خضدار حملے کا بدلہ ضرور لیا جائے گا، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے خضدار میں اسکول بس پر دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بزدلانہ حملوں پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ آج صبح خضدار میں اسکول بس پر حملہ کیا گیا جس میں 47 بچے سوار تھے اور اس افسوسناک واقعے میں 4 بچے شہید ہو گئے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ اطلاعات تھیں کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بزدلانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تاہم یہ اندازہ نہیں تھا کہ معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بھارت اپنی جنگی شکست چھپانے کے لیے ایسے اقدامات پر اتر آیا ہے اور بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے گروہ ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہیں ۔بھارت دہشت گردوں کو پیسہ اور ٹریننگ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بلوچ نے پنجاب کو نشانہ نہیں بنایا، دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے اور اب جب بات بچوں تک پہنچ چکی ہے،وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ دہشتگردوں سے بدلہ لیا جائے گا اور ان بزدل عناصر کو جہنم واصل کیا جائے گا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ معصوم بچوں کا مقدس خون ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا اور دہشتگردوں کی نہ کوئی قوم ہے نہ قبیلہ، وہ صرف دہشتگرد ہیں، جنہیں عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی نے کہا کہ جائے گا
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔