واشنگٹن :
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس سے پتہ چلا ہے کہ حالیہ حملے کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے، لیکن انہیں مکمل طور پر تباہ نہیں کیا جا سکا۔ ایران کے پاس اب بھی متعلقہ تکنیکی اور پیداواری صلاحیت موجود ہے ، جس کی بدولت اسے افزودہ یورینیم تیار کرنے میں صرف چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ گروسی نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں اور سفارتی ذرائع سے ایرانی جوہری مسئلے کا طویل مدتی حل تلاش کریں۔ 26 ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایرانی سپریم کونسل نے اس سے قبل ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے منظور کی گئی قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا کہ “کیا ان کے خیال میں ایرانی حکومت نے امریکی حملے سے قبل کچھ افزودہ یورینیم محفوظ کر لی تھی”، تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حملہ ہونے تک ایران کو معلوم نہیں تھا کہ امریکی فوج آرہی ہے۔ اسی دن ایران کے نائب صدر برائے عدالتی امور مجید انصاری نے اعلان کیا کہ ایرانی حکومت نے ایک خصوصی قانونی ورکنگ گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی حالیہ فوجی جارحیت، ایران کی سرزمین اور خودمختاری کی خلاف ورزی ، ایران کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات ، اور حالیہ جنگ میں ایران کی عسکری قیادت ، ایٹمی سائنسدانوں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق قانونی معاملات کا جامع جائزہ لے گی۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

امریکہ پر انحصار کی قیمت

اسلام ٹائمز: اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“ کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

بعض اطلاعات کے مطابق اسرائیل ایران سے کسی نئے معرکے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل جس نے اب تک امریکہ پر مکمل انحصار کیا ہے، کیا وہ وعدہء صادق ٣ کے تجربے کے بعد امریکی دفاعی نظام پر اعتماد کرکے ایران سے خلاف پھر کوئی محاذ آرائی شروع کر سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایران نے جس طرح گزشتہ جنگ میں امریکہ کے افسانوی طرز کے دفاعی سسٹم ”THAAD“ کے پرخچے اڑائے ہیں، اس کا نظارہ اسے تمام دنیا نے اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھا ہے۔ اسرائیلی اخبار HARRETZ ہاریٹز کے ایک تجزیے کے مطابق حالیہ جنگ میں تقریباً 100 تھاڈ میزائیل استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن امریکی میڈیا جیسے CNN کی بعد میں آنے والی رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد کم سے کم 150 بتائی گئی ہے جو اس پروڈیکٹ کی تیاری کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ کے تیار کردہ میزائیلوں کا چوتھائی حصہ ہے۔ بارہ دنوں میں امریکی دفاعی صلاحیت میں اس قدر کمی کچھ اور ہی منظر دکھا رہی ہے۔

مذکورہ تخمینوں کے مطابق اس جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کی مداخلت کے اخراجات کم از کم 1.5 بلین ڈالر تھے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ امریکی اور اسرائیلی افواج کے خدشات محض مالیاتی تناظر میں نہیں تھے۔ بلکہ ان کے لیے اس پیچیدہ نظام کی شکست اور میزائیلوں کی پیداوار کی محدود شرح بھی باعث تشویش ہے۔ ”امریکی میزائیل ڈیفنس ایجنسی“  کے باضابطہ اعلان کے مطابق 2025ء میں صرف 12 تھاڈ میزائیل تیار کیے گئے اور 2026ء تک زیادہ سے زیادہ محض 37 میزائیل تیار کیے جانے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار جو صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں لیے باعث تشویش ہیں، صرف اسرائیل اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کے شائع کردہ ہیں جو یقیناً ایک پرامید نظریہ یا امریکی حکام کی مہیا کردہ معلومات پر مبنی ہیں۔

اگر ان اعداد و شمار کو بھی حتمی سمجھ لیا جائے تب بھی زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ اگر جنگ مزید ایک ہفتہ اور جاری رہتی تو اسرائیل کا دفاعی نظام مکمل طور پر بیٹھ گیا ہوتا۔ ”جیوش انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی ان امریکہ“ (JINSA) میں فارن پالیسی کے نائب صدر ”ایری سیکورل“، حالیہ جنگ کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ تجزیے میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کو اب ایسے انٹرسیپٹرز کی دوبارہ فراہمی کا چیلنج درپیش ہے ، جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباً 12.7 ملین ڈالر ہے۔ اندازوں کے مطابق امریکہ کو 2024ء میں صرف گیارہ تھاڈ میزائیل ملے اور سال کے آخر تک مزید 12 میزائیل ملنے کی توقع ہے۔ امید ہے کہ 2026ء کے مالی سال کے اختتام تک 25 سے 37 کے درمیان مزید میزائیلوں کی  سپلائی کر دی جائے گی۔

دریں اثناء امریکی فوجی اداروں کو خبروں اور معلومات فراہم کرنے والے معروف ”سٹارز اینڈ سٹرپس میگزین“ کے مطابق، پیداوار کی اس شرح پر ، امریکی فوج کے تھاڈ کے ذخیرے کو دوبارہ بھرنے میں آٹھ سال تک لگ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے میں جب کہ امریکہ نے بعض دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تھاڈ سسٹم  فراہم کرنے کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ جن میں سعودی عرب کو 7 تھاڈ سسٹم بھیجنے کے لئے پندرہ بلین ڈالر اور اس کے علاوہ 360 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ شامل ہے۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ کے مطابق صیہونی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کے دوران مقبوضہ علاقوں پر ایران کے برسائے گئے میزائلوں کی لہر نے امریکہ کے انٹرسیپٹر میزائیلوں کے ذخیرے میں پیدا ہونے والے خلاء کو بے نقاب کر دیا ہے۔

اگر ایران اس طرح کے چند اور بڑے میزائیلوں کے حملے کرتا ہے تو اسرائیل اپنے جدید میزائیلوں کے ذخیرے کو ختم کر دے گا۔ ”جنسا“  کی رپورٹ کے نتائج کے مطابق ایسے میں جب کہ ایرانی میزائیلوں کو روکنے والے ساٹھ فیصد انٹر سیپٹر میزائیل THAAD تھے، ایرانی میزائیلوں کے ”ہٹ ریٹ“ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات تھاڈ کے خلاف ایرانی نظام کے فعال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ایران کی مسلح افواج کے پاس صیہونی حکومت کے مختلف مراکز، حتا کہ امریکی کے بعض مراکز کو بھی تباہ کرنے کے ایسے وسائل موجود ہیں جن کی رونمائی ایران نے ابھی تک نہیں کی۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
  • ایرانی سفیر کا یومِ آزادی پر پُرجوش پیغام اور مبارکباد
  • امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ممکنہ تباہی کو ٹالنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا .ٹیمی بروس
  • ایرانی کرنسی سے 4 صفر ختم کرنے کی منظوری
  • امریکی پابندیوں کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کا وقت آ گیا ہے، عراقچی
  • اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ
  • ایران،  اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ کشیدگی کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار
  • امریکہ پر انحصار کی قیمت
  • ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
  • ایران کے جوہری سائنس دان خفیہ مقامات پر منتقل، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار