Express News:
2025-09-17@23:21:06 GMT

صحافت کی مزاحمت

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

صحافت محض ایک پیشہ نہیں ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ سچ کے چراغ کو ہاتھوں میں تھامے طوفانوں کے بیچ روشنی کی تلاش کا نام ہے۔ یہ ان آوازوں کی نمایندگی ہے جو بازارِ زر میں بکنے کو تیار نہیں ہوتیں، جو اقتدار کے ایوانوں میں گونگی کردی جاتی ہیں، جو سچ بولنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتی ہیں۔

تین مئی دنیا بھر میں آزادیِ صحافت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ دن محض رسمی طور پر منایا جاتا ہے، وہ صحافی جو ریاستی جبر، عدالتی بے حسی اور سرمایہ دارانہ نظام کے پنجوں میں سسک رہے ہیں، اُن کے لیے یہ دن نوحہ ہے ،جشن نہیں۔ ہمارے ملک میں صحافی ہونا اور سچ لکھنا آسان نہیں ہے۔

کبھی صحافی قتل ہو رہے ہوتے ہیں اورکبھی اغوا ہوتے ہیں ،کبھی مذہبی انتہا پسند فتوے دیتے ہیں اورکبھی محبِ وطن کہلانے والے لوگ گالیاں دے کر خاموشی مسلط کرتے ہیں اور اگر کوئی پھر بھی لکھنے کا حوصلہ کرے تو اسے یا تو گمشدہ کر دیا جاتا ہے یا پھر عدالتوں کے چکر میں پھنسا دیا جاتا ہے یا بے روزگار کر کے ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ فاقہ کشی کی نوبت آ جاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ خاموشی کیوں ضروری سمجھی جاتی ہے؟ کس بات کا ڈر ہے؟ سچ سے اتنی وحشت کیوں؟

ہم جانتے ہیں کہ صحافت کی آزادی کی دشمن محض آمریت نہیں بلکہ جمہوریت کے لبادے میں چھپے وہ نظام بھی ہیں جو عوام کے بجائے اشرافیہ کے مفاد کی نگہبانی کرتے ہیں۔ آج کا دور ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا ہے جہاں AI الگورتھم اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمزکی بھرمار ہے مگر دوسری طرف وہی پرانی غلامی ہے۔ صرف چہروں اور ہتھکنڈوں کی تبدیلی ہوئی ہے۔ آج کا صحافی ’’کی بورڈ ‘‘کے پیچھے بیٹھ کر لکھتا ہے، مگر اس کی سانسیں اب بھی مقتدرہ کی مرضی سے آتی جاتی ہیں۔

عالمی سطح پر بھی صحافت ایک آزمائش سے گزر رہی ہے۔ فلسطین میں غزہ میں جب اسرائیلی بمباری کے دوران درجنوں صحافی شہید ہوئے تو مہذب دنیا کی زبانیں گنگ تھیں۔ یوکرین کی جنگ ہو، افغانستان میں طالبان کی واپسی ہو یا بھارت میں مودی سرکار کا عروج ہر جگہ وہی کہانی ہے جو لکھے گا وہ مارا جائے گا، جو بولے گا، وہ دبایا جائے گا اور وہ جو غیر جانب دار کہلاتے ہیں وہ دراصل خاموش تماشائی ہیں۔ ایک طرح سے ظلم کے شریک۔

پاکستان میں صحافت کی تاریخ خود ایک جدوجہد کی کہانی ہے۔ نثار عثمانی، منہاج برنا، فیض احمد فیض سب نے اپنے اپنے دور میں سچ لکھا اور اس کی قیمت چکائی۔ آج بھی کئی صحافی ایسے ہیں جو اپنے قلم کی حرمت پر سودے بازی نہیں کرتے۔ چاہے ان کے خلاف مقدمات ہوں یا دھمکیاں وہ ان صحافیوں کی صف میں کھڑے ہیں جنھوں نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔ چاہے مظلوم بلوچ ہو، پشتون ہو، سندھی ہو یا کسی چھوٹے اخبار کا رپورٹر۔

یہ سوال محض صحافت سے نہیں بلکہ ایک وسیع تر سماجی خوف سے جڑا ہوا ہے۔ سچ بولنے والا فرد معاشرے میں اجنبی بنا دیا جاتا ہے۔ اسے نہ صرف مقتدر حلقے بلکہ اکثر اپنے ہم پیشہ افراد بھی تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی نوجوان صحافی جب اس پیشے میں قدم رکھتے ہیں تو وہ خواب لیے آتے ہیں کہ وہ حق کا ساتھ دیں گے مگر جلد ہی انھیں سمجھا دیا جاتا ہے کہ سمجھ داری اور خاموشی میں فرق صرف ایک نوکری کا ہے۔ انھیں یہ باورکرایا جاتا ہے کہ اگر تم نے سوال اٹھایا تو تم پر ایجنٹ کا الزام لگے گا، تمہیں غدار یا بیرونی ایجنٹ کہا جائے گا۔

آج میڈیاانڈسڑی خود آزادیِ صحافت کی مخالف ہے۔ اس کی ترجیحات میں صحافیوں کا تحفظ نہیں ریٹنگز اور کاروبار ہے۔ کئی رپورٹرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خبر دیتے ہیں مگر ان کی خبر کسی مفاد سے متصادم ہو تو یا تو دبا دی جاتی ہے یا توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہے۔

صحافت جو کبھی مظلوموں کی آواز تھی آج بعض جگہوں پر صرف طاقتوروں کا ہتھیار بن چکی ہے۔عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ جب کوئی صحافی لاپتا ہوتا ہے یا کسی اخبار میں سچ پر مبنی رپورٹ نہیں چھپتی تو اصل نقصان کسے ہوتا ہے؟ عوام ہی وہ محروم طبقہ ہے جس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ صحافی جب سوال نہیں پوچھے گا تو عوام کو جواب کون دے گا؟ پارلیمان ہو، عدالتیں ہوں یا سڑکوں پر احتجاج ان سب کی تصویر اور آواز صحافی ہی تو ہوتا ہے، اگر وہ بھی خاموش ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ سماج نے اپنی سانس روک لی ہے۔

یاد رکھیے آزادیِ صحافت صرف صحافی کا مسئلہ نہیں یہ جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ جب صحافی آزاد نہ ہو تو عوام اندھیرے میں رکھے جاتے ہیں۔ جب سوال پوچھنے والے کو غدارکہا جائے تو سمجھ لیجیے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ کتنے کمزور ہیں۔ طاقتور ہمیشہ سچ سے ڈرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سچ کو دبا دیا جائے یا کم ازکم اتنا کمزورکردیا جائے کہ وہ گونگا ہو جائے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صحافت کی آزادی کوئی مہربانی نہیں یہ ایک حق ہے۔ یہ حق صحافیوں نے خود چھینا ہے مارکھا کر، قید ہو کر، لاپتا ہوکر۔ آج کے نوجوان صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اس میراث کو صرف موبائل جرنلزم یوٹیوب چینلز یا ریٹنگز کی بھینٹ نہ چڑھائیں بلکہ ان نظریاتی بنیادوں سے جڑیں جو صحافت کو مزاحمت بناتی ہیں جو اسے اقتدار کے سامنے سوال بناتی ہیں۔

آج کے دور میں جب اصل خبر دفن ہو جاتی ہے ہمیں وہ صحافی یاد رکھنے چاہئیں جو سچ کی تلاش میں شہید ہوئے۔ صحافیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا، تشدد کیا گیا۔ وہ سب جو لاپتا ہیں جو آج بھی واپس نہیں آئے، ان کی داستانیں ہمارے ضمیر پر ایک قرض ہیں۔ یہ کالم ان تمام لوگوں کے لیے ہے، جو آج بھی قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں۔

جو جانتے ہیں کہ جھوٹ کی دیوار چاہے کتنی ہی اونچی ہو، سچ کا ایک جملہ اسے لرزا دیتا ہے اور جو مانتے ہیں کہ صحافت کا اصل مقصد طاقت کے ایوانوں کی خوشامد نہیں عوام کے دکھوں کو زبان دینا ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم سوال کریں کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہمارا میڈیا عوام کی نمایندگی کر رہا ہے یا مفادات کا غلام ہے؟ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ سچ کے ساتھ یا خاموشی کے ساتھ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیا جاتا ہے صحافت کی جاتی ہے ہیں کہ ہیں جو

پڑھیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں

دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔

رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:

پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔

دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔

پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔

یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔

ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔

یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔

اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔

چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

متعلقہ مضامین

  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • امریکی صدر ٹرمپ کا آسٹریلوی صحافی سے جھگڑا کس سوال پر ہوا؟
  • امریکی صدر ٹرمپ نے نیو یارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
  • بھارتی صحافی رویش کمار کا اپنے ہی اینکر پر وار، ارنب گوسوامی کو دوغلا قرار دیدیا
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • علی امین گنڈاپور کو اڈیالہ جیل کے باہر داہگل ناکے پر روک دیا گیا
  • کیا آئی سی سی غزہ پر کسی کپتان کا بیان برداشت کرپائے گا؟ بھارتی صحافی پہلگام کے ذکر پر برس پڑے
  • کراچی، صدر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، دو افراد زخمی
  • نواز شریفن کی ایک مرتبہ پھر لاہور سے لندن روانگی
  • نواز شریف غیر ملکی ایئرلائن کے ذریعے لاہور سے لندن روانہ