اسلام آباد(نیوز ڈیسک) جولائی کا آغاز ایک نئی مہنگائی لہر کے ساتھ ہو سکتا ہے، کیونکہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں اضافے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق یکم جولائی سے پیٹرول 11 روپے جبکہ ڈیزل 15 روپے فی لیٹر تک مہنگا ہونے کا امکان ہے۔

ملک بھر میں پہلے ہی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے، اور اب پیٹرول کی قیمت میں متوقع اضافہ عوام کے لیے ایک اور معاشی بوجھ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پیٹرولیم قیمتوں سے متعلق سمری وزارتِ پیٹرولیم کو بھجوانے کی تیاری کر لی ہے، جس کے بعد نئی قیمتوں کا اعلان آج رات متوقع ہے۔

قیمتوں میں اضافے کی اصل وجہ کیا ہے؟

ذرائع وزارت پیٹرولیم کے مطابق، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔

نئی قیمتوں کی حتمی منظوری وزیر خزانہ اور وزیراعظم کی مشاورت سے دی جائے گی۔

عوام کیلئے مزید مشکلات؟

یہ ممکنہ اضافہ نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا سبب بنے گا بلکہ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ مہنگائی سے پہلے ہی پریشان عوام کیلئے یہ ایک اور “پیٹرول بم” جیسا ثابت ہو سکتا ہے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں

پڑھیں:

مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے

وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے 8ممالک نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کے فلسطین بارے20نکاتی ایجنڈے کا خیر مقدم کیا ہے تو حکومتِ پاکستان کے اِس اقدام کی تعریف کی جائے ، نہ کہ اِس کی تنقیص۔‘‘

ممکن ہے ڈار صاحب درست ہی کہتے ہوں ، مگر جب پاکستانی عوام آئے روز مہنگائی در مہنگائی کی ہلاکت خیز چکی میں پِس رہے ہوں تو عوام کسی بھی حکومتی اقدام کی تعریف کریں تو کیونکر؟

اب دیکھئے اکتوبر کا مہینہ طلوع ہوتے ہی شہباز حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لٹر 4روپے سے زیادہ اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا جو نیا بم گرایا ہے ، اِس کی موجودگی میں پاکستانی عوام اِس حکومت کی تحسین و تعریف کیسے کر سکتے ہیں؟

پٹرول کی قیمت اب269روپے فی لٹر ہو گئی ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نئے اضافے سے مہنگائی میں نئے سرے سے اضافہ ہُوا ہے ۔ حکومتیں اور حکمران مگر سمجھتے ہیں کہ جس طرح اُنہیں ہمہ دَم بڑھتی مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا، اِسی طرح عوام بھی مہنگائی سے متاثر نہیں ہو رہے ۔

مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اگلے روز چکوال میں فرمایا:’’ حکومت ملی تو خزانہ خالی تھا۔ اب بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔ جب سے ہم اقتدار میں آئے ہیں ، ملک کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں۔‘‘درست فرمایا ہے ۔ کیا حکومتی خزانہ پٹرول، ڈیزل ، آٹے ، چینی اور گھی کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کرکے بھرا جا رہا ہے ؟

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے عوام سے چند دن قبل، یو این جی اے میں اپنے خطاب میں، ایسی ہی غلط بیانی کی: ’’ جب سے مَیں اقتدار میں آیا ہُوں ، امریکا بھر میں مہنگائی اور خورونوش کی قیمتوں میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے‘‘ ۔

جونہی اُن کی تقریر اختتام کو پہنچی ، سی این این کے تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کے خطاب کی سرجری کرتے ہُوئے امریکی عوام کو بتایا کہ امریکی صدر نے سراسر جھوٹ بولا ہے۔ امریکا میں مہنگائی کم ہونے کی بجائے ، مزید بڑھی ہے ۔ اِس مہنگائی کے کارن امریکی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں ۔

امریکی صدر شائد نہیں جانتے تھے کہ اُن کی تقریر ’’دلپذیر‘‘ سُننے اور دیکھنے والے کروڑوں افراد بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی کا شعر ہے:بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا/ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں! قیامت کی نظر رکھنے والوں نے ٹرمپ کو آئینہ دکھا کر اُنہیں امریکا ہی میں نہیں، دُنیا بھر میں نادم کر دیا ہے ۔

ٹرمپ صاحب کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اِس بات کی قطعی پروا نہیں ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے اُن کے دعوے کس قدر بے بنیاد اور بودے ہیں!

سب کچھ جانتے ہُوئے بھی ہمارے حکمران اور اُن کے دائیں بائیں کھڑے کارندے مسلسل جھوٹ الاپ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا گراف بہت نیچے آگیا ہے ۔

زمینی حقائق مگر اِن سرکاری درباری دعوؤں کے برعکس ہیں ۔حکمران مہنگائی میں ’’خاصی کمی‘‘ کا دعویٰ شائد اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود اور اُن کی بیگمات بازار سے سودا سلف لانے کا کبھی تکلّف ہی نہیں کرتے ۔

اگر حکمران خود دکانوں پر جائیں تو اُنہیں ’’لون مرچ‘‘ کے آسمانوں تک پہنچے داموں کی حدت اور شدت کی ’’لو‘‘ لگ جائے ۔ عالمی ادارے ہمارے حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس اعتراف کررہے ہیں کہ ’’ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں 26فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

یہ اعدادو شمار عالمی بینک کی جانب سے بتائے گئے ہیں اور اِنہیں تمام اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔

بقول ورلڈ بینک: یہ مہنگائی پچھلے تین برسوں کے دوران مزید اور مسلسل بڑھتی چلی گئی ہے ۔ اور یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران پی ڈی ایم اور نون لیگ کی مسلسل حکومت رہی ہے۔

اور اِن حکومتوں کے سربراہ شہباز شریف رہے ہیں ۔ ساتھ ہی معاشی تھنک ٹینک (Economic Policy and Business Development)نے پاکستانی قرضوں پر ایک رپورٹ جاری کرتے ہُوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’پاکستان کا ہر شہری 3لاکھ18ہزار252روپے کا مقروض ہے ۔ ایک عشرہ قبل پاکستان کا ہر شہری 90ہزارروپے کا مقروض تھا۔‘‘

لاریب شہباز حکومت مہنگائی کو لگام دینے اور عوام کو متوقع ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوتی چلی جارہی ہے۔ حکمرانوں اور اُن کے سنگی ساتھیوں کے غیر ملکی دَورے( جن میں ہردَورے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں) مگر رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

بھاری بھر کم وفد کے ساتھ ایک غیر ملکی دَورہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار ہو جاتا ہے ۔ پاکستان ایسا مفلس ترین اور غیر ملکی قرضوں میں ڈُوبا ملک کیا ایسے مہنگے غیر ملکی مسلسل دَوروں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟

حکمرانوں کے اِن غیر ملکی دَوروں سے غربت کے مارے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ستمبر2025کے تیسرے ہفتے UNGA کے سالانہ اجلاس میں اگر بھارتی وزیر اعظم نہیں پہنچے تو بھارتی عوام کو کتنا نقصان پہنچا ہے ؟

اور اگر ہمارے وزیر اعظم صاحب بھاری تر وفد اور اپنے منظورِ نظر ساتھیوں کے ساتھ UNGAاور واشنگٹن پہنچے تو یہ ایک عام غریب پاکستانی کے لیے کتنا مفید ثابت ہُوا ؟ دو ہفتوں کو محیط وزیر اعظم کے تازہ غیر ملکی دَورسے ایک عام غریب پاکستانی کا کیا بھلا ہُوا؟

ملک میں اِس وقت آٹا ، چینی ،چاول، گھی، دالوں وغیرہ کے نرخوں میں مسلسل کمر توڑ مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ آٹے اور چاول کی نئی قیمتیں تو ہوشربا ہیں۔ اوپر سے یہ ’’نوید‘‘ بھی سُننے کو مل رہی ہے کہ اِس بار ملک بھر میں گندم کی فصل کمتر کاشت ہوگی کہ سیلابوں نے اکثر زرعی زمینوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

اِسی خدشے کے پس منظر میں نون لیگی وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی ، رانا تنویر، نے کہا ہے کہ ’’اگلے سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔‘‘

گندم درآمدگی کا مطلب یہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ۔ وطنِ عزیز میں مہنگائی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے ، اِس کا اندازہ اِس ایک مثال سے بھی لگایا جا سکتاہے :آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے یکم اکتوبر کو بتایا ہے کہ’’ یکم جنوری 2025سے 30ستمبر2025 تک ، صرف9مہینوں میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک لاکھ34ہزار روپے اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

اب سونے کی قیمت فی تولہ 4لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔ اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ہمارے حکمران مگر غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والے کروڑوں عوام کی مسلسل اجیرن ہوتی زندگیوں سے شائد آگاہ اور آشناہی نہ ہوں۔

مثال کے طور پر سیلابوں کی بنیاد پر مالی تباہی کا شکار غریب کسانوںاور ہاریوں کی دستگیری کی بات چھڑی ہے تو پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کے ’’آگو‘‘ ایک دوسرے کی تکذیب پر اُتر آئے ہیں ۔

مثلاً:بے نظیر انکم سپورٹ (BISP)کی سربراہ ( جو پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں) محترمہ روبینہ خالد مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہیں کہ ’’سیلاب زدگان (خاص طور پر سندھ کے)کی امداد BISP کے تحت کی جائے ‘‘۔

بلاول بھٹو سمیت ساری پیپلز پارٹی روبینہ خالد کی ہمنوا نظر آ رہی ہے ،جب کہ پنجاب حکومت کی ترجمان اور وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری ، روبینہ خالد اورپیپلز پارٹی کی قیادت کو صاف الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ’’(پنجاب اور سندھ میں) سیلاب متاثرین کو BISPکے تحت مدد فراہم نہیں ہو سکتی ۔

وزیر اعلیٰ (پنجاب ) ریلیف کارڈ کے تحت ہی پنجاب کے سیلاب زدگان کی مدد کی جائیگی ۔‘‘ حکمران طبقات کے مفاداتی تصادم میں اب بیچارے غربت وعسرت ، سیلابی پانیوں کے مارے اور مہنگائی زدہ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟

متعلقہ مضامین

  • سوناایک ہفتے میں فی تولہ 12 ہزار روپے سے زائد مہنگا
  • سونا عوام کی پہنچ سے مزید دور، قیمتوں میں آج بھی بڑا اضافہ
  • ملک میں حالیہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ، سالانہ شرح 4.07 فیصد ریکارڈ
  • میرپورخاص،شہریوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کردیا
  • ٹنڈوجام،پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ،عوام مشکلات کا شکار
  • مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے
  • گندم کے وافر ذخائر کے باوجود کراچی سمیت سندھ میں آٹے کی قیمت میں اضافہ
  • پاکستان میں دیہات کی زندگی شہروں سے زیادہ مہنگی ہوگئی
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیاجائے ،جاوید قصوری