتھ ہم تاریخ کی کسی بھی نسل کے مقابلے میں وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
(جاری ہے)
"
انہوں نے کہا کہ رکن ممالک کی قیادت، تعاون اور عزم کی بدولت آج دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔
یہ معاہدہ صحت عامہ، سائنس اور کثیرفریقی طریقہ کار کی فتح ہے۔دنیا اگلی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، عالمی جائزہ رپورٹ
گیبریاسس کا کہنا ہے کہ "معاہدے کی بدولت مستقبل کی ممکنہ وباؤں سے نمٹنے کی بہتر تیاری کے لیے اجتماعی اقدامات یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ عالمی برادری کی جانب سے اس عزم کا اظہار بھی ہے کہ آئندہ شہریوں، معاشروں اور معیشتوں کو ایسے حالات کا سامنا نہ ہو جو انہیں کووڈ انیس وبا میں پیش آئے۔
" معاہدے تک پہنچنے میں تین سال لگےدنیا بھر کے ممالک اس معاہدے پر پہنچنے کے لیے تین سال سے گفت و شنید کر رہے تھے۔ کووڈ۔19 وبا سے ہونے والی تباہ کاری، اس دوران دنیا بھر کے نظام ہائے صحت میں آشکار ہونے والی خامیاں اور بیماری کی تشخیص، علاج اور اس کے خلاف ویکسین کی فراہمی کے معاملے میں بڑے پیمانے پر دیکھی جانے والی عدم مساوات اس معاہدے کے بنیادی محرکات ہیں۔
معاہدے کے متن کو گزشتہ ماہ کئی دور کے کشیدہ مذاکرات کے بعد اتفاق رائے سے حتمی شکل دی گئی۔
جرمنی: وبائی امراض سے آگاہی کے عالمی مرکز کے قیام کا فیصلہ
معاہدے کی منظوری کے موقع پر فلپائن کے وزیر صحت اور رواں سال ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے صدر ڈاکٹر ٹیوڈورو ہربوسا نے کہا کہ معاہدہ طے پانے کے بعد تمام ممالک کو اس پر عملدرآمد کے لیے بھی اسی تندہی اور لگن سے کام کرنا ہو گا۔
اس ضمن میں وباؤں سے نمٹنے کے لیے درکار طبی سازوسامان تک مساوی رسائی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کووڈ ایک ایسا طبی بحران تھا جس کی ماضی میں طویل عرصہ تک کوئی مثال نہیں ملتی، اسی طرح یہ معاہدہ بھی صحت و زندگی کو تحفظ دینے کا ایک غیرمعمولی اقدام ہے۔
معاہدے کے اہم نکاتڈبلیو ایچ او کے اس معاہدے میں وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کے خلاف اقدامات کے لیے عالمگیر طبی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے درکار اصول، طریقہ ہائے کار اور ذرائع تجویز کیے گئے ہیں۔
اس معاہدے کی رو سے رکن ممالک میں ادویہ ساز اداروں کو وباؤں سے متعلق 20 فیصد طبی سازوسامان بشمول ویکسین، علاج معالجے اور مرض تشخیص کے لیے درکار اشیا ڈبلیو ایچ او کے لیے مخصوص رکھنا ہوں گی۔ یہ ادویات اور سامان ہنگامی طبی حالات میں کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔
اس میں ممالک کی قومی خودمختاری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ معاہدہ ڈبلیو ایچ او کے سیکرٹریٹ، اس کے ڈائریکٹر جنرل یا دیگر حکام کو طبی معاملات اور ہنگامی طبی حالات میں کسی ملک کے قوانین یا پالیسیوں کو تبدیل کرنےکا اختیار نہیں دیتا۔
یہ دوسرا موقع ہے جب رکن ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے بنیادی اصولوں کے تحت کسی ایسے معاہدے پر اتفاق رائے کیا ہے جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو گا۔ اس سے قبل 2003 میں تمباکو نوشی کی عالمگیر وبا پر قابو پانے کے لیے فریم ورک کنونشن کی منظوری دی گئی تھی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے معاہدے کو "مستقبل کی فتح" قرار دیا۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او کے معاہدے کے اس معاہدے معاہدے کی کے لیے
پڑھیں:
ماحولیاتی تبدیلی؛ حقیقت بھی، سرمایہ دار کا ایک نیا ہتھیار بھی
کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحولیاتی حرارت گیری کی سب سے بڑی وجہ ہے اور گرین ہاؤس گیسوں میں سے سب سے زیادہ منفی اثرات رکھنے والی گیس ہے۔ اس کی مقدار اس وقت پچھلے آٹھ لاکھ سال میں خطرناک حد تک بڑھ کر چار سو دس حصے فی ملین ہوچکی ہے۔
عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے دور کی نسبت ایک اعشاریہ دو ڈگری بڑھ چکا ہے۔ یہ خطرناک ماحولیاتی تبدیلی سے صرف اعشاریہ آٹھ ڈگری کم ہے۔ کیونکہ سارے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی درجہ حرارت میں دو ڈگری کی تبدیلی آئے گی تو دنیا کے جغرافیائی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ آنے والے صرف بیس سال میں درجہ حرارت اس خطرناک نقطے کو چھو جائے گا۔ ابھی تک انسان نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور ڈر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرے گا بھی نہیں!
اس تبدیلی کے اثرات بہت ہی بھیانک ہوں گے۔ جب انسان اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کرے گا تو اس کے ناخوشگوار اور پریشان کن اثرات سامنے آئیں گے۔ جب درجہ حرارت بڑھے گا تو آب و ہوا کی تبدیلی غیر یقینی ہوجائے گی۔ سیلاب اور طوفان جو ایک سو سال میں ایک دفعہ آتے تھے وہ ہر دس بیس سال بعد آنے شروع ہوجائیں گے۔ دنیا کے ہر خطے کا موسم شدت اختیار کرجائے گا اور ساری صورت حال بگڑ جائے گی۔ جہاں سبزہ زار ہیں وہ ریگستان بن جائیں گے اور سر سبز پہاڑ چٹیل ہو جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں بارش کا آنا اور بارش والے علاقوں میں نہ آنا۔
موسموں کی اس تبدیلی سے جغرافیائی اور سیاسی تعلقات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ کچھ ملک ڈوب جائیں گے اور کچھ ریگستان میں تبدیل ہو جائیں گے، جہاں کے رہنے والے سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے اور بہت سارے تلخی ایام سہہ ہی نہ پائیں گے۔ ایسی صورت حال میں تاریخی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ امریکا اور چین اس تعاون میں نمایاں ہوں گے۔ اگر ان دونوں ملکوں نے آپس میں تعاون نہ کیا تو ایک قیامت پربا ہوجانے کا ڈر ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حکومتیں، پرائیویٹ کمپنیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا کردار نبھائیں گی تو ہی حالات پر قابو پایا جاسکے گا۔
لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس منڈلاتے خطرے کو ترقی یافتہ ممالک ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرنے لگ جائیں، کیونکہ ترقی یافتہ دنیا بھی بڑی چالاک اور طاقتور ہے۔ اس کے بیک جنبش قلم سے ہی نہیں بیک جنبش ابرو سے بھی فیصلے اور حالات بدل جاتے ہیں اور اس طاقت کو مستقل طور پر برقرار رکھنے اور استعمال کرنے کےلیے سرمایہ کار کی دنیا عالمی مسائل کو استحصال کرنے کےلیے استعمال کرتی ہے۔ اس نے پہلے ہی بہت سے ایسے ہتھیار بنا رکھے ہیں جو ہیں تو نادیدہ مگر ایٹم بم سے زیادہ خطرناک اور زہریلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ انسان کے دماغ پر اس کی سوچ اور احساسات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہتھیاروں میں ایک تازہ ترین ہتھیار ماحولیاتی تبدیلی کا بھی بنا لیا جائے گا۔ خاص طور مسلم ممالک کےلیے یہ ایک بڑا بلیک میلنگ پوائنٹ بن کر سامنے آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گرد، شدت پسند، غار کے دور کے لوگ، فرسودہ خیالات کے لوگ، عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی انتہا پسندی وغیرہ جیسے ہتھیار ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک پر حملہ تک کرنے کا جواز انہی باتوں کو بنایا گیا۔
کسی انتہائی اہم معاملے سے صرف نظر کرنے یا کروانے کےلیے اس ماحولیاتی تبدیلی کے نام کو استعمال کیا جائے گا۔ ایسے ہی جیسے عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ حملوں کی زد میں ہے اور غزہ کو بڑے منظم طریقے سے ختم کیا جاچکا ہے۔ کچھ دن پہلے غزہ عالمی اخبارات و میڈیا کی شہ سرخیوں میں آ گیا تھا مگر اسے اسی ترقی یافتہ دنیا نے پس پشت ڈال دیا اور دنیا کی توجہ دوسرے بہت سے گھمبیر مسائل کی طرف مبذول کرا دی۔ ایسا اس دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ جب بھی مسلم دنیا پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تب ہی اس سے توجہ ہٹانے کےلیے امریکا ایران جنگ کا شوشا چھوڑ کر اس معاملے کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ غزہ سے توجہ ہٹانے کےلیے اس دفعہ بھی ایران اور امریکا ہی کام آئے۔ کبھی ایٹمی معاہدے کا ذکر اور کبھی امریکا پر ایران کا حملہ اور کبھی ایران پر اسرائیل کا حملہ۔ ایسے ہی حربوں میں سے ایک یہ حربہ ماحولیات کا مسئلہ اور عالمی فضا میں تبدیلی کا معاملہ بھی بنے گا۔ عالمی میڈیا جو سرمایہ دار کے قبضے میں ہے ایک دم کہے گا کہ فلاں ملک کی وجہ سے دنیا کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے، اس پر پابندی یا حملہ یا کوئی بھی قدغن لگائی جاسکے گی۔
اگرچہ اس وقت دنیا ایک مستقل بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عالمی لبرل ازم ہر طرف سے گھیرے میں ہے۔ جمہوریت زوال پذیر ہے۔ معاشی بحالی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ابھرتا ہوا چین امریکا کےلیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ اور بین الاقوامی تناؤ ایک تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ ان تمام بحرانوں سے بڑھ کر ہے اور ہم اس سے یا تو بے بہرہ ہیں یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی تمام نسل انسانی کےلیے خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی آنے والے وقت میں عالمی معاشیات اور تعلقات پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوگی۔ اس لیے تمام ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک خود کو چوکنا رکھیں کہ مغرب اب اسے ماحولیات کے نام پر استعمال کرے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔