Express News:
2025-07-05@03:07:16 GMT

مزاحمت سے مفاہمت تک

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل حمید گل مرحوم کا کسی اخبار کے لیے آخری انٹرویو میں نے کیا تھا۔ صحافتی زندگی میں جن شخصیات نے ذہن پر گہرا نقش چھوڑا ان میں جنرل حمید گل بھی شامل ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ افغان جہاد کا آغاز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔

یہ بات یقیناً ہمارے لیے کچھ حیرت کا باعث تھی۔ اُن کا کہنا تھا ریاستوں کی بنیادی پالیسیاں شخصیات کی باہمی چپقلش کی نذر نہیں ہوا کرتیں۔ حالانکہ بھٹو صاحب سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے اور بعد میں بائیں بازو سے نظریاتی مطابقت رکھنے والی ملکی سیاسی جماعتوں نے اس جنگ میں افغانستان کے مذہبی عناصر کے خلاف روس نواز طبقوں کی حمایت کی، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بھٹو صاحب اور ہمارے ادارے اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ افغانستان میں بائیں بازو کی سیاسی قوتوں ’خلق اور پرچم‘ ( پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے دو دھڑے )کی جانب سے انقلاب ثور کے ذریعے صدر محمد داؤد کا تختہ اُلٹ دیے جانے کے بعد اب پاکستان کی مغربی سرحد پر حالات موافق نہیں رہیں گے۔

سو ہوا بھی یہی، 1979 میں روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور اُس طویل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ہمارا یہ خطہ دہائیوں تک غیر معمولی مشکلات کا شکار رہا۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے اُسی وقت سے انقلاب مخالف قوتوں کی مدد کا آغاز کر دیا تھا۔ طویل عرصہ تک خانہ جنگی اور بیرونی عسکری مداخلت کا شکار رہنے والے علاقوں میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ مار دھاڑ کرنے والے عسکری گروہ ایک دائمی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، حالانکہ ان کی ضرورت وقتی ہوتی ہے۔ یہی کچھ افغانستان میں بھی ہوا۔

افغانستان میں اُترنے والی عسکری قوتوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی اس لیے نشانے پر رکھا کیونکہ ان کے پاکستان کے ساتھ قریبی نسلی تعلق کی بنا پر افغانستان میں جاری تصادم میں پاکستان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا۔ پاکستان کے اثر کو کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے ریاست مخالف سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کو منظم کیا گیا۔ دہشت گردی کے جس طوفان کا پاکستان نے سامنا کیا ہے اور ابھی تک کر رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اس صورتحال کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب ہم اس جنگ میں اُلجھ گئے تو ہمارے سب دشمن اس میں کود پڑے۔

انھیں یہ نظر آرہا تھا کہ مشکل کے اس دور میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا مقصد زیادہ آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے لہٰذا بھارت نے پہلے سے موجود غیر ریاستی عسکری قوتوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی روش کو نہ صرف یہ کہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اسے ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔ بھارت نے پوری قوت کے ساتھ صوبائیت اور نسلی منافرت کو ہوا دی۔ پاکستان کے اندر ریاست مخالف تحاریک اور عسکری گروہوں کو منظم کیا اور پوری شدت کے ساتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔

اس دوران حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے ذریعے ریاستی عملداری کو بحال کرنا پڑا۔ یہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کو انتہائی کامیابی کے ساتھ سنبھال لیا گیا۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں دشمن کا ایک اہم ہدف بلوچستان بھی رہا ہے۔ اپنی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے یہ صوبہ تمام عالمی طاقتوں کی نظروں میں ہے۔ چین کے ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں کلیدی حیثیت کے باعث بین الاقوامی سیاسی کشمکش میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے، لہٰذا اسی تناسب سے یہاں غیر ملکی مداخلت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بلوچستان میں تخریب کاری پر ہی مامور تھا جو اب پاکستان کی قید میں ہے۔

 اس طرح کی صورتحال میں جہاں عسکری ذرایع استعمال کرکے مقاصد حاصل کرنے پڑتے ہیں وہیں یہ بھی نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ اُن مسائل کا سد باب ہو جن کے باعث ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے افرادی قوت میسر آ رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا عسکری آپریشنز کے ذریعے آپ دشمن کی ایما پر ریاست کے خلاف برسر پیکار جنگجوؤں کا زور تو توڑ سکتے ہیں، ان کے ذہن نہیں بدل سکتے۔ آپریشن ایک فوری خطرے کے تدارک کی سبیل ہے جب کہ قوم کی ذہن سازی ایک ایسا عمل ہے جس کے اثرات اگلی نسلوں تک چلتے ہیں۔ اس عمل کا ہراول دستہ قوم کے دانشور ہوتے ہیں اور ان کے قلم کی تاثیر سے ایسی جوہری تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے جو ’کارواں کے دل میں احساس زباں پیدا کر دے‘۔

گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی موثر کوشش میری نظر سے گزری جسے پڑھنے کے بعد شدت سے یہ احساس ہوا کہ اس کتاب کا ذکر جس قدر ہونا چاہیے وہ نہیں ہوسکا۔ یہ کتاب بلوچستان کے ایک ایسے سرکردہ جنگجو کی داستان حیات ہے جس نے ریاست کے خلاف طویل عرصہ تک جنگ لڑی اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے لوگوں کے حالات بدلنے کے لیے دلیل بندوق سے کہیں زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ کہانی ہے ’میر ہزار خان مری، کی، جن کی زندگی کا بڑا حصہ ریاست کے خلاف لڑتے ہوئے گزرا۔ یہ کہانی اس لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس حقیقت کو ایک ایسے شخص کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے جو خود اس کا حصہ رہا کہ کس طرح عالمی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو اپنی ہی ریاست کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔

دہشت گردی کے اس پیچیدہ منظر نامے میں فرقہ واریت کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور سیاسی وابستگیوں کو بھی۔ بلوچستان میں جس ابتری کا ہمیں سامنا ہے اس میں ریاست کی غلطیاں اور عدم توجہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ کتاب ’میر ہزار خان مری: مزاحمت سے مفاہمت تک‘ ، گوکہ بظاہر ایک شخصیت کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن درحقیقت اس شخصیت کے ذریعے ہم بلوچستان کے اصل مسئلے اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

کتاب کے مصنف عمار مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یوں تو صحافت سے منسلک ہیں لیکن افسانہ نگاری کا ہُنر اِن کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔ اُن کے تعارف میں ٹیلی ویژن بھی شامل ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ مضامین بھی لکھتے ہیں اور مضامین کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے۔ سیاست پر بھی لکھتے، بولتے ہیں۔ اس کتاب کو تکمیل تک پہنچانے میں ایک اور اہم نام خالد فرید کا ہے جو بلوچستان کے معاملات کی غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اپنی اہم سرکاری ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے طویل عرصہ بلوچستان میں رہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی وقت گزرا۔ ان خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازے گئے۔ میر ہزار خان سے ان کا تعلق دوستانہ تھا۔

اس کہانی کی بہت سی خفیہ تفصیلات خالد فرید کی میر ہزار خان مری سے طویل ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں، جب کہ کہانی کے مرکزی کردار کی زندگی کے تمام ادوار سے متعلق تصاویر بھی خالد فرید ہی نے فراہم کی ہیں۔ کتاب میں شامل اہم تفصیلات کو ہم تک پہنچانے میں بیورغ مری نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بیورغ، میر ہزار خان کے پوتے ہیں جو تمام عمر اپنے دادا کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اس عرصہ میں جو دیکھا اس کو بیان کیا ہے۔

عمار مسود نے اس کتاب کا آغاز ’اعتراف‘ سے کیا ہے۔ اعتراف اس بات کا کہ ملک کے دیگر حصوں کے بسنے والوں نے بلوچستان کو ’یہاں کے لوگوں کو اور ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کتاب کا پہلا باب میر ہزار خان کی وفات کے حالات کا احاطہ کرتا ہے یوں کتاب کا بیانیہ اختتام سے آغاز کی جانب سفر کرتا ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ بھٹکے ہوؤں کا لوٹ آنا ہی درحقیقت آغاز ہوتا ہے۔

کتاب کا پیش لفظ صدر مملکت آصف علی زرداری جب کہ دیباچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے لکھا ہے۔ : وہ کہتے ہیں ’’میری نظر میں میر ہزار خان کی یہ کہانی لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر نصاب میں متعارف کرانے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اس میں نوجوانوں کے لیے وہ رہنما اصول موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک دشمنوں کی سازشوں کو بروقت سمجھا اور ان کا سدباب کیا جا سکتا ہے‘‘۔ بلوچستان میں جاری بد امنی کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر مواد میری نظر سے نہیں گذرا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں ریاست کے خلاف بلوچستان میں پاکستان کو پاکستان کے کے ذریعے کے ساتھ کتاب کا

پڑھیں:

شام، ابراہام معاہدے اور گولان پہاڑی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اور تم ان لوگوں کی طرف ہرگز نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تمہیں بھی آگ آ پکڑے گی۔ (ہود: 113) قرآن نے بارہا مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ باطل کے ساتھ مصالحت نہ کریں اور نہ ہی ظلم و استبداد کے سامنے خاموش تماشائی بنیں، کیونکہ ظلم کے ساتھ خاموشی، گناہ میں شرکت کے مترادف ہے۔ اْمّتِ مسلمہ ایک ایسا جسم ہے، جس کے کسی ایک حصے کو چوٹ لگے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہی اْمّت، اپنے وجود پر لگنے والے زخموں کو مصلحت کی پٹیوں سے ڈھانپ رہی ہے، اور اپنے مظلوم بھائیوں کے لہو سے سیاست کی شطرنج کھیل رہی ہے۔
قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطین کی جدوجہد اور اسلامی وحدت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم قیادتیں ہر اس معاہدے اور سمجھوتے کو رد کریں جو صہیونیت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو۔ مگر موجودہ منظرنامہ ایک ایسے اخلاقی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ضمیر کی آوازیں خاموش اور مفادات کی صدائیں بلند ہو چکی ہیں۔ یہ مضمون اسی فکری و اخلاقی بحران پر ایک تفصیلی نگاہ ہے۔ شام جیسے ملک کی طرف سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولان پہاڑی پر خاموشی، محض سیاسی حکمت ِ عملی نہیں، بلکہ ایک فکری و تہذیبی انحراف کا آئینہ ہے، جو ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے۔ سیاست اگر اصولوں سے عاری ہو جائے تو وہ محض چالاکی کا کھیل بن جاتی ہے، اور اگر کسی ملّت کی قیادت بے ضمیر ہو جائے تو وہ ملّت خود فریب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ شام وہی ملک جہاں خلافت ِ اْمیہ کی عظمت نے جنم لیا، جہاں دمشق کی فضائوں سے اسلام کی روشنی پھیلی، آج اپنی تاریخ، عقیدے، اور وحدتِ ملّت کے برعکس ایسے فیصلوں کی راہ پر گامزن ہے جو اْمّتِ مسلمہ کی اجتماعی روح کو چور چور کر رہے ہیں۔ شام کی نئی حکومت کی جانب سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولان پہاڑی کے مسئلے پر خاموش مفاہمت ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف سیاسی بصیرت کے فقدان کی علامت ہیں بلکہ ایک اخلاقی و تہذیبی زوال کا مظہر بھی۔ ابراہام معاہدہ دراصل اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ ہے جس کے تحت اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ امریکا کی سرپرستی میں یہ معاہدہ چند عرب ریاستوں کے ذریعے نافذ کیا گیا، جس کی روح میں فلسطینی مزاحمت کو دبانا، قبلۂ اوّل کی اہمیت کو مٹانا، اور صہیونی عزائم کو تقویت دینا شامل ہے۔ شام، جو خود اسرائیلی جارحیت کا شکار رہا ہے، خاص طور پر جس کی گولان کی پہاڑیاں آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں، جب وہ ابراہام معاہدے کی حمایت کرے تو یہ سیاسی منافقت سے بڑھ کر تاریخی بے وفائی کا نشان بن جاتا ہے۔ یہی شام ماضی میں فلسطینی کاز کا علمبردار تھا، جہاں سے ’’القدس لنا‘‘ کی صدائیں اٹھتی تھیں۔ اب اگر یہی ملک صہیونی طاقتوں کے ساتھ مفاہمت کرے تو یہ ضمیر کے دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔
شام کی حمایت ایک علامتی اعلان ہے کہ اسلامی وحدت صرف کتابی نعرہ رہ گئی ہے اور اب مسلمان ممالک قومی مفاد کی آڑ میں استعماری منصوبوں کا حصّہ بننے لگے ہیں۔ جب ایک کے بعد ایک مسلم ریاست اسرائیل کو تسلیم کرے، تو فلسطینی مزاحمت تنہا ہوتی چلی جاتی ہے۔ شام کی حمایت اس تنہائی کو مزید گہرا کرے گی۔ اسرائیل اس حمایت کو ایک سیاسی فتح سمجھ کر اپنے قدم عرب دنیا میں اور مضبوطی سے جما لے گا۔ اس کا براہِ راست اثر قبلۂ اوّل پر پڑے گا، جسے محض ایک سیاحتی مقام بنا دیا جائے گا۔ یہ وقت علماء، مفکرین اور نوجوان دانشوروں کے لیے آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اسلام کی اصل روح عدل، حریت، مزاحمت اور وفاداری کو اجاگر کریں اور سیاسی چالاکیوں کے پردے چاک کریں۔
’’اگر تمہارے دل میں اْمّت کے زخموں کا درد نہیں، تو تمہاری مسکراہٹ بھی ایک دھوکہ ہے‘‘۔ کبھی کچھ زمینیں صرف جغرافیہ نہیں ہوتیں، وہ ضمیر ِ ملّت کا حصّہ بن جاتی ہیں؛ ان کا سودہ فقط سرحدوں کا نہیں، بلکہ غیرت، وفا اور خونِ شہیداں کا سودا ہوتا ہے۔
گولان پہاڑی شام کی وہ سر زمین جو 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل کے قبضے میں چلی گئی۔ آج شام کی نئی حکومت کی خاموشی کے باعث ایک خطرناک سمجھوتے کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا نے اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا، مگر آج کی سیاسی مصلحت نے شام کو اس سر زمین سے عملاً دستبردار کرا دیا ہے۔ شام کی خاموشی اسرائیل کو نہ صرف گولان پہاڑی پر مزید حق جتانے کی اجازت دے گی بلکہ اسے پورے خطے میں مزاحمت کے خاتمے کا اشارہ بھی ملے گا۔ غزہ پہلے ہی مصر، اسرائیل اور سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ شام کی حمایت مزاحمت کے حلقے سے ایک اور ملک کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ گولان پہاڑی کا سودا صرف زمین کا نہیں بلکہ اسلامی حمیت، مزاحمت کے اخلاص، اور اْمّت کی غیرت کا سودا ہے۔
اے شام! جب تْو نے گولان پہاڑی کی مٹی کو سوداگروں کے حوالے کیا، تو غزہ کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو قبروں میں دفناتے وقت پوچھا ہوگا: یہ خون کس قیمت پر بیچا گیا؟ غزہ کے وہ بچّے، مائیں، اور نوجوان جو صہیونی جارحیت کے خلاف ڈٹے رہے، اب ایک بار پھر تنہائی، بے بسی اور دھوکے کے سائے میں آ گئے ہیں۔ یہ وقت صرف نعرے بازی کا نہیں، بلکہ عمل، اتحاد اور بیداری کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر ہے۔ جو قومیں اپنے شہیدوں کے خون کی قیمت پر سیاسی مفاد اٹھاتی ہیں، وہ تاریخ میں کبھی سرخرو نہیں ہوتیں۔ ’’گولان پہاڑی کا سودا ایک ایسی دستاویز ہے جس پر خون سے نہیں، ضمیر کی مردنی سے دستخط ہوئے ہیں‘‘۔
وقت آ چکا ہے کہ ملّت ِ اسلامیہ کے نوجوان، مفکرین اور اہل ِ علم سیاسی حقیقتوں کو بے نقاب کریں، اسلامی اخوت کی روح کو زندہ کریں، اور ان معاہدوں کے خلاف آواز بلند کریں جو ہمیں دشمنوں کے قدموں میں گرانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شام کا فیصلہ صرف شام کا نہیں، بلکہ پوری اْمّت کی آئندہ نسلوں کے مقدر کا فیصلہ ہے۔ ’’کیا وہ اْمّت، جو اپنے شہیدوں کے لہو کی قدر نہ کرے، حق کی پاسبانی کا دعویٰ کر سکتی ہے؟‘‘ آج جب شام جیسے تاریخی اور مزاحمتی مرکز نے استعمار کے دباؤ میں آ کر اپنی سمت بدل لی ہے، تو یہ صرف ایک ملک کا فیصلہ نہیں، بلکہ اْمّت ِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جذباتی غفلت، لسانی تفرقے اور قومی خود غرضی سے باہر نکل کر اْمّت ِ واحدہ کے اس تصور کو عملی شکل دیں جس کی بنیاد نبی کریمؐ نے مدینہ کی گلیوں میں رکھی تھی۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطینی مزاحمت کا حق، اور شہیدوں کے خون کی قیمت ہم نے عالمی سیاست کی میز پر رکھ دی، تو ہم تاریخ میں اپنی کوئی جگہ نہ پا سکیں گے، نہ اللہ کے حضور، نہ آنے والی نسلوں کے سامنے۔ یہ وقت شعور کی بیداری، قومی غیرت کی واپسی، اور فکری و دینی استقامت کا ہے۔ ہمیں وہی زبان، وہی قلم، وہی سچائی، اور وہی مزاحمت دوبارہ زندہ کرنا ہوگی جو سید قطب شہید کی پھانسی گاہ پر بولی گئی، جو شہید اسماعیل ہنیہ کی آنکھوں میں چمکتی تھی اور جو غزہ کے بچّوں کی مٹھیوں میں بند کنکریوں میں اب بھی سانس لیتی ہے۔ اب فیصلہ اْمّت کے باشعور افراد کے ہاتھ میں ہے! وہ اہل ِ علم، اہل ِ قلم، اور اہل ِ درد، جو صرف تقریر نہیں، تحریر نہیں، بلکہ کردار کی طاقت سے وقت کی کج روی کو سیدھا کر سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے ربّ کے اس فرمان کو یاد رکھنا ہوگا: اے ایمان والو! اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ (المائدہ: 8)۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو تاریخ ہم پر خاموش نہیں رہے گی۔ اور اگر ہم نے سچ کا ساتھ نہ دیا، تو جھوٹ ہمارے بچوں کا مقدر بن جائے گا۔ اے اْمّتِ مسلمہ! اب جاگنے کا وقت ہے، بصیرت کا چراغ جلانے کا وقت ہے، اور وفا کے عہد کی تجدید کا وقت ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • شام، ابراہام معاہدے اور گولان پہاڑی
  • سیاست دان ملک کے لیے لچک پیدا کرکے کوئی راستہ نکالیں، مفتاح اسماعیل
  • منفرد بک شاپ جہاں ہر کتاب 50 فیصد رعایت پر ملتی ہے
  • پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا
  • کیا جاپانی خاتون کی 2015 میں کی گئی سونامی کی پیش گوئی درست ثابت ہورہی ہے؟
  • بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش
  • لاہور قلندرز، اے این ایف کے درمیان منشیات کیخلاف آگاہی کیلیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • اینٹی نارکوٹکس فورس پاکستان اور لاہور قلندرز کے درمیان نوجوانوں میں منشیات کیخلاف آگاہی کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • بلوچستان حکومت کا کوئٹہ میں پاکستان ریلویز کے تعاون سے پیپلز ٹرین چلانے کا فیصلہ