برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کی نامزد خاتون سربراہ کا نازی تعلق کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
برطانوی دفترِ خارجہ نے بیرونی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی 6 کی پہلی خاتون سربراہ مقرر کی جانیوالی بلیز میٹرویلی کا دفاع کیا ہے، جن کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ایک میڈیا رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے دادا نازی جرمنی کے لیے لڑ چکے تھے۔
برطانوی دفترِ خارجہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ میٹرویلی کے متنازع خاندانی پس منظر نے دراصل ان کے اس عزم کو مزید مضبوط کیا ہے کہ وہ برطانیہ کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کی پہلی خاتون سربراہ کون ہیں؟
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے انکشاف کیا کہ اکتوبر میں ایم آئی 6 کی ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے والی بلیز میٹرویلی دراصل کونسٹنٹائن ڈوبروولسکی کی پوتی ہیں، جو سوویت ریڈ آرمی سے منحرف ہوکر ہٹلر کی افواج میں شامل ہو گئے تھے اور جنہیں نازی مقبوضہ یوکرین میں مبینہ مظالم کے سبب ‘قصائی‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس انکشاف کے بعد برطانیہ کے دفترِ خارجہ، دولتِ مشترکہ اور ترقیاتی امور کے ایک نمائندے نے جمعے کے روز بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلیز میٹرویلی نہ تو اپنے دادا کو جانتی تھیں، نہ ہی کبھی ان سے ملاقات ہوئی۔
مزید پڑھیں:
’ان کا خاندانی پس منظر مشرقی یورپ کی طرح پیچیدگی اور تقسیم سے عبارت ہے، اور مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔۔۔یہی پیچیدہ ورثہ اُن کے اس عزم میں شامل ہے کہ بطور ایم آئی 6 کی آئندہ سربراہ، وہ تنازعات کی روک تھام اور برطانوی عوام کو آج کے دشمن ریاستوں سے درپیش جدید خطرات سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔‘
ڈیلی میل کے مطابق، ڈوبروولسکی نازی جرمنی کی ایس ایس ٹینک یونٹ میں خدمات انجام دے چکے تھے، بعد ازاں وہ نازی فوجی پولیس میں شامل ہوئے، جو یہودیوں، مزاحمت کاروں اور سیاسی قیدیوں کے قتلِ عام میں ملوث تھی۔
مزید پڑھیں:
ڈوبروولسکی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 1943 میں مارے گئے تھے، ان کی بیوہ بعد ازاں برطانیہ منتقل ہو گئیں، جہاں انہوں نے جارجیا سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ میٹرویلی سے شادی کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم آئی 6 برطانوی دفتر خارجہ بلیز میٹرویلی بیرونی انٹیلیجنس ایجنسی ترقیاتی امور دولت مشترکہ ڈیلی میل سوویت ریڈ آرمی قصائی کونسٹنٹائن ڈوبروولسکی نازی ہٹلر یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم ا ئی 6 برطانوی دفتر خارجہ بلیز میٹرویلی بیرونی انٹیلیجنس ایجنسی ترقیاتی امور دولت مشترکہ ہٹلر یوکرین ایم آئی 6 کی کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
ٹیکٹیکل تعلق یا نئی اسٹرٹیجک شراکت؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔18 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ظہرانے پر مدعو کیا۔ یہ ملاقات سفارتی لحاظ سے غیر معمولی ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی بھی کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی آرمی چیف سے براہ راست ملاقات نہیں کی جب وہ ریاست کے سربراہ نہ ہوں۔ اس ملاقات کا وقت اور نوعیت کئی اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں۔
اسٹرٹیجک اہمیت: صدر ٹرمپ کی جانب سے عاصم منیر کو دعوت دینا، نہ کہ کسی سویلین قیادت کو، اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کا اصل کنٹرول فوج کے پاس ہے۔ ٹرمپ کا براہ راست آرمی چیف سے رابطہ، پاکستان کی کمزور جمہوری اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس بات کا اظہار ہے کہ واشنگٹن کو اصل طاقت کہاں نظر آتی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کے سویلین نظام کی مزید کمزوری کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ فوجی بالادستی کو مزید جواز فراہم کرتا ہے۔ تاہم امریکا کے لیے یہ ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی بھی ہے کیونکہ دہشت گردی، جوہری استحکام اور علاقائی سلامتی جیسے معاملات میں مؤثر شراکت داری فوجی قیادت سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام: پاکستان دنیا کی پانچویں بڑا جوہری طاقت ہے، جس کے پاس 165 سے 200 کے درمیان وارہیڈز ہیں، جن میں سے کئی بھارت کے خلاف میدان جنگ میں استعمال کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ امریکا طویل عرصے سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی سیکورٹی، کنٹرول اور دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے کے امکانات سے پریشان رہا ہے، خاص طور پر ڈاکٹر اے کیو خان کے نیٹ ورک کے بعد۔ ٹرمپ کی منیر سے ملاقات کا ایک مقصد ممکنہ طور پر اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنا تھا کہ ایران تنازعے کے دوران پاکستان کسی بھی غیر مستحکم جوہری طرزعمل سے باز رہے گا اور ایران کو جوہری مہارت کی منتقلی نہیں کرے گا۔
ایران تنازع میں پاکستان کا کردار: یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکا اور اسرائیل، ایران کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ 909 کلومیٹر طویل سرحد اور تاریخی تعلقات اسے اس تنازعے میں ایک کلیدی کھلاڑی بناتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان: 1۔ ایرانی اہداف پر حملوں کے لیے فضائی حدود فراہم کرے۔ (جیسا کہ افغانستان جنگ میں کیا گیا تھا) 2۔ ایران کے حمایت یافتہ گروہوں جیسے ’’زینبیون بریگیڈ‘‘ کے خلاف کارروائی کرے۔ مگر پاکستان کے لیے یہ نہایت نازک معاملہ ہے۔ ایران کے خلاف واضح حمایت سے پاکستان میں موجود اہل تشیع میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، ایران بلوچستان میں علٰیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کر سکتا ہے۔ اسی لیے امکان ہے کہ پاکستان پردے کے پیچھے معلوماتی تعاون کرے گا اور بظاہر غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔
بھارت کو توازن میں رکھنے کی کوشش: ٹرمپ کی یہ ملاقات بھارت کے لیے بھی ایک پیغام ہو سکتی ہے کہ امریکا کی حمایت خودکار نہیں ہے۔ یہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے تاکہ وہ ایران پر سخت موقف اپنائے یا مسئلہ کشمیر پر نرم رویہ اختیار کرے۔ امریکا شاید پاکستان کو یہ موقع بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ بھارت مخالف دہشت گرد گروہوں جیسے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کر کے اپنی عالمی ساکھ بحال کرے۔ اس سے امریکا کی توجہ ایران تنازع پر مرکوز رہ سکتی ہے۔
چین سے دور کرنے کی کوشش: چین کے ساتھ پاکستان کی گہری معاشی و عسکری شراکت داری (جیسے CPEC میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری) نے بیجنگ کو اسلام آباد پر گہرا اثر رسوخ دے دیا ہے۔ ٹرمپ کی یہ کوشش شاید پاکستان کو چین کے اثر سے نکالنے کی ایک کوشش ہو، جس کے تحت اسے فوجی سازو سامان (مثلاً F-16 طیارے) یا آئی ایم ایف بیل آؤٹ جیسے اقتصادی مراعات دی جا سکتی ہیں۔ تاہم، مکمل اتحاد تبدیلی مشکل ہے کیونکہ چین پر پاکستان کا انحصار بہت گہرا ہو چکا ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ پاکستان چین سے اتحاد برقرار رکھتے ہوئے امریکا سے محدود فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان اور امریکا کے اندرونی اثرات: پاکستان میں فوج اس ملاقات کو ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی۔ معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں، فوج کی امریکا تک براہ راست رسائی اس کے قومی محافظ کے تاثر کو تقویت دیتی ہے۔ ٹرمپ کے لیے، یہ قدم ان کے ’’طاقتور لیڈر‘‘ والی سفارت کاری کا تسلسل ہے۔ وہ روایتی پروٹوکول کو توڑ کر عملی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی، یہ قدم ان کے ناقدین کو جواب بھی ہے جو انہیں خطے میں عدم دلچسپی کا الزام دے سکتے تھے۔
وقتی حکمت عملی یا نئی صف بندی؟: خلاصہ یہ ہے کہ یہ ملاقات ایک عارضی حکمت عملی لگتی ہے نہ کہ کوئی نئی اسٹرٹیجک شراکت۔ امریکا کا اصل ہدف: ایران تنازع میں پاکستان کی غیر جانبداری، چین و روس کے ساتھ کسی ممکنہ مخالف اتحاد کو روکنا، بھارت پر دباؤ برقرار رکھنا ہے۔ پاکستان غالباً محتاط تعاون کرے گا، مگر ایران یا چین سے کھلی مخالفت سے گریز کرے گا۔ آنے والے ہفتے طے کریں گے کہ یہ صرف ایک وقتی سفارتی اقدام تھا یا واقعی کوئی بڑی صف بندی کی شروعات۔ فی الحال، یہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ بڑی طاقتوں کی سیاست کی ایک اور مثال ہے۔