پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا سربراہ تبدیل
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
ذرائع کے مطابق راوی سنہا کو ’’را‘‘ کے سربراہ کے طور پر توسیع نہیں دی گئی جبکہ پراگ جین کو بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ‘‘را‘‘ میں تبدیلی کرتے ہوئے راوی سنہا کی مدت ختم ہونے پر نیا سربراہ منتخب کر لیا۔ ذرائع کے مطابق راوی سنہا کو ’’را‘‘ کے سربراہ کے طور پر توسیع نہیں دی گئی جبکہ پراگ جین کو بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔ "را" کی قیادت میں تبدیلی کو حکومت کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے اور مودی حکومت ’’را‘‘ کی تبدیلی کے ذریعے اپنی سیاسی پوزیشن محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ پراگ جین کا ماضی پاکستان پر مرکوز آپریشنز سے جڑا رہا ہے اور بھارت کی اسٹریٹجک سمت عالمی سطح سے ہٹ کر علاقائی سطح پر مرکوز ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازع میں بھارتی خفیہ ایجنسی مؤثر کارکردگی نہیں دکھا سکی اور حکومت پر ’’را‘‘ کی ناکامی کا دباؤ بڑھنے کے بعد نئی قیادت لائی گئی۔ پراگ جین کی تقرری کو خطے پر بڑھتی توجہ کی علامت سمجھا جا رہا ہے اور بھارتی حکومت اب علاقائی سلامتی کو عالمی حکمت عملی پر ترجیح دے رہی ہے۔
بعض تجزیہ کار راوی سنہا کی تبدیلی کو حکومتی چہرہ بچاؤ کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ را میں نئی تقرری بھارت کی بدلتی ہوئی خفیہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خفیہ ایجنسی راوی سنہا پراگ جین بھارت کی
پڑھیں:
اسرائیل اور ایران کشیدگی میں روس کا حیران کن حد تک محتاط کردار کیوں؟
عالمی سطح پر جاری اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں روس نے ایک غیر متوقع مگر اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے اثرات وسطی ایشیا کے سیکیورٹی منظرنامے پر بھی پڑ رہے ہیں، حالیہ دورہ ترکمانستان کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی۔
اشک آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں طلبا سے خطاب کے دوران ان کا مرکزی نکتہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی تھی۔
ترکمانستان، جو ایران کے ساتھ 1100 کلومیٹر سے زائد سرحد رکھتا ہے اور جس کا دارالحکومت اس سرحد سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے، اس کشیدگی سے براہ راست متاثر ہو سکتا ہے، وسیع پیمانے پر جنگ کے خدشات نہ صرف انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں بلکہ انتہا پسند نیٹ ورکس کو بھی متحرک کر سکتے ہیں، جو خطے کے اندرونی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں امریکی فوجی مداخلت کے نتائج ناقابل پیشگوئی ہوں گے، روس کا انتباہ
یہ خطرات دیگر جنوبی سابق سوویت ریاستوں تک بھی پھیل سکتے ہیں، جو روس کے ساتھ قریبی سیاسی و عسکری تعلقات رکھتی ہیں، ایسے پس منظر میں لاوروف کی جانب سے کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کی اپیل کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
ماسکو کے لیے ایران محض اتحادی نہیں بلکہ ایک ایسا تزویراتی شراکت دار ہے، جو روس کے جنوبی محاذ کو محفوظ بناتا ہے، تہران میں عدم استحکام وسطی ایشیا میں روسی اثرورسوخ کو کمزور کر سکتا ہے۔
سفارتی اشارے اور تزویراتی ترجیحات
رواں سال جنوری میں روس اور ایران نے ایک جامع تذویراتی شراکت داری معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دو طرفہ تعلقات کو باضابطہ شکل دی گئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے چند روز بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بعد ازاں اس دورے کو ’مکمل باہمی مفاہمت‘ پر مبنی قرار دیا اور روس کی حمایت کی تصدیق کی۔
مزید پڑھیں: امریکا، اسرائیل نے ایران پر حملوں کے لیے آئی اے ای اے کی معلومات استعمال کیں، روس
روس، چین اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نئی قرارداد بھی پیش کی، جس میں فوری جنگ بندی اور سیاسی حل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، روسی سفیر واسیلی نیبینزیا نے واضح کیا کہ اس قرارداد کا مقصد کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنا ہے۔
تاہم ماسکو نے عوامی بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کیا، سینٹ پیٹرزبرگ اکنامک فورم میں صدر پیوٹن نے اسرائیل کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال کرنے سے گریز کیا اور فریقین کے لیے قابلِ قبول سفارتی حل پر زور دیا، یہ محتاط رویہ ظاہر کرتا ہے کہ روس ایک طرف ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ بھی باقاعدہ سفارتی و عسکری رابطے برقرار رکھے ہوئے ہے۔
عباس عراقچی کا دورہ اور دفاعی پیشکش13 جون کو جب اسرائیلی حملوں میں شدت آئی، روس نے فوری طور پر ان کی مذمت کی اور ایرانی خودمختاری کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا، صدر پیوٹن نے امریکی رویے کو ’بلا جواز جارحیت‘ قرار دیا۔
عباس عراقچی کے دورے سے کچھ دن قبل، صدر پیوٹن نے انکشاف کیا کہ روس نے ایران کو فضائی دفاعی نظام میں توسیعی تعاون کی پیشکش کی تھی، جسے ایران نے اس وقت قبول نہیں کیا، روسی مؤقف کے مطابق، اگر ایران یہ پیشکش پہلے قبول کر لیتا تو شاید وہ ان حملوں کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتا۔
ماسکو کے نزدیک سلامتی کا مطلب صرف بیانات نہیں بلکہ عملی نتائج ہیں، اور وہ اپنے شراکت داروں سے بھی اسی طرزِ عمل کی توقع رکھتا ہے۔
معاہدے کی قانونی حدودواضح رہے کہ 2025 میں طے پانے والے روس-ایران معاہدے میں کسی بھی قسم کی باہمی دفاعی ذمہ داری شامل نہیں ہے، یہ نیٹو کے آرٹیکل 5 جیسا معاہدہ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ روس کو ایران کی عسکری مدد پر مجبور کرتا ہے۔ صدر پیوٹن نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ باہمی سیاسی اعتماد اور ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ جنگی تعاون کا ضامن ہے۔
معاہدے میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ دونوں ممالک کسی تیسرے فریق کی اس صورت میں حمایت نہیں کریں گے، جب وہ دوسرے پر حملہ آور ہو، روس نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے، ایران سے اظہار یکجہتی کیا ہے لیکن براہ راست عسکری مداخلت سے گریز کیا ہے۔
پردے کے پیچھے سفارت کاری؟وزیر خارجہ عراقچی کے ماسکو دورے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور ایران سے متعلق اپنا لہجہ نرم کر لیا، عباس عراقچی نے اپنے دورہ استنبول کے دوران کہا تھا کہ روس کے ساتھ بات چیت ’رسماً نہیں بلکہ تذویراتی‘ نوعیت کی ہے۔
امریکی رویے میں اس اچانک تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر ماسکو نے خاموشی سے ثالثی کا کردار ادا کیا ہو، کیونکہ روس ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو تہران اور تل ابیب، دونوں کے ساتھ رابطے رکھتا ہے۔
خلاصہروس مشرق وسطیٰ میں ایک محتاط مگر بااثر کردار ادا کر رہا ہے، ماسکو پر یہ الزام کہ وہ ایران کا ساتھ نہیں دے رہا، سیاسی اور قانونی دونوں حوالوں سے غیر حقیقی ہے، روس جنگ کے بجائے سفارتی حکمت عملی، تعاون اور اثرورسوخ کو ترجیح دیتا ہے اور ایسی صورت حال میں جب الفاظ بھی ہتھیار بن جاتے ہیں، تو ماسکو کی پردہ نشین سفارت کاری بعض اوقات بند کمروں میں ہی نتائج پیدا کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول اسرائیل اشک آباد امریکی صدر ایران تذویراتی ترکمانستان ڈونلڈ ٹرمپ روس سرگئی لاوروف عباس عراقچی کشیدگی وزیر خارجہ ولادیمیر پیوٹن