عالمی جوہری توانائی ایجنسی چیف کی ایران داخلے پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران (صباح نیوز)ایران نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی( آئی اے ای اے ) کے سربراہ رافیل گروسی کے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی۔ ترکیہ خبر رساں ادارے کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ رافیل گروسی کا بمباری سے متاثرہ جوہری مقامات کا دورہ کرنے پر اصرار بے معنی ہے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایکس اکائونٹ پر ایک بیان میں کہا، آئی اے ای اے اور اس کے ڈائریکٹر جنرل (رافیل گروسی) اس سنگین صورتحال کے لیے مکمل طور پر ذمے دار ہیں۔ تحفظات کے بہانے بم زدہ مقامات کا دورہ کرنے پر گروسی کا اصرار بے معنی ہے اور ممکنہ طور پر اس کا مقصد بھی خراب ہے۔ ایران اپنے مفادات، اپنے عوام اور اپنی خودمختاری کے دفاع
میں کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایرانی ایٹمی تنصیبات سے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے کیمرے بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے 13جون کو ایران پر حملوں کا آغاز کیا، جس میں 10سے زائد ایٹمی سائنسدان، اعلیٰ فوجی افسران کو قتل کردیا گیا جبکہ فضائی حملوں میں سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایران ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے سے نکلنے ارادہ نہیںرکھتا، صدر مسعود پزشکیان
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، اور وہ انتہائی افزودہ یورینیئم کے معاملے پر شفاف طریقہ کار اپنانے کے لیے تیار ہے۔
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق، صدر پزشکیان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کی دیوار اب بہت اونچی ہو چکی ہے، جسے گرانا آسان نہیں ہوگا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سالانہ اجلاس کے موقع پر، انہوں نے سوئٹزرلینڈ کی صدر کیرین کیلرسٹر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات کے حامی ہیں، اور ایٹمی معاملے پر مذاکرات کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔
صدر نے مزید کہا کہ ایران ایٹمی سرگرمیوں کے حوالے سے شفافیت اختیار کرنے پر آمادہ ہے، لیکن اگر عالمی طاقتیں صرف پابندیاں ہی عائد کرتی رہیں، تو پھر مذاکرات کا فائدہ کیا ہے؟
ایرانی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران کے ایٹمی پروگرام پر ایک بار پھر عالمی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور مغربی ممالک ایران پر اعتماد کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔